یہ تو مینو کی پوری زندگی کا الجھا سا نصاب تھا۔۔۔۔۔ کہاں وہ مینال مرتضی جو خود اٹھ کر پانی بھی نہیں پیتی تھی۔۔۔۔۔۔ اسکے اردگرد کبھی بھی ایسی کوئی چیز نہ تھی جو اسے اداس یا پریشان کرنے کی ہمت رکھتی تھی۔۔۔۔ اپنی مرضی سے جیتی ہوئی وہ سنہری سی شہزادی سکول سے لے کر کالج تک ٹاپ پر رہی تھی۔۔۔۔۔ پڑھائی کے معاملے میں وہ اور نیلم ایک سی تھیں۔۔۔۔ جبکہ دائم کو وہ ہمیشہ نظر کا ٹیکا کہا کرتی تھیں۔۔۔ پڑھتا جو نہیں تھا۔۔۔۔ دنیا ادھر سے ادھر ہوجائے مینو کی بلا سے۔۔۔۔۔۔ جو بات کہہ دیتی تو گویا پتھر پر لکیر ہو جاتی۔۔۔۔ جب سے آنکھ کھلی خود کے قریب دو بے حد خاص اپنوں کو دیکھا۔۔۔۔ حانی اور دانیہ۔۔۔۔ وہ تو جیسے اپنے بہن بھائیوں کو چھوڑ کر مینو کے لاڈ اٹھانے پر زیادہ جلدی تیار ہو جایا کرتے تھے۔۔۔۔۔ وہ ہنستی تھی تو جیسے
مینو شاید اب اس سے زیادہ بات نہ کر سکتی تھی۔۔
"اپنا خیال رکھنا میری جان" اور اب شاید مہر میں بھی مزید ہمت نہیں تھی۔۔۔۔۔فون بند کر کے وہ دوبارہ تھکے تھکے قدموں سے اپنے کمرے میں آئی اور زور دار طریقے سے دروازہ بند کیا اور روتی ہوئی وہیں بیٹھ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔ بے آواز رونے کی تو جیسے وہ اب عادی تھی۔۔۔
"حانی کبھی نہیں جان پائیں گے۔۔۔۔ انھیں نہیں جاننا چاہیے۔۔۔ نہیں۔۔۔ میں دانیہ اور حانی کی نفرت برداشت نہیں کر سکتی۔ اے اللہ مجھے حوصلہ دیجئے۔۔۔۔ مجھے مزید کسی کے لیے تکلیف مت بنائیے گا" وہ جیسے سر جھکائے بے بسی سے بولی تھی۔۔۔ چند مزید آنسو اسکے چہرے کی اذیت کا حصہ بنتے چلے گئے
◇◇◇
وہ جیسے ماضی کی ان پگڈنڈیوں پر اکیلے ہی محو سفر تھی۔۔۔ اسکا شعور جیسے چیخ چیخ کر اسے ہلا رہا تھا۔۔۔۔ یہ کچھ سالوں پہلے کا قصہ تو نہیں تھا کہ شعور پر ثبت رہ گیا ہے۔۔۔۔
میری دعا ہے وہ تمہیں مل جائے" مہر روہانسی ہو کر بولی تو جیسے مینو کا دل رکا۔۔۔
"خدارا مہر مجھے یہ دعا مت دینا۔۔۔۔۔۔۔ میں عادی سے بات کروں گی۔ اسے واسطہ دینا پڑا وہ بھی دوں گی۔۔۔ لیکن میں اسے مناوں گی۔۔۔ کم ازکم اسے تو اسکی سہی اور بہترین منزل ملنی چاہیے۔ وہ ایک کے بعد ایک اور زیادتی ڈیزرو نہیں کرتا" مینو کی آنکھوں میں ایک بار پھر نمی تیرنے لگی۔
"مجھے معاف کر دو میری جان۔۔۔ میرا مقصد تمہیں دکھی کرنا نہیں تھا" مہر جیسے شرمندہ سی ہوئی۔
"دکھی نہیں ہوں۔۔۔ ہاں تب تھی جب تمہارے سامنے اپنا دل کھول کر روئی تھی۔۔۔۔۔ اس اذیت کو اسی لمحے نکال پھینکا تھا۔۔۔ میں تو خواب میں بھی اب حانی کو سوچتے ڈرتی ہوں کہ کہیں انجانے میں، میں دانیہ کی بے لوث محبت کی بے ادبی نہ کر جاوں۔۔۔۔ مجھے حانی کی دعا کبھی مت دینا مہر خدا کے لیے۔۔۔۔"
مگر یہی تو مینو کی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت تھی۔۔۔ جس نے اسکے چہرے کا ہر رنگ فق کر دیا۔۔۔۔۔۔
"مجھے مزید اذیت سے دوچار مت کرو مہر۔۔۔۔پلیز" مینو کی سرد سی آواز نے جیسے منت کی۔
"ہمممم۔۔۔ تم اور عادی دونوں ہی ایک سراب کے پیچھے بھاگ رہے ہو۔ یقین مانو یہ سراب صرف اور صرف پچھتاوا لائے گا۔۔ بہت جلد حقیقت سے سامنا ہو جاتا ہے۔۔۔۔ لیکن پھر ہمارے ہاتھ میں کسی فیصلے کا اختیار نہیں بچتا" مہر بھی بوجھل تھی۔
"میرے لیے بس دعا کرو کہ میں اپنے عہد کو نبھا پاوں۔ مینو کسی کو دکھ دینے سے پہلے مر جانا زیادہ بہتر سمجھے گی۔ عادی کے ساتھ کی گئی زیادتی بہت بڑی ہے اور مجھے اسکی قیمت جھکانی ہوگی۔۔۔۔ بھلے وہ اسی شکل میں ہی کیوں نہ ہو جو فل وقت مجھے درپیش ہے" مہر کو لگا وہ بے حد دکھ میں ہے۔
"مینو۔۔۔۔۔ حانی کو بتا دو۔۔۔۔۔ خود کے ساتھ کوئی ایک بھلائی کر لو۔
مہر شاید اس سے کچھ کہنا چاہتی تھی۔۔۔۔ مینو لفظوں کو پرکھنے میں ماہر تھی۔
"تو تم کیا چاہتی ہو؟" سنجیدگی سے سوال کیا گیا تھا۔
"یا تو واپس لوٹ آو یا پھر عادی کو اس زنجیر سے رہائی دے دو مینو" مہر بے بسی کی انتہا پر تھی۔
"تم جانتی ہو مہر یہ لوٹنا کم ازکم مینو کے اختیار میں نہیں۔۔۔۔ دوسرا یہ کہ میں نے عادی کو کبھی باونڈ نہیں کیا۔۔۔۔ پہلے دن سے میرا جو جواب تھا وہی آج ہے۔۔۔۔۔ پھر وہ جانتے بوجھتے خود کے ساتھ ایسا کیسے کر سکتا ہے؟ مجھے آج سچ میں دکھ ہوا ہے" مینو کے چہرے کی اداسی، مہر محسوس کر سکتی تھی۔
"ہمممم۔۔۔ تم بھی تو یہی کرتی آئی ہو مینو۔۔۔ خود کو پاگل بناتے بناتے تم کو کتنا عرصہ بیت گیا۔۔۔ حنوط مرتضی بھی تو تمہارا کبھی نہیں ہو سکتا۔۔۔۔۔ پھر وہ جو تمہارا ہو چکا ہے اسے کیوں گنوا رہئ ہو؟" مہر کو لگا وہ کچھ زیادہ بول گئی
"ہاں نا اکڑو بنا ہوا آجکل۔۔۔۔ میں نے بھی اسکی جان کھائی ہوئی۔ کبھی کبھی تو مجھے اپنی حرکت پر افسوس ہوتا ہے" مینو سمجھ نہ سکی کہ مہر کس متعلق بات کر رہی ہے۔۔
"ہیں۔۔۔۔ لیکن ہوا کیا؟" مینو تجسس لیے بولی۔
"عادی کی شادی طے کرنے والی ہوں۔۔۔۔ اور وہ بھی زبردستی" مہر کا لہجہ بھی یک دم اداس ہوا۔
"کیا وہ مان جائے گا؟" مینو کو حیرت کا جھٹکا لگا۔۔
"ہمممم یہی تو مسئلہ ہے۔۔۔۔۔ میں چاہتی ہوں وہ اپنے دل سے رضامندی دے۔۔۔ ورنہ زبردستی کرتے ہوئے مجھے بہت دکھ ہوگا" مہر کی بات پر مینال سنجیدہ ہوئی۔
"کیا کہتا ہے؟" سنجیدگی برقرار تھی۔
"مینو کو چاہتا ہوں" مہر کے چہرے پر بھی سنجیدگی ابھری۔
"ہمممم۔۔۔ پاگل ہے۔۔۔۔ " مینو کو دکھ سا ہوا۔ وہ اسے آخر کیوں نہیں سمجھ رہا اب۔۔۔
"ہاں کیونکہ اسے لگتا ہے تم لوٹ آو گی۔ نجانے یہ کیسی زنجیر ہے جس میں وہ مکمل بندھا ہے۔ "
پورا کمرہ سورج کی روشنی سے منور ہو گیا۔۔۔
"ہاں نا۔۔۔ رات سوئی نہیں تھی تو آکر لیٹنے کی دیر تھی کہ پتا ہی نہیں چلا کب سو گئی" مینال ابھی تک اپنی آدھ کھلی آنکھیں مل رہی تھی۔۔۔ پھر واپس بیڈ پر آکر ٹیک لگائے بیٹھ گئی۔
"کیوں بھئی۔ خیریت ہے؟" مہر نے فکرمندی سے پوچھا۔
"ہاں یارا۔۔۔تایاجان کو ہارٹ اٹیک ہوا تھا کل صبح۔۔۔ تو ہم سب ہوسپٹل میں ہی تھے رات۔۔۔" مینال نے اداسی لیے بتایا تو مہر بھی پریشان سی ہوگئی۔
"اوہ۔۔۔ اللہ پاک انھیں شفا دیں۔۔۔۔ اب کیسے ہیں؟" مہر کی فکرمندی قائم تھی۔
"ہاں اب تو خطرے سے باہر ہیں الحمداللہ" مینال کی بات پر مہر بھی نارمل ہوئی۔
"چلو شکر ہے۔۔۔۔۔" مینو اب اٹھ کر باہر آگئی تھی۔۔ لیکن لگتا تھا گھر کوئی نہیں ہے۔
"ہاں۔۔۔ تم بتاو عادی کیسا ہے۔ اب تو بہت کم لفٹ کراتا ہے۔ مغرور ہو گیا ہے" مینو کی بات پر مہر مسکرا دی۔
جو بدلے میں مسکرایا تک نہیں تھا۔۔۔روٹھا ہوا سا اداس بچہ۔۔۔۔
"مریض کے پاس اسقدر رش نہ لگائیں آپ سب" نرس نے گویا آکر سب کو اطلاع دی تھی۔۔۔ دائم اکیلا ہی آچکا تھا۔۔۔۔ آتے ہی وہ نیلم کے ساتھ بیٹھا اور مہران کا ہاتھ تھامے مسکرا دیا۔۔
"ماشاء اللہ ۔۔۔۔ آپ تو ایک دم فٹ لگ رہے ہیں۔ میں ابھی آتے ہوئے پوچھ کر آیا ہوں، کل تک آپکو ڈسچارج کر دیں گے" یہ بات انکے لیے واقعی اچھی خبر تھی۔۔۔ مہران صاحب نے ادھر ادھر دیکھا۔۔
" مینال کہاں ہے؟" مہران نے کہا تو حانی نے بھی جیسے متلاشی نظریں ارد گرد دوڑائیں۔۔۔ واقعی اسکی کمی تھی۔
"وہ یہیں تھی تایاجان۔۔۔۔ میں گھر گیا تھا تو اسے ساتھ لے گیا تھا۔۔ وہ سو رہی تھی تو میں نے جگانا مناسب نہیں سمجھا" دائم نے کہا تو جیسے انھیں تسلی سی ہوئی۔
"حانی بھائی۔۔۔ آپ بھی تھوڑا آرام کر لیں۔۔۔ تایاجان آپ انھیں کہیں۔۔۔
انکے بھی چہرے پر اب کچھ اطمینان سا تھا۔۔۔۔
"ان شاء اللہ " ماہین نے بھی مسکراتے کہا۔۔ ارحم بھی بڑے ماموں کو یوں بیمار دیکھ کر کافی اداس تھا۔۔ دانیہ اور نادیہ بھی فکر مند سی دیکھائی دے رہی تھیں۔ اور وہ تو بلکل چپ تھا۔۔۔ پوری رات وہ بابا کے سرہانے بیٹھا رہا تھا۔۔۔ اب تو چہرے سے تھکن بھی وافع تھی۔۔۔ مہران نے ایک نظر حانی کو دیکھا۔۔۔ وہ جانتے تھے کہ وہ انکے معاملے میں ایک دو سال کا بچہ ہی ہے۔
"اللہ آپکو میری زندگی بھی لگا دے بھائی۔۔۔ آپ ہم سب کا سائبان ہیں۔۔۔ اللہ آپکو پہلے جیسا کر دیں" رضوان بھی پوری سچائی لیے بولے تھے۔۔۔ اور مہران تو ان سب کے چہرے اور ان سبکی محبتیں دیکھ کر ہی آدھے ٹھیک ہو گئے تھے۔
"جن کے پاس تم سب جیسے اتنے پیارے اپنے ہوں۔ اسے بھلا کیا ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔۔" اب وہ حانی کا ہاتھ اپنی مضبوط گرفت میں لیتے اسے دیکھتے بولے۔۔۔
مجھے معاف کر دینا عادی۔ پر تمہیں اس اذیت سے نکالنے کے لیے مجھے تمہارا دشمن بننا پڑے گا۔۔۔۔ خوشیوں پر تمہارا بھی برابر کا حق ہے" اسے جاتا دیکھ کر مہر نے جیسے خود کلامی کی تھی۔۔۔ افسردگی اور اداسی قائم تھی۔۔۔۔
◇◇◇
مہران صاحب کو ہوش آچکا تھا۔۔۔ ایک ہی دن میں وہ بے حد کمزور سے ہوگئے تھے۔ ڈاکٹر نے انھیں ایک آدھ دن مزید ہوسپٹل رکھنے کا کہا تھا۔۔۔ سب ہی مہران کو دیکھ کر فکر مند تھے حانی کی تکلیف تو کوئی اسی کی جگہ پر جا کر محسوس کر سکتا تھا۔۔۔۔
"میں ٹھیک ہوں میرا بچہ" نیلم بابا کے ساتھ لگی پھر سے ہلکا ہلکا رو رہی تھی جب مہران نے محبت سے اسکے چہرے پر ہاتھ دھرتے کہا۔
"کہاں ٹھیک ہیں بابا۔۔۔ آپ اتنے ویک ہو گئے ہیں" وہ روہانسی سئ ہو رہی تھی۔۔۔
"بس دیکھنا زرا۔۔۔ ہم نے انھیں اتنا کچھ کھلانا ہے کہ یہ دوڑنے لگ جائیں گے" رضوان بھی سامنے ہی بیٹھے بولے۔۔
ٹھیک ہے۔مجھے تھوڑا وقت دو" عادی کی بات پر مہر نے اسکی سمت دیکھا ۔۔۔۔
"ابھی تو بس اسکا ذکر ہوا ہے۔۔۔۔ اگر وہ واقعی تم کو کہے تو میں جانتی ہوں تم خوشی خوشی یہ کڑوا گھونٹ پی لو گے" مہر جانتی تھی کہ یہ سراسر تکلیف ہے مگر وہ بھی بے بس تھی۔
"ہمممم مجھے مزید مشکل میں کیوں ڈالنا چاہتی ہو؟" وہ جیسے سوالیہ نظریں لیے تھا۔۔۔
"کیوں کہ میں تمہاری لائف سیٹل دیکھنا چاہتی ہوں۔۔۔ مینو تمہاری کبھی نہیں ہو سکتی۔۔۔ وہ دل اور جان سے اس شخص کی ہے جسے تو خود بھی اسکی خبر نہیں۔۔۔ پھر میرے بھائی تم کیوں اس لاحاصل سے انتظار سے خود کو اذیت دینا چاہتے ہو" مہر اسکا چہرہ تھامے روہانسی ہوکر بولی۔۔۔ اور وہ تو جیسے کوئی پتھر تھا۔
"تم بہن نہیں، دشمن ہو" شاید عادی مزید وہاں رکتا تو اپنا ضبط قائم نہ رکھ پاتا۔۔۔۔۔ مہر کے چہرے پر بھی افسردگی چھا گئی۔
"یہ رہا تمہارا ٹکٹ۔ سامان پیک کرو اور پاکستان جانے کی تیاری کرو" وہ آفس جانے سے پہلے چہرے پر خطرناک حد تک سنجیدگی اوڑھے ٹکٹ اور پاسپورٹ مہر کی جانب بڑھاتے بولا تھا۔۔۔ وہ تو تقریبا سکستے میں ہی آچکی تھی۔
"تو تم نے اپنی ضد پوری کرلی۔۔۔۔" ناراضگی کی انتہا لیے اب وہ اسے ٹائی باندھتے ہوئے دیکھ کر بولی جو بغیر کوئی تاثر لیے تھا۔
"میری شادی کو چھوڑ کر اپنی فیملی پر توجہ دو۔۔۔۔ بہت ہو گیا۔ میں اکیلا بلکل ٹھیک ہوں" وہی تیکھا اور بیزار سا لہجہ۔
"تم کیوں اپنی زندگی تباہ کرنے پر تلے ہو۔ بس کردو" وہ جیسے اسکی بازو پکڑے دھیمی ہوئی مگر عادی ٹس سے مس نہ ہوا۔
"ٹھیک ہے۔۔۔۔۔ میری بھی بات کان کھول کر سنو۔۔۔ مہر بھی تمہاری بہن ہے۔۔۔۔۔۔ اب اگر تم میرا ہاتھ پکڑ کر بھی نکالو گے تو میں نہیں جاوں گی" ایک ہی لمحے میں ٹکٹ کے دو ٹکڑے کیے وہ حد درجہ ناراضگئ لیے تھی۔
"اوکے لیکن ہم صبح آجائیں گے۔۔۔۔ رونا مت اب نیلم۔۔۔" مینو اسے پیار سے کہتی ہوئی دائم کے ساتھ چلی گئی۔۔۔۔
"تھوڑا سا کھا لو جان۔۔۔۔ میری خاطر" دانیہ نے اب کی بار کہا تو وہ جیسے مان سی گئی مگر اس نے بمشکل ایک دو ہی بائیٹ کھائی تھیں۔۔۔۔۔۔۔ دانیہ کو بھی تھوڑی تسلی سی ہو گئی۔۔۔
◇◇◇
اب تو دانیہ اور نیلم بھی دائم کے اس نئے شفیق انداز پر مسکرائی تھیں۔۔۔ وہ واقعی آل ان ون پیکج تھا۔ مینو بھی اسکے کندھے پر سر دھرے ہنس دی تھی۔
"چلو چلو یہ رونا دھونا مکاو۔۔۔ میں زرا گھر جا رہا ہوں۔ تم سب میں سے کسی نے جانا ہے تو آجاو" دائم نے کھڑا ہوتے ہوئے کہا۔
"اسے لے جاو۔ تھوڑا آرام کر لے گی" دانیہ نے نیلم کا کہا مگر وہ کہاں ہلنے والی تھی۔
"نہیں۔۔۔ میں کہیں نہیں جاوں گی۔ " نیلم کا ابھی تک وہی جواب تھا۔۔
"ظالمو کوئی ایک تو آجائے کمپنی کے لیے۔۔۔ آجاو مینو تم۔۔۔۔" مینال نے ایک نظر دانیہ کو دیکھا تو وہ بھی اسے جانے کا اشارہ کر رہی تھی۔
دائم نے کہا تو مینو اور دانیہ بھی ہلکا سا مسکا دیں۔۔۔۔
"ہممم۔۔۔ یہ کچھ نہیں کھا رہی" اب تو دانیہ بھی اداس تھی۔
"نیلم۔۔۔۔۔ دیکھ لو جب میری باری آئی تو میں بھی ایسے ہی منہ لٹکا کے نھہرے کروں گا۔۔۔۔۔ پھر مناتی رہنا۔۔۔۔ کم ازکم تم تو کاپریٹ کرو یار" اب وہ اسکا موڈ بہتر کرنے کے لیے بولا تھا۔۔۔
"میرا دل نہیں کر رہا۔۔۔۔" ایک ہی رٹ تھی اسکی۔
"اداس مت ہو۔۔۔۔۔ جانتی ہوں کہ یہ اداسی ہٹانا ناممکن ہے کیونکہ یہ معاملہ ہی ایسا ہے۔۔۔۔ والدین کو آنے والی زرا سی آنچ بھی انکے بچوں کے لیے بہت بڑی تکلیف ہوتی ہے"مینو کی بات پر اب وہ تینوں اسکی جانب دیکھ رہے تھے جو یک دم ویران سی تھی۔۔۔
"مینو۔۔۔۔۔۔ تم بھی" دائم اب اسکی آنکھوں کی نمی دیکھ کر منہ بنا چکا تھا جس پر وہ ہنس دی۔۔۔۔۔
"مت اداس ہو یار۔۔۔ ہم سب ہیں نا۔۔۔۔۔ مجھے اپنا بڑا بھائی سمجھو۔۔۔ یہاں آو پگلی"
دائم کمرے میں گیا تو حانی بابا کے سینے پر سر رکھے تھا۔ بے ساختہ سی ایک مسکراہٹ اسکے چہرے پر ابھری۔۔۔ سامنے مہران صاحب لیٹے تھے اور حانی بلکل کسی چھوٹے بچے کی مانند یوں تھا گویا بابا کے سینے پر سر رکھے کوئی بات منوا رہا ہو۔ وہ اندر جاتے ہی ایک مسکان لیے پھر سے باہر نکل آیا۔۔۔۔ شاید اسے فل وقت باپ بیٹے کو ڈسٹرب کرنا مناسب نہیں لگا تھا۔۔ دائم کو واپس آتا دیکھ کر مینو اور دانیہ اس طرف متوجہ ہوئیں۔
"کیا ہوا؟ اس نے بھی نہیں کھایا کیا؟" دانیہ کے لہجے میں فکرمندی عیاں تھی۔
"میں جا ہی نہیں پایا۔۔۔۔۔۔ ویسے بھی فل وقت وہ کچھ نہیں کھائیں گے جانتا ہوں انھیں۔۔۔ اس معاملے میں وہ بے حد حساس ہیں" دائم اب نیلم کو دیکھ رہا تھا جو ابھی تک بوجھل منہ بنائے دانیہ کے ساتھ لگی تھی۔
"سچ کہوں تو یوں لگا جیسے ایک چھوٹا سا بچہ بابا کے سینے سے لگا کوئی ضد منوا رہا ہے
دائم نے دانیہ کو بیگ پکڑاتے کہا۔۔ دانیہ اور مینو کو تو اب واقعی بھوک فیل ہو رہی تھی۔
"جب تک بابا ہوش میں نہیں آتے مجھے کچھ نہیں کھانا" وہ دانیہ کے ساتھ لگی بولی۔۔۔ جبکہ دائم اب شاید روم کی طرف جانے والا تھا۔۔
"وہ ٹھیک ہے اب نیلم۔۔۔ ضد نہیں کرو۔۔۔ میں یہ حانی بھائی کو دے آتا ہوں۔ انہوں نے بھی کچھ نہیں کھایا" دائم ایک سینڈوچ اور کافی لیے بولا اور روم کی طرف بڑھ گیا۔
"اٹھو نا نیلم۔۔۔۔ یوں کرو گی تو بیمار ہو جاو گی۔۔۔ چلو شاباش ایک بائیٹ لے لو" اب کی بار مینال نے کہا تھا مگر نیلم فل حال کچھ کھانا نہیں چاہتی تھی۔۔۔
"مجھے نہیں کھانا کچھ" اب تو دانیہ اور مینو نے ایک اداس نظر ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر افسردہ سی نیلم کو۔۔۔۔ ان دونوں نے بھی کھانے کا ارادہ ملتوی کر دیا تھا۔۔۔۔ نیلم کی اداسی دیکھنے کے بعد انکی بھی بھوک جیسے اڑ سی گئی۔
◇◇◇
شاید ایک دوسرے کی پرواہ اور فکر۔۔۔ کچھ دیر تک مہران صاحب کو روم میں شفٹ کر دیا گیا تھا اور حانی ہی سب سے پہلے اندر گیا تھا۔۔۔۔ باقی سب نے باہر سے ہی انھیں دیکھا۔۔۔۔۔۔ سب ہی تھوڑے اطمینان میں آچکے تھے۔
◇◇◇
رات تک رضوان ، نادیہ ماہیں اور ارحم کو لے کر گھر چلے گئے تھے کیونکہ ہوسپٹل میں حانی کے علاوہ وہ چاروں بھی موجود تھا۔ حانی تب سے بابا کے ہی روم میں تھا۔۔۔۔ کچھ ہی گھنٹوں میں مہران صاحب کی اچانک اس طبعیت کی خرابی نے حانی کو بے حال سا کر دیا تھا۔ باقیوں کو بھی گھر جانے کا کہا گیا تھا مگر نیلم کے علاوہ باقی بھی فل حال جانے پر رآضی نہیں تھے۔۔۔ صبح سے رات ہو گئی تھی لہذا دائم خود ہی سب کے کیے کافی اور سینڈوچ لے آیا تھا۔۔۔۔۔ زیادہ فکر اسے نیلم کی تھی جس نے رورو کر خود کو آدھا کر لیا تھا۔
"کچھ کھا لو آپ تینو۔۔۔۔ آپی اسے بھی کھلا دیں۔۔۔"
مزید کچھ برا ہونے سے پہلے میں آپکو یہی مشورہ دوں گا کہ بائے پاس کروا لیجئے۔۔۔" ڈاکٹر نے حانی کے کندھے پر ہاتھ دھرے جیسے انھیں وان کیا تھا۔ حانی کا چہرہ پھر سے تاریک سا ہوا۔۔۔
"ٹھیک ہے آپ جیسا کہیں گے ویسا کریں گے۔۔۔ ہم بھائی جان سے کب مل سکتے ہیں" رضوان نے پوچھا۔
"ابھی کچھ دیر تک ہم انھیں روم میں شفٹ کر دیں گے۔ پھر آپ باری باری مل لیجئے گا۔ اگر وہ ہوش میں ہوئے تو انھیں کم سے کم باتیں کروائیے گا۔۔۔۔۔۔ باقی سب ٹھیک ہے۔ ڈونٹ وری۔ اللہ حافظ" ڈاکڑ اب کی بار مسکراتے ہوئے بولا اور چلا گیا۔۔۔ نیلم کا رونا کچھ لمحے کو رک گیا تھا۔۔۔۔۔۔ دائم نے ایک نظر روتی نیلم کو دیکھا تو اسے پہلی بار ان آنسووں سے بہت تکلیف ہوئی تھی۔۔۔۔۔ شاید اس لیے کہ وہ بہت ٹچی رہے تھے۔۔۔ اور ایک دوسرے کے اچھے دوست بھی تھے۔۔۔۔۔ مگر شاید کچھ اور بھی تھا جو انکے دلوں میں مقید تھا۔
دائم آگے آیا اور حانی کے کندھے پر اپنا ہاتھ دھر دیا۔ سب ہی اس ایک دم آنے والی پریشانی سے بےحال تھے۔۔۔۔ کتنی ہی دیر وہ سب اسی کشمکش میں مبتلا رہے۔۔ حانی کو لگا اسکا دل ڈوب رہا ہے۔۔۔ مہران صاحب کو ہونے والی زرا سی تکلیف بھی حانی کی جان نکال دیتی تھی۔۔۔۔ نیلم تو ویسے بھی حساس تھی۔ آخر کار مزید کچھ دیر انتظار کے بعد ڈاکٹر باہر آگیا۔
"بابا کیسے ہیں؟" حانی فورا ڈاکٹر کی جانب لپکا۔۔۔۔ چہرہ ویسا ہی خوف اور دکھ سے بھرا ہوا تھا۔
"الحمداللہ ہی از آوکے ناوووو۔بٹ فل حال وہ بے ہوش ہیں۔۔۔ زرا سی اور دیر ہوتی تو یقینا ہم انھیں بچا نہ پاتے" ڈاکٹر نے گویا ان بے قرار اور پریشان حال افراد کو نوعید سنائی تھی۔۔۔۔ نیلم کا رونا جیسے مزید گہرا ہوا۔۔۔ حانی کی آنکھیں بھی جیسے شکر گزاری کی نمی کے سنگ بھیگیں۔۔۔
"مگر۔۔۔۔ انکا ہارٹ اب بہت ویک ہے۔۔۔۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain