Damadam.pk
anusinha's posts | Damadam

anusinha's posts:

anusinha
 

ہمارا کام رفو چکر ہو جانا ہوگا پگلی۔۔۔ یعنی ہم تینوں کہیں اور اوٹنگ کر لیں گے۔۔۔ کیسا؟" اب تو دائم نے ہاتھ آگے کرتے بڑی جوشیلی آواز میں کہا تو ان دونوں نے بھی مسکراتے ہوئے سر ہلایا اور اپنے ہاتھ دائم کے ہاتھ میں رکھے۔۔۔ مینو کو لگا اسکے اندر اداسی سی بھر رہی ہے۔۔۔۔۔۔ بے حد اداسی۔
◇◇◇
گھر کی خواتین کو آگاہ کر دیا گیا تھا کہ ایک اہم مشن کی تیاری ہو رہی ہے اور وہ دونوں اس پر مسکرا کر مان بھی گئی تھیں۔ مہران صاحب تو ہمیشہ کی طرح سونے جا چکے تھے۔۔ جبکہ آج تو رضوان بھی گہری نیند کے مزے لینے جلدی ہی سونے چلے گئے تھے۔ ماہین تو اس خیال پر بہت خوش ہوئی تھیں۔ اور انکے اس آئیڈیا کی بھرپور حمایت لیے وہ انکے شرارتی دماغ کی تعریف کر رہی تھیں۔
"شکر ہے کوئی نیک خیال بھی آیا تم لوگوں کو" ماہین اور نادیہ آج بھی مہندی کے ڈریس کے دوپٹوں کو

anusinha
 

اسکے چہرے پر شرارتی سی مسکان آچکی تھی۔
"آگیا آئیڈیا" دائم کے کہنے کی دیر تھی کہ وہ دونوں بھی پورے انہماک سے متوجہ ہوچکی تھیں۔
"ہم ان دونوں کو الگ الگ لے کر جائیں گے۔۔۔ حانی بھائی کو وہاں تک لے جانے کی ذمہ داری تمہاری ہے مینو۔ اور ویسے بھی وہ تمہارئ بات فورا مان بھی جائیں گے۔۔ باقی رہا دانیہ آپی کو لے جانے کا معاملہ۔۔۔ تو وہ ہم دو ہونہار لوگوں کے سپرد ہے" نیلم تو بلکل متفق لگ رہی تھی پر مینو کا دل ضرور تھم گیا تھا۔۔۔۔۔ پھر سے حانی کا ایک صبر آزما سامنا۔۔۔۔۔ دل تو اسکا یہی چاہا تھا کہ اب وہ کبھی بھی حانی کا سامنا نہ کرے۔۔۔۔۔ لیکن اسے خود کو مضبوط بھی تو رکھنا تھا۔۔۔ جبکہ نیلم تو ہونہار کہنے پر اب ہنس رہی تھی۔
"اچھا اسکے بعد کیا کرنا ہوگا" مینو نے پوچھا تو دائم اور نیلم پھر سے مسکرا دیے۔
"ان دونوں کو مطلوبہ جگہ پہنچا کر ہمارا کام

anusinha
 

ساری تھکن دور ہو جائے گی۔۔ اور وہ اس سرپرائز سے بہت خوش بھی ہو جائیں گے۔ کیا خیال ہے تمہارا؟" نیلم نے کہا تو مینال جیسے کسی سوچ میں پڑھ گئی۔۔
"تم تو ایسے سوچ رہئ ہو جیسے ہم دو دشمنوں کو بھیجنے لگے ہیں۔۔۔ ھاھا کم آن " نیلم نے ہنستے ہوئے کہا تو وہ بھی مسکرا دی۔
"بھئی میں نے جگہ ریزرو کروا دی ہے۔ اور کینڈل لائٹ ڈنر کا انتظام بھی کر دیا" دائم کی پرجوش انٹری نے ان دونوں کو متوجہ کیا تھا۔۔۔ نیلم تو باقاعدہ اسکی پھرتیوں پر شاباش دے رہی تھی۔
"اوہ گائز۔۔۔ان دونوں کو اکیلے بھیجیں گے کیسے. خوامخواہ ہم ہڈیوں کو بھی گھسیٹ کر لے جائیں گے اپنے ساتھ" نیلم کو جیسے نئ فکر نے آگیرا تھا۔
"واقعی۔۔۔ اور ویسے بھی۔ بتا دیا تو سرپرائز تھوڑا ہوگا یہ" مینو نے بھی متفقہ ہاں ملائی۔ مگر اگلے ہی لمحے دائم کے دماغ کی بتی جل چکی تھی۔

anusinha
 

مینو۔۔۔۔تم یہاں ہو اور میں تمہیں پورے گھر میں ڈھونڈ آئی ہوں"۔مینال اپنے روم کے ٹیرس پر تھی جب نیلم تیزی سے اسکی طرف آئی۔ویسے بھی وہ اب نیچے جانے ہی والی تھی۔
"کیا ہوگیا۔۔۔ خیریت تو ہے" مینو تو باقاعدہ فکر مند ہو گئی تھئ۔
"ارے یار بات ہی ایسی ہے۔۔۔ آو تو ۔بیٹھو یہاں" نیلم اسکا ہاتھ پکڑے اندر لائی اور دونوں بیڈ پر بیٹھ گئیں۔ مینال کو اب واقعی تجسس نے گھیر رکھا تھا۔
"دراصل آج ہم نے یعنی میں نے اور دائم نے، جس میں اب تم بھی شامل ہونے والی ہو۔۔۔۔ دانیہ آپی اور حانی بھائی کے لیے سرپرائز ڈنر کا پلین بنایا ہے۔ آج رات کا" نیلم نے نہایت پرجوشی سے بتایا تو مینو بھی مسکرا سی دی مگر اسے حانی کا تھکا سا چہرہ یاد آیا۔
"مگر حانی تو آج بہت تھکے لگ رہے تھے" مینال کی فکر مندی دیکھ کر وہ مسکرا دی۔
"ارے تبھی تو یہ سرپرائز پلین کیا ہے۔۔۔

anusinha
 

تمہاری فراغت دور کرنے کا بھی سوچتے ہیں ہم" وہ جیسے کہنے کو ایک شرارت سی چہرے پر لائے بولا تو مینو یک دم سنجیدہ ہوئی۔۔۔۔ دل تو چاہا کہ حانی کو بتا دے کہ وہ منع کر چکی ہے مگر ناجانے کیوں وہ نہ کہہ پائی۔۔۔
"چلو میں بھی جا کر فریش ہوتا ہوں۔۔۔۔" حانی جیسے اسکی خاموشی جان گیا تھا۔۔۔۔ مگر وہ نارمل دیکھائی دیتی مسکرا دی۔
"اوکے۔۔۔۔۔ ویسے سنیں۔۔۔۔ نظر اتار لیجئے گا۔" وہ اب شرارت لیے ہنسی تو وہ بھی مسکراتے ہوئے پلٹا۔
"بھئی اب تو جو نظر لگنی تھی وہ لگ چکی ہے" کوٹ کندھے پر ڈالے وہ اندر کی جانب بڑھ گیا۔۔۔۔۔ مینو کچھ دیر اسے جاتا دیکھتی رہی اور پھر سے مہر کو کال ملا دئ۔۔۔۔ ابھی تک سگنلز کا مسئلہ برقرار تھا۔
◇◇◇

anusinha
 

میں زرا فریش ہو کر آتا ہوں۔ وہ کیا ہے کہ بندہ ایزی قمیص شلوار میں ہی فیل کرتا" وہ کہتے ہوئے بولے اور مینو کے سر ہلانے پر اندر کی طرف بڑھ گئے۔۔۔ انکو اندر جاتا دیکھنے کے بعد اس نے ایک نظر سامنے بیٹھے حانی پر ڈالی۔
"ہمممم تو تمہارا دن کیسا تھا؟" وہ اب اسکی جانب رخ پھیرے بولا۔
"اچھا تھا۔" وہ بھی بیٹھ چکی تھی۔
"لگتا ہے کافی تھک گئے ہیں آپ" وہ واقعی کافی تھکا لگ رہا تھا۔
"ہاں یہ سفر تھکا دیتا ہے" ناجانے وہ کونسے سفر کا ذکر کر رہا تھا۔ مینو سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ آخر حانی کس الجھن میں ہے۔
"سفر تو مصروفیت والی چیز ہے۔۔ اور مصروف رہنا بھی ایک نعمت ہے۔۔۔ مجھے ہی دیکھ لیں۔۔۔ فارغ رہ رہ کر اب سچ میں بورئیت ہو رہی" اب کی بار وہ ہلکے پھلکے انداز میں بولی تو وہ بھی سنجیدگی کے خول سے باہر نکلا تھا۔

anusinha
 

مینو نے کہا تو رضوان ہنس سے دیے جبکہ حانی کا سارا دھیان ہی مینو کی مسکراہٹ کی جانب تھا۔۔۔۔
"اہممم اہممم یہ ہنڈسم مجھے بھی کہا ہے نا؟" وہ شرارتی انداز میں بولے تو مینو بھی سر ہلائے مسکرا دی۔
"تو اور کیا" وہ بھی اسی شرارت سے بولی تھی۔۔۔
"آذان کے رشتے کی کیا اسقدر خوشی ہے اسے؟" حانی سوچتا ہوا اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔
"بس چندا یہ روزگار کے دھندے۔۔۔ کچھ زمین لی تھی۔ اسی سلسلے میں فائنل میٹنگ تھی۔۔۔ ہمارا بچہ کیسا ہے" وہ خوش دلی سے اس سے مخاطب ہوتے ہوئے بولے۔
"میں ایک دم اچھی" بول وہ رضوان سے رہی تھی پر نظریں حانی کے چہرے پر تھیں جو اب کوٹ میز پر دھرے کرسی پر نیم دراز ہو کر اپنا سر پیچھے ٹکا چکا تھا۔۔۔
"واقعی۔۔۔ یہ آوٹ آف سٹی کی میٹنگ تو ہلکان کر دیتی۔۔۔۔" حانی کی بات سے رضوان ایک دم متفق نظر آئے تھے۔
"بلکل۔۔۔ چلو تم لوگ گپ شپ کرو۔

anusinha
 

، کہ میں تمہارے لیے ہمیشہ تمہاری پسند کا فیصلہ لے سکوں۔ کبھی بھی کوئی بھی بات جو تم مجھے کہنا چاہو، بلا ججک کہہ سکتی ہو۔۔۔۔" اب وہ اسکا مسکراتا چہرہ تھامے بولے اور جیسے مینال کے دل سے ایک بوجھ اتر گیا تھا۔۔
"میں آپ سے ہی کہوں گی تایاجان۔۔۔ آپ نے مجھے سمجھا۔۔۔ میں بہت خوش ہوں۔۔۔ کچھ وقت دیں۔ اسکے بعد آپ جیسا کہیں گے میں ویسا کروں گی" اور یہ تو ان سب کی تربیت میں شامل تھا کہ فرمابرداری کوٹ کوٹ کر بھری تھی ان سب میں۔ دروازے میں کھڑی نیلم بھی مسکراتی ہوئی آئی تو مہران کی دوسری طرف وہ بھی بابا کے ساتھ لگ گئی۔
"میرے بابا دنیا کے بیسٹ بابا ہیں" اب تو وہ دونوں ہی مسکراتی ہوئی مہران صاحب کے کندھوں سے لگ چکی تھیں۔ وہ بھی مسکرا دیے۔۔۔
"ہمیشہ خوش رہو" دل سے دعا دی گئی تھی۔
◇◇◇

anusinha
 

وہ کیسے انکار کرے یہی سوچتے ہوئے وہ دوبارہ مہران کی سمت دیکھنے لگی۔
"جو آپ بہتر سمجھیں لیکن میں ابھی آپ سب کو چھوڑ کر جانا نہیں چاہتی" وہ جیسے تھکے سے انداز میں بولی تھی۔
"بلکل ہم خود تمہیں خود سے الگ نہیں کرنا چاہتے۔ لیکن کیا کریں میرا بچہ۔۔۔ یہ تو رسم دنیا ہے۔ بیٹیاں کتنی ہئ جگر کی گوشہ نشین کیوں نہ ہوں۔۔۔۔ جدا کرنی پڑتی ہیں" مہران نے محسوس کیا کہ انکی اس بات سے مینو کے چہرے پر بہت سی اداسئ ابھری تھی۔
"ٹھیک ہے۔۔۔ ہم فل حال کے لیے منع کر دیتے ہیں۔ میرا بچہ اداس نہیں ہوگا۔ ٹھیک ہے" وہ جیسے اسکی خاموشئ بھی سمجھتے تھے۔ خود مہران بھی مینو کی اتنی جلدی شادی کے حق میں نہیں تھے۔ بقول انکے یہ ابھی اسکی عمر انجوائے کرنے کی تھی۔
"آئی لووو یو ہنڈسم۔۔۔۔" وہ اسکی مسکراہٹ پر خوش ہوئے تھے
"لووو یو ٹو۔۔ہمیشہ خوش رہو۔۔۔ میری پوری کوشش ہوگی مینال،

anusinha
 

"جی تایا جان" وہ جیسے سب سن کر مطمئین سی ہو چکی تھی۔
"آذان کے لیے تمہارا رشتہ آیا ہے۔ کیا خیال ہے ہم کیا جواب دیں،" مہران اسکے سر پر ہاتھ دھرے بولے۔ ناجانے کیوں آج اسے یہی لگا تھا کہ مہران بلکل اسکے بابا ہیں۔۔۔۔ اتنی محبت پر جیسے اسکا دل سا بھر آیا تھا۔۔۔
"اگر تم مجھے اپنے بابا سمجھ کر کھل کر بتاو گی تو مجھے بے حد خوشی ہوگی" وہ بہت مشکل سے آنکھوں کی نمی سمیٹے تھی جب مہران نے اسے خود سے لگایا۔
"آپ بھی میرے بابا ہی ہیں ہنڈسم" وہ جیسے مسکرا کر اپنے دکھ کو کم کرنا چاہتی تھی۔ مہران بھی مسکا سے دیے تھے۔
"ٹھیک ہے میرا بچہ۔۔۔ مجھے بتاو پھر کہ میں ان کو کیا جواب دوں۔ تم وہئ کہو گی جو تم چاہتی ہو۔۔۔۔ ادب و احترام میں اپنے دل کے الٹ نہیں کہنا کچھ۔۔۔۔ کیونکہ میرے لیے میرے بچوں کی خوشی اہم ہے" مہران اسے خود سے الگ کیے بولے تو جیسے وہ سر جھکا گئی۔

anusinha
 

میں آجاوں ہنڈسم" مینو نے ملک شیک پکڑے مسکراتے کہا تو مہران صاحب بھی مسکراتے ہوئے سیدھے ہو کر بیٹھ گئے۔۔ انہوں نے مینو کو بلوایا تھا۔ شاید وہ آذان کے رشتے کے متعلق بات کرنا چاہتے تھے۔
"آجاو میرا بچہ" مینو اندر گئی تو وہ اپنے ہاتھ میں پکڑی کتاب بند کرتے اسکی جانب متوجہ ہوئے۔
"یہ رہا آپکا شیک" وہ انھیں شیک پکڑاتے ہوئے خود بھی انکے روبرو بیٹھ گئی۔
"آپ نے مجھے بلوایا تھا؟" مینال نے کہا تو وہ سر ہلائے گلاس سائیڈ پر رکھتے اسکی طرف دیکھنے لگے۔
"ہاں ۔۔۔ دراصل دانیہ نے تم سے بات تو کی ہوگی لیکن میں نے سوچا کہ میں خود ایک بار تم سے پوچھ لوں۔۔۔۔ کیونکہ یہ زندگی تمہاری ہے اور اسکا فیصلہ تمہاری مرضی سے ہو تو ہی بہتر ہے۔ ویسے بھی ہم اپنے حمدان کی نشانی کو اتنی جلدی خود سے دور کرنا بھی نہیں چاہتے" مہران کے لہجے میں بے پناہ محبت اور اپنائیت تھی۔۔۔

anusinha
 

خود حبیبہ بھی مینو کو ہی اپنی بہو بنانا چاہتی تھیں۔۔
"آپ جو چاہیں" وہ تو جیسے بجھ سا گیا تھا۔ حبیبہ جان گئی تھیں کہ آذان اسی بات سے کچھ دن کا گم سم سا ہے۔۔۔۔ اور وہ دل میں تہیہ بھی کر چکی تھیں کہ اس رشتے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گی۔۔۔
"اگر یہاں بات نہ بنی تو میں کہیں اور۔۔۔۔" حبیبہ یک دم رک سی گئیں۔ آذان کے چہرے پر پھیلا دکھ وہ دیکھ چکی تھیں۔
"نہیں بی جی۔۔۔۔۔اسکے بعد یہ ٹاپک کلوز ہو جائے گا" دونوں طرف افسردگی پھیلی تھی۔۔
"اللہ خیر کرے گا۔۔۔ مجھے اپنی کوشش کر لینے دو۔۔۔ اچھا میرا بچہ اداس نہ ہو۔۔۔۔ آو کھانا کھاتے ہیں" وہ اسے کہتے ہوئے اٹھ گئیں۔ وہ بھی جیسے انکا کہا مانتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔۔
◇◇◇

anusinha
 

مجھے پوری بات بتا آذان۔۔۔۔ اگر انکار ہی کرنا تھا تو سلیقے سے کرتے۔۔۔۔ بات جب بڑوں میں طے ہورہی تو پھر ان لوگوں نے تجھے کیوں کہا" اب تو وہ بے چین سا ہوا۔
"مجھے کسی نے نہیں کہا بی جی" وہ جیسے یک دم دھیمہ سا ہوا۔ اب تو حبیبہ واقعی الجھ گئی تھیں۔
"بی جی ہمیں کسی کی زندگی کا فیصلہ کرنے کا حق نہیں ہوتا۔ ہر انسان کا حق ہے کہ وہ اپنی زندگی اپنے مطابق جیئے" اب تو بی جان واقعی تھوڑی غصے میں لگیں۔۔۔
"کیا تجھے مینال نے کہا ہے؟ وہ کسی اور کو پسند کرتی ہے؟" بی جی بلکل ٹھیک سمجھی تھیں۔
" نہیں۔ لیکن وہ شادی کرنا نہیں چاہتی" نہایت چپ سا لہجہ تھا۔ وہ اصل بات بھی چھپا گیا تھا۔
"مطلب ہم نے یہاں وقت ہی ضائع کیا" حبیبہ کو یک دم افسوس سا ہوا۔۔۔۔
"لیکن میں ایک بار ضرور جاوں گی۔۔۔ کیا پتا قسمت میں تمہارا اور مینو کا ساتھ لکھا ہو۔۔۔۔ کوشش میں کیا حرج ہے"

anusinha
 

"رہنے دیں" وہ جیسے نظریں جھکائے تھا۔ حبیبہ تو شاک سی ہو گئیں۔
"رہنے کیوں دوں؟" وہ حیرت لیے آذان کی سمت دیکھتے بولیں۔
"جواب ہاں میں نہیں آئے گا۔۔۔ خوامخواہ آپکا دل اداس ہوگا" آذان نے ویسے بھی یہ بات یہیں ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔۔۔ اس دن مینو سے بات کرنے کے بعد سے اب تک اس نے بہت سوچا تھا۔۔ اور اسی فیصلے پر پہنچا تھا کہ وہ پیچھے ہٹ جاتا۔۔۔حبیبہ تو ابھی سے اداس سی دیکھائی دیں۔
"کیا کہہ رہا ہے۔۔۔ کیوں ہاں میں نہیں آئے گا۔۔۔ تجھے کس نے کہا ہے۔" حبیبہ اب اسکے چہرے پر نظریں جمائے اسکا جائزہ لیتے بولیں۔۔۔ دوسری طرف سنجیدگی قائم تھی۔
"شاید وہ میرے نصیب میں نہیں ہے۔ آپ رشتے کا پوچھنے کے لیے فون مت کیجئے گا بس" وہ جیسے اٹھ جانا چاہتا تھا۔ حبیبہ نے اسکی بازو پکڑے دوبارہ بیٹھایا۔۔۔

anusinha
 

مگر آج پہلی بار دائم نے اس سے ایسی بات کہی تھی۔۔۔۔۔دونوں کہ دل میں ایک دوسرے کی محبت تو موجود تھی مگر شاید انکی لڑائی اور ہنسی میں دب جاتی تھی۔
"دائم بھیا میرا پلے سٹیشن نہیں چل رہا۔ پلیز آو نا" وہ ایک دوسرے کی سمت دیکھ ہی رہے تھے جب کباب میں ہڈی یعنی ارحم اپنے اسٹائیل سے انٹری مارے حاضر ہوا تھا۔۔ اب دائم اور نیلم بھی مسکرا سے دیے۔
" میرے رس گلے کی دکان۔۔۔ چل آ دیکھتے ہیں" دائم نے ارحم کی گال کھینچی اور اسے اٹھا لیا۔۔۔اور ایک نظر مسکراتی نیلم کو دیکھا۔
"سوری۔ پھر کسی وقت پڑھ لینا" بڑے دلکش انداز میں وہ نیلم کو کہتا ہوا چلا گیا۔۔۔ اور وہ بھی دیر تک مسکراتی رہی۔
◇◇◇
"کھانا بن گیا ہے بی جی" ملازمہ نے لاونچ میں آکر حبیبہ کو بتایا۔
"اچھا تم لگاو۔۔۔ میں آذان کو بلا لاتی ہوں" وہ جب سے آیا تھا اپنے کمرے میں کام کا بہانہ کیے بند تھا۔۔۔۔

anusinha
 

ٹائرز والی دکان پر بیٹھائیں اسے" اب وہ اسے اپنے نیک ارادوں سے آگاہ کرتے بولی تو وہ بھی ہنسا تھا۔ آج تو تھری پیس میں وہ بھی غضب ڈھا رہا تھا۔۔ لگتا تھا کوئی معیاری مہذب پارٹی تھی تبھی اس شریفانہ انداز میں تھا۔۔۔ ورنہ تو جینز ٹی شرٹ میں ہی لڑکوں کے سارے فنکشن بھگت جاتے ہیں۔
"تو کوئی نہیں۔۔۔ میں بھی ٹائرز والی گیم کھیل لوں گا۔۔۔ تم اپنی سوچو۔۔۔۔۔ پاس ہوئی یا فیل دونوں صورتوں میں ڈولی اٹھنی" اب وہ اس پر ہنستے بولا تو وہ منہ پھلا چکی تھی۔۔۔ اور باقاعدہ گھور بھی رہی تھی۔
"بت تمیز" منہ کے زاویے بنائے وہ اسے بہت پیاری لگ رہی تھی۔
"کبھی ان کتابوں کو چھوڑ کر دائم مرتضی کی آنکھیں پڑھو۔ تمہیں بہت سی کہانیاں اور قصے ملیں گے" وہ پھر سے اس سے کتاب لیے بولا۔ ایک دم سنجیدگی اوڑھے۔ ایک لمحے کو خود نیلم بھی ساکت سی ہوئی۔۔۔ بچپن سے وہ ایک ساتھ رہے تھے

anusinha
 

ھائےے لڑکی۔۔ تم ہر وقت پڑھتی ہی رہتی ہو" نیلم لان میں بیٹھی کوئی انگلش کتاب پڑھ رہی تھی جب دائم اس سے کتاب لیتے ہی اسکے برابر آکر بیٹھتے بولا۔دونوں کے پیپرز تو پہلے ہی ہو چکے تھے اب کچھ دن بس اسائنمنٹس اور سیمینارز تھے جو انکو مکمل کرنے تھے ۔۔ رزلٹ کا شدت سے انتظار کرتے ہوئے اب سے وہ دونوں ہی فری تھے۔ دائم آج صبح سے دوستوں کے ساتھ آوٹنگ پر گیا ہوا تھا۔
"کیا کروں۔۔ تمہارے حصے کا بھی میں ہی پڑھتی آئی ہوں تو اب عادت ہو گئی ہے" نیلم نے ہنسی دبائے کہا اور دوبارہ اس کے ہاتھ سے کتاب لے لی۔
"آہاں۔۔۔۔ اب کیا فائدہ اس عادت کا۔۔۔۔ ہاں میری بقایا اسائمنٹس بنا دو تو اللہ تمہارا بھلا کر دے" اب تو وہ کسی فقیرانہ انداز میں بولا تو نیلم ہنس دی۔
"سیلفیش انسان ۔۔۔ ہر وقت اپنی ہی پڑی رہتی ہے۔ اس بار مارکس کم آئے تو بابا کو کہوں گی

anusinha
 

آپ اس میں بلکل پرنسس لگیں گی" مینال کی بات پر دانیہ بھی بے اختیار مسکرائی۔۔۔
"بھئی کتنی شاپنگ باقی ہے ویسے۔ پتا ہے نا کہ کتنے کم دن رہ گئے ہیں" نادیہ کی بات پر وہ دونوں بھی متوجہ ہوئیں۔ اب وہ اور ماہین سونے کے لائے گئے ہلکے سے سیٹ دیکھ رہی تھیں۔
"بس میرے خیال میں تین چار چکر مزید۔۔۔۔ سچ پوچھو تو میری بس ہو گئی ہے۔۔۔ اب جو باقی چیزیں رہ گئی ہیں یہ دونوں خود ہی شادی کے بعد لیں گے" ماہین نے تو گویا مسئلہ ہی حل کر دیا تھا۔۔۔۔ سب ہی اب شاپنگ دیکھنے میں مصروف تھے۔
◇◇◇

anusinha
 

"اگنور کرو" دانیہ نے اسے اشارہ کرتے کہا تو مینو کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری۔۔۔ دانیہ کے ہوتے ہوئے وہ ویسے بھی اداس ہو ہی نہیں سکتی تھی۔۔۔ ملازمہ چائے لائی تو ماہین اور نادیہ اسئ کو پینے اور شاپنگ پر ڈسکس کرنے لگ گئیں۔
"میری جان۔۔۔ اس بات کو خود پر ہرگز سوار نہ کرو۔۔۔۔ آج یا کل جب بھی موقع ملا تو تایاجان کو بتا دینا کہ تم کیا چاہتی ہو" دانیہ اسکے قریب ہوتے بولی تو مینو ایک ہلکی سی سمائیل دیے سر ہلا گئی۔۔۔
"تھینک یو دانیہ" وہ جیسے دانیہ کی مسکراہٹ دیکھتے بولی۔
"نو تھینک یو۔۔۔ اچھا یہ دیکھو۔۔۔۔ مہندی کے لیے میں تم اور نیلم یہ ایک سا ڈریس پہنیں گے۔۔۔" دانیہ نے ییلو اور گرین بہت خوبصورت سے گوٹے والے کام سے مزین ڈریس اسے دیکھائے تو وہ مسکرا دی۔
دانیہ والے میں ریڈ کلر کا بھی شیڈ ایڈ تھا۔۔ ظاہر ہے وہ دلہن تھی۔
"بہت خوبصورت ہیں۔

anusinha
 

سب کو ہی فکر سے آزاد کر دیا تھا۔ تبھی سب پورے زور و شور سے تیاریوں میں مگن تھے۔
"ویسے مینو کیا سوچا تم نے پھر۔۔۔۔۔ آذان کے لیے۔ میں تو سوچ رہی تھی کہ دانیہ کے ساتھ ساتھ ہم تمہارے فرض سے بھی سبکدوش ہو جائیں۔۔۔۔" نادیہ کی بات پر شاپنگ دیکھتی مینو چونکی تھی۔ یہ سب نجانے کیوں اس سے وہی بات کہہ رہے تھے جو وہ سننا تک نہیں چایتی تھی۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی تو اس نے آذان کو انکار کیا تھا۔ اس سے پہلے وہ دانیہ کو بھی صاف صاف بتا چکی تھی۔
"ہاں خیال تو اچھا ہے ۔۔ ویسے حبیبہ آپا کے ارادے دیکھ کر تو یہی لگتا تھا کہ انکو بہت جلدی ہے" دانیہ مسلسل مینو کو دیکھ رہی تھی جو یکدم سنجیدہ سی بیٹھی تھی۔۔
"انکے بیٹے کو ہوگی۔۔ ہماری مینو ہے ہی ایسی انمول۔ ان سے انتظار ہوگا بھی کیسے" اب تو نادیہ مینو کا سنجیدہ چہرہ تھامے بولیں تو وہ لیے دیے انداز میں مسکرا دی۔