اب کی بار مہران بولے تو سب مسکرا دیے۔۔
"بہت شکریہ بھائی صاحب ۔۔۔ آپ جتنا چاہے وقت لے لیں" وہ بھی خوش دلی سے مسکرائی تھیں۔ آذان کی نظریں تو بس اسی کے دیدار کی طالب تھیں جو اب تو اسکے سامنے بھی نہیں آتی تھی۔۔۔
وہ اپنی بے بسی پر مسکرا سا دیا۔
◇◇◇
جہاں مینال آذان کے رشتے سے بے خبر تھی وہیں حانی کی الجھن اب اسکے انتشار اور بے چینی کی وجہ بن چکی تھی۔۔۔۔ وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ اسکا قرار آخر یک دم کیوں ختم ہونے لگا ہے۔ حالانکہ وہ خود کو بہت پہلے اس رستے سے روک چکا تھا۔ خود کو اور اپنے وحشی دل کو وہ بہت پہلے فراموش کر چکا تھا۔۔۔۔ مینال سے شاید وہ اسقدر محبت کر بیٹھا تھا کہ اسے اپنی آنکھوں سے اوجھل کرنے تک پر راضی نہ تھا۔۔۔۔۔ ناجانے کب سے۔۔۔۔ لیکن وہ دانیہ کے جذبات کی بے حرمتی نہیں کر سکتا تھا۔ نہ ہی وہ مینو کو اپنے حد درجہ پاگل جذبات
مینو سے آذان کی والہانہ محبت کا گواہ وہ صرف خود تھا اور اسکا رب۔۔۔۔ وہ تو تب سے اسکا دیوانہ تھا جب وہ ایک نہایت پڑھاکو قسم کی دو پونیوں والی مینو تھی۔۔۔۔ جسکے پاس کسی سے بات کرنے تک کا کیا ، کسی کو دیکھنے تک کا وقت نہیں ہوتا تھا۔۔۔ محبت بھی ایسی ویسی نہیں۔۔۔۔۔۔ شاید ایسی محبت تو چنے ہوئے لوگوں کہ حصے میں لکھی جاتی ہے۔۔۔
"سچ پوچھیں تو ابھی ہم نے مینو سے اس متعلق بات ہی نہیں کی" رضوان صاحب نےچائے پیتے ہوئے بتایا۔۔۔ سب بڑے وہیں موجود تھے۔
"میں سمجھ سکتی ہوں بھائی صاحب۔ ظاہر ہے حالات ہی ایسے تھے ۔ میری تو بس اتنی سی درخواست ہے کہ آپ اس رشتے پر غور ضرور کیجئے گا" حبیبہ سے تو پل پل کا انتظار مشکل تھا۔
"ان شاء اللہ کیوں نہیں۔۔۔۔ بس اب ہمیں کچھ وقت دیں تاکہ ہم مینال کی رضامندی وغیرہ جان لیں۔۔۔ باقی آذان ہمیں بلکل ویسے ہی عزیز ہے جیسے حانی"
ہفتہ تو جیسے بے حد فکر مندی میں گزر چکا تھا۔ مہران صاحب کی کنڈیشن اب اس قابل تھی کہ انکی سرجری کر دی جاتی اور آخرکار سب کی دعائیں رنگ لے آئیں اور وہ ایک کامیاب آپریشن کے بعد سب میں دوبارہ لوٹ آئے تھے۔۔۔۔ حانی آوپر والے کا بے حد شکرگزار تھا کہ اس رب نے اسے اس صبر آزما مشکل سے نکال دیا تھا۔۔۔۔مہران صاحب کی تندرستی پر حمدان حویلی میں ایک چھوٹی سی گیٹ ٹو گیدر رکھی گئی تھی ۔ جسکا بڑا مقصد آذام اور مینال کے رشتے پر نظر ثانی کرنا بھی تھا اور ایک اچھے خوشگوار ماحول میں بات چیت بھی لازمی تھی۔ مینال تو اس بات سے یکسر انجان تھی کہ اسکے لیے رشتہ آچکا ہے مگر گھر کے دوسرے تمام افراد ہی اس سے آگاہ ہو چکے تھے ۔ آذان کی تو یہی خواہش تھی کہ وہ ایک بار خود مینال سے بات کرے مگر وہ دلکش حسینہ تو جیسے خاموشی کا سمندر اوڑھے تھی۔
مجھے کم ازکم اپنے سامنے بڑا مت ہونے دیں۔۔۔۔۔" وہ روہانسا سا ہوا تو مہران صاحب دلکشی لیے مسکا دیے۔۔
"چل چل اب فلمی نہ ہو زیادہ۔۔۔۔ سو جا میرے شیر۔۔۔" اب وہ واقعی چاہتے تھے کہ وہ آرام کر لے۔
"بھیج کے ہی دم لیں گے آپ؟" وہ جیسے پھر سے منہ پھلائے تھا۔دوسری جانب بے ساختہ سا قہقہہ ابھرا۔۔
"ھاھا بلکل۔۔۔۔ جاو آرام کرو۔ مجھے بھی اب تھوڑی پرائویسی دو" اب تو حانی بھی ہنسا تھا۔۔۔
"ھاھا سیدھا کہیں نا کہ جان چھوڑ دوں" اب وہ بھی شرارت لیے ہنسا۔۔۔
"سمجھدار بچہ" اب تو دونوں طرف قہقہہ تھا۔۔۔۔ حانی انھیں لیٹائے ہوئے لیمپ بجھائے مسکراتا ہوا باہر نکل گیا۔۔۔۔
"یہ زبان کی پائیداری اور حوصلے کی فراوانی ہی تمہاری سب سے بڑی اذیت ہے حنوط مرتضی" وہ جیسے تلخی سے خود پر ہنسا تھا اور بے شمار ہنسنا چاہتا تھا۔
◇◇◇
یہی دو چیزیں اسکی شان ہیں۔۔ اگر ایک بھی ڈگمگائے تو مرد ٹوٹ جاتا ہے۔۔۔۔ اور میں اپنے جیتے جی اور مرنے کے بعد میں تمہیں ایسا نہیں دیکھنا چاہتا" اب کی بار حانی کی آنکھوں میں شکایت سی ابھری۔
"میں ایک کمزور انسان ہوں بابا۔۔۔۔ مجھ سے اتنی امیدیں مت لگائیں" سر جھکائے جیسے وہ مایوس سا تھا۔۔۔
"نو۔۔۔۔۔ یو آر مائی پراوڈ سن۔۔۔ جس پر میں بند آنکھوں سے بھی یقین کر سکتا ہوں۔۔۔۔ تمہاری کمزوری بس تمہارا دل ہے۔ اور اس پر تمہارا اختیار ہے۔۔۔۔۔ مضبوط ہو جاو۔۔۔۔۔" وہ جیسے اب اسکا کندھا تھپکائے پرجوشی لیے بولے تھے۔
"اوکے" ایک سرد آہ لیے تھکی آواز میں کہا گیا۔
"مردوں کی طرح بولو " وہ جیسے دونوں مسکرائے۔
"اوکے بابا۔۔۔۔ لیکن میں آپکا وہی چار پانچ سالا حانی ہی رہنا چاہتا ہوں۔۔۔۔ کم ازکم اسی بہانے آپکے سامنے اپنے اندر کا غبار تو نکال لیتا ہوں۔
تو وہ ہلکے سے مسکرا دیا۔
"چلیں آپ نے مانا تو سہی کہ آپ نڈھال ہیں" بات پکڑتے ہوئے وہ کمال ادا سے انھیں مسکرانے پر مجبور کر چکا تھا۔
"ہاں لیکن تمہیں نہیں دیکھ سکتا۔۔۔۔۔ اپنے چہرے کی اس مسکراہٹ کو کبھی کم نہ ہونے دینا حانی۔۔۔ مرد ہونا الگ بات لیکن مرد بننے کے لیے اپنے اندر حوصلہ پیدا کرنا پڑتا ہے۔ تم اتنے بڑے اور سیانے ہو کر بھی آج تک وہیں چار پانچ سال کی عمر میں ہو" وہ جیسے اسے سمجھانے کی کوشش میں تھے۔
"ہر کسی نے ایک نہ ایک دن جانا ہے۔۔۔۔۔ یہی قدرت کا اصول ہے" وہ جیسے اسکا وہی سر پر دھرا ہاتھ تھامے بولے۔ حانی نے ایک نظر انھیں دیکھا۔۔۔۔
"میں برداشت نہیں کروں گا کسی کا جانا۔۔۔ سن لیں" ایک بار پھر چہرے پر معصومیت اور دکھ لائے وہ بابا کو کہہ رہا تھا۔۔
"وقت سب سیکھا دیتا ہے۔۔۔۔ مرد کی زبان اور مرد کا حوصلہ کبھی کمزور نہیں پڑنا چاہیے۔۔۔۔
بلکل۔۔۔۔ ڈونٹ وری۔۔اسکی مرضی کے بنا کچھ ہونے نہیں دیں گے۔ باقی میں بھائی سے بات کرتا ہوں پھر وہ خود مینو سے کر لیں گے۔ پہلے انکی سرجری ہو جائے" آخری بات پر رضوان کے چہرے پر پھر سے فکرمندی ابھری۔۔۔
"ان شاء اللہ سب خیر ہوگی" نادیہ بھی جیسے دل سے دعاگو تھیں۔
◇◇◇
"سو جاو اب یار۔۔۔۔۔۔ مجھے تم نے بچہ ہی سمجھ لیا ہے" حانی بابا کے سرہانے بیٹھا انکا سر دبا رہا تھا۔۔۔ اب تو وہ حانی کی اسقدر توجہ پر خفا سے ہوئے۔۔۔ اب وہ بھی کیا کرتا۔۔۔ خود سے جڑے اپنوں کے لیے وہ کہیں نہ کہیں جنونی حد تک ٹچی تھا۔۔۔
"آپ سو جائیں۔۔ میں بھی سو جاوں گا" فل اطمینان سے جواب آیا تھا۔۔۔۔ دو دن وہ مسلسل جاگ رہا تھا۔۔۔
"حانی اب تم مار کھاو گے۔۔۔۔ شکل دیکھو اپنی۔۔۔۔کب سے جاگے ہوئے ہو۔۔۔ اب تو تم مجھ سے بھی زیادہ نڈھال لگ رہے ہو" مہران صاحب کو اب حانی کی بے حد فکر ہوئی
"حانی آپ اداس نہ ہوں۔۔ تایا جان بلکل ٹھیک ہو جائیں گے آپ دیکھیے گا" پھر سے جیسے حانی مڑنا چاہتا تھا پر وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اسکے مقابل میں اسکی سب سے بڑی کمزوری کھڑی ہے۔
"ان شاء اللہ " ہلکی سی نظر مینو پر ڈالے وہ باقی سب کے پاس روم میں چلا گیا۔۔۔۔ اور وہ دوبارہ سے اپنے لیے کافی بنانے لگی۔۔۔
◇◇◇
"رضوان۔۔۔ مجھے آپ سے ایک بات کرنی تھی۔ بھائی جان کی طبعیت کی پریشانی کی وجہ سے میں آپکو بتا ہی نہیں پائی" رضوان ابھی ابھی مہران کے روم سے آئے تھے۔ باقی سب بھی سونے اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے تھے جبکہ حانی ابھی تک وہیں تھا۔۔۔۔ نادیہ انھیں چائے دیتے بولیں۔
"ہاں بیگم کہو۔۔۔ کیا بات ہے" وہ یک دم متوجہ ہوتے بولے۔
"وہ حبیبہ آپا ہیں نا۔۔۔۔ وہ آئی تھیں ۔۔۔۔ اپنی مینو کے لیے آذان کا رشتہ لے کر۔۔۔۔ بہت اسرار کر رہی تھیں۔۔۔۔ اور کہہ کر گئی تھیں
گو کسی کو دیکھنا ہی اسکی اس بے چینی کا حل تھا مگر وہ تو جیسے چھپ سی گئی تھی۔۔۔۔ کچن میں پورے انہماک سے کافی بناتی ہوئی وہ کسی گہری سوچ میں تھی۔۔۔کافی بنانے کے بعد وہ جونہی مڑی سامنے حانی تھا۔۔۔ شاید وہ ابھی فریش ہو کر آیا تھا۔۔۔
"تھینک یو" مینو سے کافی کا مگ لیے وہ مڑ گیا۔ بے ساختہ ہی وہ مسکرا دی۔۔۔
"حانی۔۔۔۔؟" پھر جیسے وہ قدم تھم گئے۔۔ وائٹ شرٹ اور بلیک ٹراوزر میں ہلکے گیلے بالوں کے سنگ وہ اسکی طرف دیکھ رہا تھا۔ چہرے پر ہلکی ہلکی شیو اور آنکھوں میں انتہا کی سنجیدگی۔۔۔
"آپ ٹھیک ہیں نا؟" وہ جانتی تھی کہ ان دو دنوں میں حانی بے حد ڈسٹرب رہا تھا۔۔۔۔ آج جا کر وہ کچھ دیر مہران صاحب کے کمرے سے نکلا تھا۔۔۔
"یس ناو آئی تھنک آئی ایم اوکے" وہ اسے مطمئین کرتا ہوا دوبارہ مڑ چکا تھا۔۔۔۔۔ اور جیسے مڑتے ہی اس چہرے پر پھر سے اندھیرا چھایا تھا۔۔۔۔۔۔۔
حبیبہ بھی اب ہلکے پھلکے انداز میں بولیں تو سب مسکرا دیے۔
"ان شاء اللہ " سب نے جیسے بیک وقت دل سے کہا تھا۔ دانیہ، نادیہ اور ماہین وہیں تھیں جبکہ دائم بھی آچکا تھا۔رضوان صاحب آفس گئے تھے۔۔
"ویسے اگر مجھے دائم نہ بتاتا تو مجھے تو پتا ہی نہ چلتا" آذان نے بھی گفتگو میں حصہ لیے بتایا۔۔۔
"جی بلکل۔۔۔۔۔ ٹنشن ہی اتنی ہوگئی تھی آذان بھائی کہ کیا بتائیں۔۔۔ حانی بھائی کو تو آپ جانتے ہیں نا۔۔۔۔۔ انھیں اپنا ہوش نہیں تھا" دائم بھی دانیہ سے چائے کا کپ لیے بولا۔۔
"یہ تو ہے۔۔۔ بس اللہ آپکو بلکل فٹ کر دے۔۔۔۔ خیال رکھنا ہے اب آپ نے اپنا۔۔۔۔ جانتے ہیں نا ایک عدد کاکا بھی ہے آپکا" اب تو آذان کی بات پر سبکے دانت نکل چکے تھے۔۔۔۔
"جیتے رہو تم سب" مہران صاحب بھی جیسے یک دم فریش سے ہو گئے تھے۔۔۔۔ آذان کی نظریں تو باہر کی طرف ہی تھیں۔۔۔
اگلے دن مہران صاحب کو ڈسچارج کر دیا گیا تھا۔ جیسے ہی انکی حالت کچھ سٹیبل ہونی تھی تو ڈاکٹرز پھر بائے پاس کے لیے تجویز دینے والے تھے۔ آذان کو بھی پتا چل گیا تھا۔۔۔ وہ بھی اچانک جب حانی کا نمبر آف ہونے کی وجہ سے اس نے گھر کال کی۔۔۔ حبیبہ اور آذان پہلی فرصت میں ہی عیادت کو پہنچ چکے تھے۔۔ تمام افراد انکے کمرے میں ہی موجود تھے۔
"اللہ آپکو صحت دے بھائی صاحب ۔۔۔ سن کر بے حد پریشانی ہو گئی تھی۔۔۔" حبیبہ اب بے حد فکر مندی سے بولی تھیں۔۔ نادیہ کو تو مینال کے رشتے والی بات بتانی یاد ہی نہیں رہی تھی کیونکہ ایک دم سے مہران صاحب کی طبعیت کی خرابی نے جیسے سب کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔
"جزاک اللہ بہن۔۔۔۔۔ آپ آئیں یہ بہت بڑی بات ہے۔" وہ بھی ہولے سے مسکرائے تھے۔
"بس آپ جلدی سے ٹھیک ہو جائیں۔ ابھی تو سب بچوں کی شادیاں دیکھنی آپ نے"
عادل ایک بہت بڑی کمپنی میں کام کرتا تھا۔ اپنے کام کی وجہ سے وہ زیادہ تر آوٹ آف سٹی یا آوٹ آف کنٹری رہتا تھا جسکی وجہ سے مینو کو وہاں رہنے میں کوئی پرابلم بھی نہیں تھی۔۔۔۔ مہر سے اسکی دوستی اسکی سوچ سے بھی گہری ہوتی گئی۔۔۔۔۔ مینو کو بھی شاید اس پرائے دیس میں کوئی دوست درکار تھی۔۔۔۔۔۔۔ کبھی کبھی مینو سوچتی کہ کاش وہ ان دونوں سے نہ ملی ہوتی تو یوں آج عادل تکلیف میں نہ ہوتا۔۔۔۔۔۔ یا پھر کاش وہ اتنی گہری آنکھیں نہ رکھتی۔۔۔جنھیں ہر کوئی باآسانی پڑھ لیتا تھا۔۔۔۔ کچھ تو ایسا ہوتا جو کم ازکم عادی کی اس تکلیف کا مداوا کر پاتا۔۔۔۔۔۔ سر اٹھائے جیسے وہ ماضی کے ان دریچوں سے لوٹی تھی۔۔۔۔۔ دروازے کے ساتھ بیٹھی وہ یک دم ویران تھی۔۔۔۔
◇◇◇
یہ ساتھ ہی ہمارا گھر ہے۔ اگر آپ چاہو تو کچھ دیر ویٹ کر لو۔ تب تک ہم اسے رپئیر کروا لیتے ہیں" مینو نے ایک نظر اسے پھر اسکے اشارے کی سمت والے فلیٹ کو دیکھا۔۔۔۔۔ اب ٹوٹے جوتے کہ ساتھ وہ جاتی بھی کہاں۔ دور دور کہیں شو شاپ تک نہ تھی۔۔۔
"اٹس اوکے۔۔۔۔ آئی ایم فائن" وہ بھی تو مینو تھی۔۔۔۔ ہر کسی پر کیسے اعتبار کر سکتی تھی۔
"مجھے اپنی بہن سمجھو چندا۔ آجاو" مہر کی اپنائیت اسے بلکل سچی لگی تھی مگر دل میں برے برے خیالوں کا آنا بھی نچرل تھا۔ یوں نہ جان نہ پہچان اور گھر جانا۔۔۔مگر یوں ٹوٹے شوز کے ساتھ وہ اتنے چہل پہل والے راستے سے کیسے گزر سکتی تھی۔ اندھیرا تو وہاں ہوتا ہی نہیں تھا کہ انسان آنکھ بچا کر نکل پاتا۔خیر دل بڑا کرتے ہوئے وہ سر ہلائے مہر کے ساتھ گئی تھی۔ عادل ناجانے کیوں اسکی نیلی آنکھوں پر ہی ٹھہر سا گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔
اپنے پیروں کی جانب دیکھتے ہوئے اسے پتا ہی نہ چلا اور کب وہ کسی پہاڑ سے ٹکرائے زمین بوس ہو چکی تھی۔۔۔ ایک تو پہلے ہی ٹانگیں سن تھیں اور اب یہ ہونا بھی باقی تھا۔۔۔مینو نے جیسے دہائی دینی چاہی۔۔۔ کوئی جیسے اپنی اس حرکت پر بے حد شرمندہ ہوتے ہوئے جھکا۔۔۔۔۔
"آپ ٹھیک ہیں؟" نہایت مدھم آواز میں وہ مینو کی گری کتابیں ااٹھائے اسکی سمت بڑھاتے بولا تھا۔۔۔۔اسکے شوز کی سڑپ بلکل ٹوٹ گئی تھی۔۔۔۔ اور وہ اب اسکا بڑھا ہاتھ دیکھ کر سنجیدہ ہوئی۔
"کیا ہوا عادی؟" ایک آواز پر جیسے وہ پلٹا تھا۔۔۔ سامنے ہی ایک لڑکی کھڑی بڑی فکر مندی سے ان دونوں کو دیکھ رہی تھی۔
"اوہ۔۔۔ آجاو" مہر نے اپنا ہاتھ بڑھائے مینو کو کھڑا کیا۔۔۔
"تھینک یو۔۔۔۔۔ میں ٹھیک ہوں" مینو نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"دراصل یہ بہت تیزی میں نکلا تھا۔۔۔۔۔ اسکی طرف سے میں معذرت کرتی ہوں۔۔۔ آپکا جوتا تو ٹوٹ گیا
وہ تیز تیز قدموں سے یونی کی راہداری عبور کیے نکل رہی تھی۔ بلیو جینز پر سرخ شرٹ اور بلیک کوٹ پہنے۔۔۔ ہاتھ میں اسکی تین چار بکس جبکہ کندھے پر لٹکا بیگ۔۔پاوں میں ہلکے نازک بوٹ اور سر پر اونی ٹوپی۔ نیویارک کی سڑکیں جیسے شام کے اس پہر دن کی نسبت زیادہ پررونق ہوجایا کرتی تھیں۔سڑکوں پے بنے بارز سر شام ہی چمکنے لگے تھے۔۔۔ سائیڈ روڈ ریسٹورنٹ اپنی پوری آن بان دیکھاتے ہوئے آنے جانے والوں کو اپنی سمت کھینچتے دیکھائی دے رہے تھے۔۔ وہ سردیوں کی ایک یخ ٹھنڈی شام تھی۔۔۔۔یونی سے اسکے ریسٹ ہاوس کا تھوڑا ہی فاصلہ تھا۔۔ وہ زیادہ تر یہ فاصلہ پیدل ہی طے کرتی تھی۔۔۔
"آج تو کچھ زیادہ ہی ٹھنڈ ہے" مینو خودکلامی کرتی ہوئی اپنے جمے پیروں کو تیز کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہوئے بولی تھی۔ یوں لگ رہا تھا کہ جیسے رات کو زبردست دھند پڑنے والی تھی۔۔۔
Meri konsi reader ny mujhy nvl parhny ka kaha Tha?
Please comnt
۔ وہ ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ حد درجہ حساس تھی۔۔۔۔۔تب بھی اسکے ذہن میں صرف یہی بات تھی کہ وہ حانی کو دانیہ سے کبھی نہیں چھینے گی۔۔۔۔ مگر اسے کہیں اندر سے دو دوستوں سے دور ہونے کا دکھ ضرور تھا۔۔۔۔ وہ اتنی دور کبھی جانا نہیں چاہتی تھی۔۔۔۔ خاص کر حانی سے دور۔۔۔۔ مگر پھر نیویارک میں اسکی قسمت کا ایک لمبا سفر پہلے سے طے کر دیا گیا تھا۔۔۔۔۔۔ وہ ٹاپ لسٹ میں شامل تھی۔۔۔۔ یہاں اسکے ساتھ حمدان کے ایک دوست اور انکی بیوی نے کافی کاپریٹ کیا۔۔۔۔۔ دو ماہ تک مینو وہاں رہئ۔۔۔اسکے بعد اسکی ملاقات عادی اور مہر سے ہوئی۔۔۔۔۔ وہ ایک حادثاتی ملاقات تھی۔۔۔۔۔۔
◇◇◇
حانی نے ایک دن لگے ہاتھوں مینال کا ایڈمیشن فارم نیویارک کی ایک یونی میں بھیج دیا۔۔۔۔۔ اسکے مارکس بہت شاندار تھے جسکی وجہ سے اسے یہاں بھی کئی یونیورسٹیوں میں سکالرشپ تک آفر ہو چکی تھی۔ مگر شاید حانی اسے خود یہاں سے دور بجھوانا چاہتا تھا۔۔۔۔ مینال کی قسمت اچھی تھی کہ اسکا ایڈمیشن اپرووو ہو گیا۔۔۔۔۔ اسکے پیچھے حانی کی کیا سوچ تھی یہ تو وہ ہی جانتا تھا مگر وہ مطمئین تھا۔۔۔۔۔ ویسے بھی مہران صاحب نے مینو کے لیے بہت خواب دیکھے تھے۔۔۔۔ وہ بہت ذہین تھی۔۔۔ میتھ حل کرنا اسکے لیے مسئلہ ہی نہیں تھا۔۔۔۔۔ تبھی مہران صاحب اسے یوں اکیلے باہر بھیجنے کے لیے رضامند ہو گئے۔۔۔۔اس میں خاطر خواہ ہاتھ حانی کا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ اس وقت مینو کے دل میں حانی کے لیے جو جذبات تھے وہ بے حد جذباتی تھے۔۔۔۔۔ مگر اس سب کے باوجود اس نے یہ بات کسی کو پتا نہیں لگنے دی۔۔۔۔
۔۔۔ وہ بلاوجہ دونوں سے روٹھ جاتی۔۔۔۔ اور وہ دونوں پاگلوں کی طرح کئی کئی دن اسے مناتے رہتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ مانتی تو پھر سے اسکا دل ان دونوں سے اچاٹ ہو جاتا۔۔۔۔۔۔ محبت کا کیا ہے؟ اسکا نقصان تھوڑی ہوتا ہے؟ یہ تو جسے ہو جاتی ہے سارے خسارے تو اسکے ذمے لگ جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔ پھر جیسے وقت نے پلٹا لیا۔۔۔۔۔۔ گھر میں حانی اور دانیہ کے باقاعدہ رشتے کی باتیں ہونے لگیں۔۔۔۔۔ مینو سمجھ نہیں پاتی تھی کہ اسے یہ سب آخر کیوں برا لگتا ہے۔۔۔۔۔ خود پر تو اس نے کبھی غور کیا ہی نہیں تھا۔۔۔۔۔ اور جب کیا تو جیسے وہ اپنے سب اختیار کھو بیٹھی تھی۔۔۔۔۔ حانی سے وہ ہمشہ اٹیچ رہی تھی مگر یک دم وہ اسے کسی اور نظریے سے پرکھ بیٹھی۔۔۔۔۔۔ حانی اور دانیہ خود بے حد پریشان تھے کہ آخر مینو اتنی چرچڑی کیوں ہو گئی ہے۔۔۔۔۔۔ یہ تو صرف مینو ہی جانتی تھی۔۔۔
ان دو چہروں پر اسے اپنی مسکراہٹ کا عکس نظر آنے لگتا تھا۔۔۔۔ وہ رو دیتی تو جیسے وہ دو چہرے، دنیا کی ساری افسردگی خود پر اوڑھ لیتے۔۔۔۔ پھر ایک دن اسے اس ایک چہرے سے محبت ہو گئی اور دوسرے سے عشق۔۔۔۔
تب کی عمر تو بس سب کچھ پا لینے والی تھی۔۔۔۔۔ ہر چیز اور ہر انسان کو بس اپنا بنانے کی عمر۔۔۔۔۔۔۔ حانی اور دانیہ ہمیشہ سے ساتھ رہے تھے۔۔۔۔ انکا سکول ایک، کالج ایک پھر دونوں ایک ہی یونی گئے۔۔۔۔۔۔ ایک سے سبجیکٹس۔۔۔ شاید دانیہ، حانی کی نقل کرتی تھی۔۔۔۔۔ اسکا اندازہ تو شاید مینو کو آج تک نہ ہو سکا تھا۔۔۔۔ وہ ہمیشہ سے دانیہ اور حانی کے متعلق یہی سنتی آئی تھی کہ ان دونوں کا بچپن سے رشتہ طے ہے۔۔۔۔ وقت گزرنے لگا۔۔۔۔ مینال کے دل میں موجود جذبے اسے اندر سے ابھارنے لگے۔۔۔۔۔۔ ایک وقت وہ بھی آیا کہ اسے حانی کے ساتھ دانیہ بھی اچھی نہیں لگتی تھی۔۔۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain