ہوگئی گزارے لائق۔۔۔ ویسے مجھے نہیں تھا پتا کہ میں جلدی میں دائم کی گاڑی لے آیا ہوں۔۔۔ خلیہ بگاڑا ہوا اس نے گاڑی کا" دائم کا اوکے کا میسج پڑھتے ہوئے وہ متوجہ ہوئی جب حانی اندر بیٹھ چکا تھا۔۔۔۔اب تو مینو کا بنا منہ وہ بھی دیکھ چکا تھا۔ اسکی ساری محنت جو ضائع چلی گئی تھی ۔
"اب مجھے کہیں نہیں جانا۔۔۔۔ گھر ہی چلتے ہیں" حانی اب حیرانگی لیے اسکا اداس چہرہ دیکھ رہا تھا۔۔۔ اسے لگا کہ وہ خفا ہو گئی ہے۔۔۔
"ٹھیک ہوگئی ہے نا مینو۔۔۔۔ آئی ایم سوری۔ مجھے واقعی نہیں تھا پتا" وہ اب سنجیدگی اوڑھے تھا۔
"کوئی بات نہیں حانی۔۔۔۔ لیکن اب میرا موڈ نہیں ہے۔ ویسے بھی رات بھی کافی ہو گئی ہے" اب جب مشن ہی فیل ہو گیا تھا تو وہ مزید حانی کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تھی۔۔
"دیکھو یوں خفا تو مت ہو۔۔۔۔" وہ جیسے بے قراری لیے بولا تو مینو اسے دیکھتے مسکرا دی۔
نیلم نے کھا جانے والے انداز میں سرگوشی کی۔
"تمہاری ہی کالی زبان ہے۔۔ گاڑی خراب ہو گئی ان دونوں کی" دائم بھی منہ کا زاویہ بنائے بولا۔
"میری زبان کا قصور نہیں۔۔ پھٹیچر گاڑی رکھی ہے تو ایسا تو ہوگا۔ مرنے والی ہے پر نئی نہ لینا" اب تو دائم بھی اسکے منہ کو دیکھ کر بے ساختہ ہنسا۔ دائم کو یاد آیا کہ آج صبح واقعی اسکی گاڑی گڑبڑ کر رہی تھی۔۔۔ دانیہ کی وجہ سے دائم کو حانی کی گاڑی لانی پڑی تھی۔۔۔ اور ان بچاروں کے پاس واقعی دائم کی پھٹیچر ہی تھی۔
"یہ کیا سرگوشیاں کر رہے ہو۔۔۔ چلو بھی" دانیہ نے مڑتے ہوئے ایک نظر دونوں پر ڈالی تو وہ مسکین شکل لیے مسکرا دیے۔
"چلیں جی چلیں" دائم نے کہا تو وہ تینوں گاڑی میں بیٹھ گئے۔
◇◇◇
دائم۔۔۔ حانی کی گاڑی خراب ہو گئی ہے راستے میں۔اور یہاں دور دور تک کوئی مکینک بھی نہیں۔ کیا پتا کتنا وقت لگ جائے۔۔۔ سوری پلیز" میسج پڑھتے ہی دائم کا منہ لٹک گیا جبکہ دانیہ اب کھانے میں بزی تھی۔ نیلم نے آنکھ سے اشارہ کیا جس پر دائم مزید منہ ٹیڑھا کر چکا تھا۔۔۔۔۔۔ کھانا بھی ان دونوں بے بے دلی سے ہی کھایا تھا۔
"کھانا تو ہو گیا۔۔۔دیکھو آئس کریم کے لیے آئی تھی پر مجبورا تم لوگوں کے کہنے پر کھانا بھی کھایا۔۔۔اب چلیں" دانیہ تو دونوں بچاروں کے ناکام مشن سے ناواقف تھی۔۔۔ وہ دونوں بھی اٹھ گئے۔
"ظاہر ہے۔ یہاں محفل کا آغاز تھوڑی ہونے والا ہے" دائم نے بل پے کرتے ہوئے اتنے سڑے انداز میں کہا کے وہ دونوں ہی ہنس دیں۔
"ھاھا آجاو" دانیہ مسکراتی ہوئی آگے بڑھی جبکہ نیلم اب دائم کے کان کے قریب آئی۔
"تمہارا تو ہر آئیڈیا فیل ہوتا۔۔۔ دیکھ لو ہو گیا کبارہ"
وہ تینوں بھی ریسٹورینٹ گئے۔۔۔ اور کھانا بھی آرڈر کر دیا۔ مینال تو کیا اسکا سایہ بھی کہیں دیکھائی نہ دیا۔ اب تو نیلم ، دائم کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ انکا پلین برے طریقے سے تباہ ہو گیا تھا۔۔۔۔۔ دائم اور نیلم نے بھرپور کوشش کی تھی کہ مینو کا انتظار کرتے مگر پھر دانیہ کو شک پڑنے کی وجہ سے انھیں مجبورا کھانا آرڈر کرنا پڑا۔۔۔۔۔ نیلم تو دل میں مینو پر بے حد غصہ تھی۔ پتا نہیں وہ کیوں حانی کو لے کر نہیں پہنچی تھی۔ دانیہ تو کب سے ان دونوں کا لٹکا منہ دیکھ رہی تھی۔ کچھ دیر کی پرجوشی جیسے ایک دم غائب ہو گئی تھی۔
"تم دونوں اتنے پریشان کیوں ہو۔۔۔ فکر مت کرو۔ بل میں دے دیتی ہوں" دانیہ نے مسکرا کر کہا تو دائم نے مجبورا دانت نکالے جبکہ نیلم کے چہرے پر ویسی ہی سنجیدگی تھی۔ اسی لمحے دائم کے سیل پر میسج آیا۔۔۔ میسج مینو کا تھا۔
"اسکا کیا مطلب ہوا" وہ جانتا تھا کہ وہ اسے الجھا رہا ہے۔ اس نے جیسے خود کی سرزنش کی۔
"کچھ نہیں " وہ یک دم بولا تو مینال گاڑی سے نکلنے لگی۔۔حانی نے اسکا ہاتھ پکڑا تو جیسے ایک بار پھر مینو کی چلتی ڈھڑکن میں حلل آیا۔۔۔
"مت اترو ابھی۔ ریسٹورینٹ نہیں آیا مینو۔ گاڑی بند ہو گئی ہے" اور پھر اگلے ہی لمحے حانی کو باہر جاتا دیکھ کر اسکی سانس بحال ہوئی۔۔۔
"ہیں۔۔۔۔ اب یہ گاڑی کو کیا ہوگیا" وہ جس چیز کو آوائڈ کر رہی تھی سب وہی کچھ ہو رہا تھا۔۔۔۔۔
◇◇◇
آخر کار وہ تو پوری کی پوری آپکے نام ہو جائیں گی۔۔۔۔یو آر سو لکی حانی۔۔۔۔ کہ دانیہ آپکی لائف میں آنے والی ہیں" حانی نے ایک نظر مینو کو دیکھا۔۔۔اس چہرے کا رنگ ایسا تھا کہ گویا کسی نے کوئی انہونی بات کہہ دی ہو۔۔۔۔۔
"ہممم۔۔۔ رائٹ۔۔۔۔ لیکن یو نو۔۔۔ خوشقسمتی کا معیار ہر انسان کے لیے الگ ہوتا ہے۔۔۔۔۔" وہ پھر سے اسے سامنے دیکھتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔
"دانیہ کے لیے میرا اور آپکا یہ معیار تو ایک جیسا ہے نا حانی" وہ بے یقینی لیے تھی۔ اور وہ کیا کہتا۔۔۔۔ اسکے پاس تو بعض جواب ہونے کے باوجود نہیں تھے۔
"شاید۔۔۔۔۔ بعض اوقات ہم جس چیز سے فرار حاصل کرنے کی کوشش میں ہوتے ہیں، وہی ہماری زندگی کی سب سے بڑی حقیقت بن کر سامنے آجاتی ہے" حانی نے جیسے یک دم گاڑی روکی۔۔ وہیں مینال کا دل رکا۔۔۔۔وہ حانی کی اس بات سے الجھ سی گئی۔
کیا بتاتی کہ مینو نے تو خود اپنا آپ تک کھو دیا ہے تو پھر وہ آپکو آپکی مینو کیسے لوٹائے۔۔۔۔ پھر جیسے وہ چہرے پر مسکراہٹ لائے دوباہ حانی کو دیکھنے لگی۔
"میں نے سوچا۔ شادی کے بعد کونسا آپ نے مجھے لفٹ کرانی۔ تو کیوں نہ آج ہی موقعے سے فائدہ اٹھا لوں" وہ خود کو نارمل کرنے میں مہارت رکھتی تھی۔۔۔۔ حانی بھی مسکرا دیا۔ مینو اسے ساتھ ریسٹورنٹ کا نام بھی بتا چکی تھی
"بھئی شادی کا مطلب یہ تھوڑی ہے کہ میں مکمل دانیہ کے نام لگ جاوں گا۔۔۔۔ تم سبکا وقت بس تم سب کا ہی ہوگا۔ اور تم تو میرے لیے ویسے بھی بہت خاص ہو" وہ سامنے دیکھتے ہوئے بولا تو آخری بات پر جیسے مینو کے دل کی ڈھڑکن بڑھی۔۔۔ ناجانے کیوں آجکل اسے حانی کے لفظوں سے کچھ اور ہی رنگ دیکھائی دیتا تھا اور پھر وہ اسے اپنا وہم سمجھ کر جھٹک دیتی۔۔۔
"دانیہ آپی کی پرمیشن تو چاہیے ہوگی نا۔۔۔۔۔
بھلے وہ ہنستی تھی پر اسکا دل روتا تھا۔۔۔۔ وہ اپنے خالی ہاتھوں پر رو دینا چاہتی تھی۔۔۔۔ یہ کیسی بے بسی تھی کہ وہ حانی کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔۔۔ کیسے سوچ لیتی۔۔۔۔۔ وہ اپنا سب کچھ صرف لٹانے کے حق میں ہو وہ انسان کب بھلا خود کے لیے سوچتا ہے۔۔۔۔۔ دانیہ کےلیے اس نے کبھی برا نہیں سوچا تھا۔۔۔۔ شاید اس میں مینو کی جان تھی۔ اور اگر دانیہ اسکے اتنے قریب نہ بھی ہوتی تو شاید مینو آج بھی اتنی بے بس ہوتی۔۔۔۔۔ اسے تو خود یہ تک نہیں معلوم تھا کہ اس کے ساتھ بیٹھا یہ شخص بھی ایک مدت سے اسی اذیت کا شکار ہے۔۔۔۔ مینو کو اپنی دسترس سے بہت دور دیکھتا حنوط مرتضی اندر سے کس قدر تکلیف میں تھا یہ تو وہ ہی جانتا تھا۔۔۔۔۔۔۔ مینو تو کچھ دن سے اپنی آنکھوں سے بھی ڈرنے لگی تھی۔۔۔۔ اسے ڈر تھا کہیں وہ بغاوت کر گئیں۔۔یا حانی کے سامنے سچ بول گئیں
وہ وہاں سے اٹھ کر چلا گیا اور مہر نے ٹیبل پر پڑا اپنا فون اٹھا لیا۔۔۔ شاید وہ منگنی کا منع کر کے شادی کا کہنے والی تھی۔
◇◇◇
پورے راستے مینو اس ساتھ بیٹھے شخص کے بولنے سے ڈرتی رہی۔ کہ کہیں حانی کچھ ایسا نہ کہہ دے کہ وہ لاجواب ہو جائے۔ اب شاید حانی سے دور رہنا ہی اسے اپنے فرار کی کامیابی لگتا تھا۔۔۔۔ اسکا دل تو جیسے اس سے بغاوت پر آمادہ تھا۔۔۔۔ مگر وہ مر کر بھی اپنے عہد سے دستبردار نہیں ہو سکتی تھی۔۔۔۔دونوں ہی ایک دوسرے کی اذیت کا سامان بنا رہے تھے۔۔۔۔۔ یہ بھی تو ایک امتحان تھا۔۔۔۔۔ دونوں ایک دوسرے کے ہو کر بھی ان کناروں کی طرح اپنی جگہ پر جمے تھے جن کے نصیب میں بس ایک دوسرے کو دیکھ لینا ہے۔۔۔۔۔۔یہ کیسا دھوکہ تھا جو مینو کی زندگی اسے دے بیٹھئ تھی۔ آخر کس لیے مینو کے دل میں وہ شخص بس گیا تھا جو اسکا زرا سا بھی نہیں تھا۔۔۔۔۔۔
۔ چہرے پر نا ختم ہونے والی تلخی عیاں تھی۔
"مجھے میری زندگی کا پھیکا پن بے حد عزیز ہے۔۔۔ ہم جیسے مزید رنگوں کی حسرت نہیں کرتے۔۔۔۔ سچ پوچھو تو عادی کو اب ہر رنگ سے وہشت ہی ہوگی" وہ دل میں سوچ رہا تھا۔۔۔
"وعدہ کرو۔۔۔ تم اپنی ذات کا ادھورا پن حرا سے پورا کرو گے۔۔۔ اسے کسی چیز کی سزا دینے کا مت سوچنا۔۔۔" یہ کیسا وعدہ لے بیٹھی تھی مہر۔۔۔۔۔ عادی کا دل کچھ لمحے کو تھم سا گیا۔
"تم جانتی ہو مجھے وعدے کرنا پسند نہیں" وہ تھکے انداز میں بولا۔
"لیکن میں تم سے یہ ایک پہلا اور آخری وعدہ چاہتی ہوں۔۔۔۔ " مہر کی آنکھوں میں ایک آس تھی۔ اور اس آس کے ٹوٹنے کا دکھ عادی بخوبی سمجھتا تھا تبھی اسے مایوس نہیں کرنا چاہتا تھا۔
"بس کر دو مہر۔۔۔ کہا ہے نا۔ یہ انتشار اور یہ بے قراری میری اپنی ہے۔ میں اسے کسی سے شئیر نہیں کروں گا"
"تو میں نے کب کہا کہ میں اسے اپنی سرد مہری کا شکار کرنے والا ہوں۔ فار گارڈ سیک۔۔۔۔ ایسا کچھ نہیں ہے۔ اور ویسے بھی زندگئ سمجھوتے کا ہی نام ہے۔۔۔ میرا سمجھوتہ کچھ کڑا سہی۔۔۔۔ ڈونٹ وری" وہ مطمئین نہ ہوسکی تھی۔ وہ اسکے چہرے کی سنجیدگی اور مایوسی سے بے چین ہوئی۔
"تم مجھ سے مار کھانے والے کام مت کرو۔۔۔۔ شادی ہو رہی ہے ایک سمائیل نہیں دے سکتے" مہر کی آنکھیں شکایت لیے تھیں۔
"بغیر سمائیل کے بھی ہو جائے گی" عادی کا سڑا جواب سن کر مہر کا جیسے دل جل گیا۔
"عادی۔۔۔۔ جب اوپر والا کچھ لیتا ہے تو بدلے میں وہ اس سے بہترین سے بھی نوازتا ہے۔ حرا ہی تمہیں ڈیزرو کرتی ہے۔ وہ تمہاری زندگی کے سارے پھیکے رنگ اتار دے گی۔۔۔۔ تم بھروسہ تو کرو" مہر کے لہجئے میں جیسے شفقت سما گئی۔ مگر وہ چپ تھا۔۔۔کچھ دنوں سے بڑھی شیو نے جیسے اسے مزید بوجھل سا پیش کر رکھا تھا۔
"ہونی جو ہے۔۔۔۔ تو پھر اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ جلدی ہو یا دیر سے۔۔۔۔۔ میں منگنی کہ حق میں نہیں۔۔۔۔ نکاح کا کہہ دو انھیں۔ جتنے دن لینا چاہتے وہ لے لیں" عادی سنجیدگی سے صوفے پر نیم دراز تھا۔۔۔۔۔ ٹی وی پر نیوز دیکھتے ہوئے وہ بولا۔ مہر کو ایک بار پھر اسکی فکر نے گھیر لیا۔
"عادی۔۔۔تم اپنی خوشی سے کر رہے ہو نا یہ شادی۔ دیکھو عادی مجھے اس احساس جرم میں مبتلا مت کرنا کہ میں نے تمہارے ساتھ کوئی ناانصافی کر دی" مہر کا بوجھل چہرہ مزید اداس سا ہوا۔۔وہ اٹھ کر اب عادی کے ساتھ بیٹھی جو بڑی بے مروتی سے ٹی وی پر نظریں جمائے تھا۔
"عادی حرا بہت اچھی ہے۔ تم دونوں ایک ساتھ بہت اچھی زندگی گزارو گے۔ وہ تمہارا کوئی بھی سرد رویہ ڈیزرو نہیں کرتی" مہر کی فکرمندی دیکھ کر وہ سنجیدہ ہوا اور اٹھ کر ٹیک لگائے بیٹھ گیا۔
اور میسج ٹائپ کرتی کرتی حانی کے پیچھے ہی چلی گئی۔
◇◇◇
"لو جی میں رشتہ پکا کر آئی۔۔۔ کل خیر سے منگنی کی چھوٹی سی رسم کر دیں گے۔ ماشاء اللہ لاکھوں میں ایک ہے حرا۔۔۔ خوبصورت بھی اور خوب سیرت بھی" مہر آتے ہوئے ڈھیر سئ شاپنگ بھی کر کے آئی تھی۔ اور وہ تو بہن کی ان تیزیوں پر ساکت اور حیران تھا۔
"اب یہ منگنی کا کس نے کہا تم کو مہر۔ نکاح اہم ہے وہی ہوگا۔ میں ایسی کسی فضول رسم میں انٹرسٹڈ نہیں" مہر تو اسکا سڑا جواب ہی سننے کی توقع میں تھی۔۔۔ پر ڈائریکٹ نکاح پر وہ خوشگوار حیرت لیے بھی نظر آئی۔۔۔۔ وہ تو بغیر کسی تاثر کے تھا۔
"لڑکے تم مجھے شاک دینے بند کرو۔۔۔۔ پہلے تو تم مان نہیں رہے تھے پھر یک دم تم ایسے مانے جیسے تم تو صدیوں سے تیار بیٹھے ہو۔ اور اب ہتھیلی پر سرسوں جمانا چاہتے ہو؟" مہر اب سر پکڑے تھیں۔
"چلو تم باقی تینوں کو کہو۔ میں آتا ہوں یہ رکھ کر" حانی کھڑے ہوتے ہوئے لیپ ٹاپ اور فون اٹھائے بولا تو وہ بھی افسردہ منہ بنائے کھڑی ہو گئی۔
"کیا ہوا؟" حانی نے فورا اسے دیکھتے کہا۔
"کیا بتاوں حانی۔ وہ تینوں اکیلے اکیلے آئس کریم کھانے نکل گئے۔ میں یونہی کمرے میں لیٹی تھی تو مجھے سویا سمجھ لیا تینوں نے" مینال کی رونی صورت دیکھے وہ ہنس دیا۔
"ھاھا مطلب ان تینوں نے پہلئ بار ہم غریبوں کو دھوکہ دے ڈالا" حانی بھی ہنسا۔
"جی۔۔۔۔۔ تبھی تو کہا کہ انھیں چھوڑیں۔۔۔ آج ہم دونوں جاتے۔۔۔ اکیلے۔۔۔۔" مینو کو بھی مشن کمپلیٹ ہوتے ہوئے نظر آرہا تھا۔۔ حانی نے ایک نظر مینو کو دیکھا اور سر ہلا دیا۔
"اوکے ڈن۔۔۔۔ چلو" حانی آگے تھا جبکہ مینو بھی پیچھے پیچھے چل دی۔۔
"اوہ شکر ہے۔۔۔۔۔ میسج کر دیتی ہوں دائم کو" مینو نے چلتے چلتے کہا
اب تو جیسے جیسے شادی قریب آرہی تھی۔۔ مینو کا دل اتنی ہی شدت سے بے قراری کے سفر پر گامزن تھا۔
"کچھ خاص نہیں۔۔۔ تھوڑا کام تھا وہی ختم کیا۔ تم بتاو" حانی نے لیپ ٹاپ بند کیے سامنے رکھا اور مینو کو دیکھتے پوچھا۔
"گڈ۔۔۔۔ میں تو بہت بور ہو رہی" وہ اب معصومیت منہ پر لائے بولی تو حانی مسکرا دیا۔
"آہاں۔۔۔۔ یعنی تمہاری بورئیت دور کرنے کا وقت ہوا چاہتا ہے" ہلکی ہلکی مسکان لیے وہ بولا۔
"جی بلکل۔۔۔۔ کہیں باہر چلیں۔" اب تو واقعی حنوط حیران ہوا تھا۔۔ کتنا عرصہ ہو گیا تھا مینو کو یوں باہر جانے کی فرمائش کیے۔ ایک خوشگوار سئ مسکراہٹ دونوں طرف ابھری۔
"کیوں نہیں۔۔۔۔ بھئی اتنے ٹائم بعد مجھے پہلی والی مینو دیکھائی دی ہے۔۔۔ میں بلکل آفر رد نہیں کروں گا۔" حانی اتنی جلدی مان گیا تو جیسے اسے کچھ تسلی سی ہوئی۔
"تھینک یو" وہ بھی مسکرائی۔
آجائیں" اب تو دانیہ واقعی حیران ہوئی تھی۔۔۔۔ وہ دونوں آج اسے زیادہ ہی ایفیشینٹ لگ رہے تھے۔۔
"میں گاڑی نکالتا ہوں" دائم اپنی گاڑی کی طرف بڑھتے بولا۔
"تمہاری گاڑی تو خراب نہیں تھی" دانیہ نے مشکوک نظریں دائم پر گاڑے کہا تو وہ مسکین شکل بنائے سر میں ہاتھ پھیرنے لگا۔۔۔ نیلم بمشکل ہنسی روکے تھی۔
"اوہ ہاں یار۔۔۔ دیکھیں ایکسائٹمنٹ میں دماغ سے نکل گیا۔۔۔۔ آجائیں۔۔۔ حانی بھائی کی گاڑی ہے نا" اب تو دائم اور نیلم دونوں ہنسے تھے جبکہ بڑی کوشش کے بعد آخر دانیہ مسکرا کر گاڑی میں بیٹھ گئی۔۔۔۔
"آہااااا" دائم نے بیٹھنے سے پہلے ایک خوشگوار آہ بھری۔۔۔ آخر کار آدھا مشن مکمل ہو گیا تھا۔۔۔۔
◇◇◇
تو نیلم نے بمشکل ہنسی دبائی۔
"ھاھا ڈرامے باز۔۔۔۔اوکے چلو" دانیہ کے کہنے کی دیر تھی کہ دونوں کے چہرے دوسو والٹ کے بلب کی طرح روشن ہو گئے۔
"دانیہ آپی اچھا سا ڈریس ڈال کر آئیں۔ اسے دیکھیں کتنا تیار ہے۔ آپ اسکے ساتھ اتنی سادہ اچھی تھوڑا لگیں گی" دانیہ ہنسی جبکہ نیلم اسے بڑی مہارت سے کہنی رسید کر چکی تھی جسے وہ دانت نکالے ضبط کر گیا تھا۔۔۔
"ھاھا۔۔۔ ہم بارات پر نہیں جا رہے میرے بچے۔ چلنا ہے تو چلو۔ ورنہ میں بھی جا رہی سونے" اس سے پہلے کے دانیہ اپنا ارادہ بدل لیتی وہ فورا اسی کو غنیمت جانے سر ہلائے مسکرا دیے۔ دانیہ سنپل سی بھی سب پر بھاری تھی۔۔ہلکے پیلے اور سفید ڈریس میں وہ جاذب دیکھائی دیتی مسکرا کر ان کے ساتھ چل دی۔۔ پھر جیسے پلٹی۔
"میں مما اور پھپھو کو تو بتا آوں" دانیہ نے کہا تو دائم فورا مڑا۔
"ہم نے پہلے ہی انکو بتا دیا۔۔۔۔
"اور کیا۔۔۔۔ ہم بہت بور ہو رہے ہیں۔۔۔ مزہ آئے گا نا۔۔۔۔" دائم نے بھی ساتھ میں متفقہ ہاں ملائی۔۔
"اچھا۔۔۔۔ ٹھیک ہے۔۔ حانی اور مینو کو بلاو۔۔۔ چلتے ہیں" دانیہ کی بات پر دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔۔۔۔ پھر دائم نے جیسے کمال قسم کی افسردگی منہ پر لائی۔
"اوھو۔۔۔۔۔مینو تو سو گئی آپی۔۔۔ اور حانی بھائی نے ٹکا کہ نہ کہہ دی کہ میں تو تھکا ہوں سونے لگا ہوں۔ چھوڑیں نا انھیں۔ ہم چلتے ہیں" اب تو دانیہ بھی اداسی لیے تھی۔۔۔۔
"تو ہم بھی نہیں جاتے پھر" دائم کو جیسے کرنٹ لگا۔۔۔
"کیوں کیوں کیوں۔۔۔۔۔ مجھے نہیں پتا" دائم کا منہ دیکھ کر وہ دونوں ہی ہنس دیں۔
"ویسے مجھے کیوں لگ رہا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے" اب تو دانیہ اسکی اوور ایکٹنگ بھانپتے ہوئے ہنسی۔۔۔۔
"یہ دن بھی آنا تھا۔۔۔۔ ہمارے خلوص پر اتنا شک" وہ کسی روٹھی محبوبہ کی طرح رخ پھیرے بولا
جبکہ دائم تو اب منہ ٹیڑھا کیے تھا۔
"تو اس میں کیا ہے گدھے۔۔۔ ویسے آج خیریت ہے۔۔۔ تم گھر پر کیسے ہو؟" نیلم تو بیٹھتے ہی میگزین لیے دیکھنے لگی جبکہ دائم بھی اب مسکین سی شکل لیے ہنس دیا۔ دائم زیادہ تر اس وقت دوستوں کے ساتھ ہوتا تھا تبھی دانیہ کو اسے گھر دیکھ کر حیرت ہوئی۔
"وہ دراصل آج ایک مشن" دائم کے منہ سے نکل ہی جاتا اگر نیلم بروقت معاملہ کوور نہ کرتی۔۔
"مشین میں مسئلہ۔۔۔۔ اسکا مطلب ہے گاڑی خراب ہے اسکی دانیہ آپی" نیلم نے بڑی مہارت سے بات بدلی۔۔۔ دائم کو تو اس پر بڑا پیار آیا جو اب اسے آنکھیں نکالے گھور رہی تھی۔
"اوہ۔۔۔ تبھی۔۔۔" دانیہ بھی مسکرا دی۔
"اچھا چھوڑیں نہ آپی۔ کیا خیال ہے کہیں باہر چلیں۔ آئس کریم کھانے" نیلم کی بات پر دائم بھی سر ہلائے تھا۔
"اس وقت" دانیہ کچھ حیرانگی لیے تھی۔
دوپٹوں کو گوٹہ لگانے میں بزی تھیں۔۔۔
"بس جناب۔۔ایسے نیک اور پیارے خیال صرف دائم مرتضی کو ہی آسکتے" اب تو دائم کو موقع چاہیے تھا پھیلنے کا۔۔۔ نیلم اور مینو بھی ہنس دیں۔
"ھاھا جی جی۔۔۔۔ چلو لگ جاو کام پر۔۔ دانیہ باہر لان میں ہے۔ جبکہ حانی ٹیرس پر ہے میں اسے ابھی کافی دے کر آئی تھی" نادیہ نے ان تینوں کو مسکراتے ہوئے آگاہ کیا۔۔
"مشن امپاسیبل سٹارٹ" دائم کے اشارہ کرنے کے بعد وہ تینوں ہی باہر نکل آئے۔۔۔۔ مینو کو ٹیرس پر بھیجنے کے بعد نیلم اور دائم سیدھے لان کی طرف گئے جہاں دانیہ کوئی میگزین کھولے چائے پی رہی تھی۔۔۔۔۔
"ارے واہ موسم کتنا اچھا ہے ناں۔۔۔۔اور کیا دانیہ آپی اس موسم میں بھی یہ سڑی چائے پی رہی ہو" دائم اور نیلم کی اچانک انٹری پر وہ جیسے متوجہ ہوئی۔۔ دونوں ہی اسکے سر پر کھڑے تھے۔۔۔ نیلم تو دبی سی ہنسی لیے تھی
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain