ماہین، دانیہ مینو اور دائم بھی بے حد پریشان حال تھے جبکہ ارحم بھی اداس سا تھا۔۔۔۔
"کہاں ہیں بابا" وہ جیسے آئی سی یو کی جانب لپکا۔۔۔۔ لیکن وہ بند تھا۔۔
"نیلم میری جان۔۔۔ رو مت۔۔۔ یہاں آو۔۔ بیٹھو" نادیہ نے نیلم کو تسلی دیتے ہوئے بٹھایا مگر فل وقت وہ چپ کر جاتی ایسا ناممکن تھا۔ مینو بھی ارحم کا ہاتھ پکڑے انکے ساتھ بیٹھ گئی جبکہ دانیہ اب حانی کے پاس چلی گئی۔۔
"سب ٹھیک ہوگا۔۔۔ پریشان مت ہو" حانی کو بھی فل وقت کسی حوصلے کا کوئی اثر نہ تھا۔۔۔ اسکے چہرے کا خوف سب ہی دیکھ سکتے تھے۔۔۔ مینو بھی اب سبکے چہرے دیکھ کر رونے والی تھی۔ ایک نظر حانی کو دیکھا تو جیسے آنکھ سی نم ہوئی۔۔۔۔
"کیا کہا ہے ڈاکٹرز نے ؟" حانی کی ساکت سی آواز ابھری۔
"فل وقت خطرے میں ہیں۔۔۔۔" تو گویا حانی کا رہا سہا حوصلہ بھی دم توڑ سا رہا تھا۔۔۔۔
ڈاکٹر ۔ کچھ بتائیں تو۔ آخر ہوا کیا ہے۔ بھائی جان کیسے ہیں اب" ڈاکٹر کے باہر آتے ہی رضوان دیوانہ وار بے چینی لیے اسکی جانب لپکے۔
"ہونا کیا تھا۔۔۔۔ ہارٹ اٹیک ہوا ہے۔۔۔۔ اور دعا کیجئے کہ اللہ انکی زندگی بچا لے۔۔۔ فل حال وہ خطرے میں ہیں" ڈاکٹر کے بتانے پر جیسے وہ مزید غمگین ہو گئے۔۔۔ آنکھوں میں جیسے چند ایک آنسو لہرائے۔۔۔۔
"رضوان۔۔۔۔ یوں ہمت مت ہاریں" نادیہ خود بے حال سی تھیں۔
"دعا کرو نادیہ۔ انھیں کچھ نہ ہو۔ ورنہ میں خود کو معاف نہیں کر پاوں گا" سر ہاتھوں میں لیے کتنی ہی دیر سے وہ دونوں مہران صاحب کی تندرستی کے لیے دعا گو تھے۔۔۔۔
"چاچو" حانی کی آواز پر جیسے وہ سر اٹھائے دیکھنے لگے۔۔ وہ سب لوگ یہیں آرہے تھے۔۔۔
"حانی۔۔۔۔۔" رضوان صاحب بھی اسکی جانب لپکے۔۔ خبکہ نادیہ اب نیلم کو خود سے لگا چکی تھیں جو مسلسل روئے جا رہی تھی۔
"پتا نہیں۔۔۔ کل سے طبعیت ناساز تھی۔۔۔ ڈاکٹر نے بائے پاس کا مشورہ دیا ہے۔۔۔ لیکن پھر اچانک سے وہ بیہوش ہو گئے۔ ابھی آئی سی یو میں ہیں۔۔۔ تم سب آجاو" رضوان بھی حد درجہ پریشانی سے بولے۔۔۔
"ہم نکلتے ہیں" حانی نے کہہ کر فون رکھ دیا۔
"بابا کی اچانک طبعیت خراب ہو گئی ہے۔ وہ آئی سی یو میں ہیں۔۔ ہمیں فورا نکلنا ہوگا" حانی نے بتایا تو نیلم تو رونا سٹارٹ کر چکی تھی۔۔ دانیہ اور مینو فورا آگے بڑھیں۔
"پریشان مت ہو میری جان۔۔۔ تایا جان بلکل ٹھیک ہو جائیں گے۔۔۔ چلو نکلتے ہیں پھر" ماہین اور ارحم بھی ساتھ ہی چلے گئے۔۔۔ رزاق رک گئے تھے مگر انہوں نے جلد آنے کا کہا تھا۔ وہ سب لوگ جتنا جلدی ممکن ہو سکا نکل گئے تھے۔۔۔ چار پانچ گھنٹوں کا سفر حانی نے دو گھنٹے میں طے کیا تھا۔۔۔ سب ہی پریشان تھی۔ حانی کا تو بس نہیں چل رہا تھا کہ اڑ کر بابا کے پاس پہنچ جاتا۔
◇◇◇
بھئی آج بھی اگر تم لوگوں نے تھکو بن کر کہیں گرنا ہے تو پہلے بتا دو۔۔۔۔ میں حانی بھائی اور ارحم اکیلے ہی چلے جاتے ہیں۔ کیوں بھئی رس گلے"ان سب کا آج پھر گاوں گھومنے کا پلین تھا۔ تینوں خواتین کو ریڈی دیکھ کر جیسے دائم نے اطلاع عام دی۔۔۔
"اور اگر تم نے آج ایک بار اور اسکی گال کھینچی تو میں تمہیں مرغا بنا دوں گی" اب تو ارحم بچارا گال کھینچنے کی وجہ سے منہ بنائے دانیہ کے ساتھ لگا ہوا تھا۔۔۔۔
"چپ کرو سب۔۔۔ چاچو کی کال آ رہی ہے" حانی کی آواز پر سب کی بولتی بند ہو چکی تھی۔
"حانی۔۔۔ تم سب لوگ جتنا ہوسکے جلدی واپس آجاو۔ بھائی صاحب کی طبعیت اچانک سے خراب ہو گئی ہے" اب تو سب ہی حانی کے چہرے کی پریشانی وافع دیکھ سکتے تھے۔
"کیا ہوا بابا کو۔۔۔۔۔؟" نیلم تو سنتے ہی حانی کے پاس آگئی تھی۔ باقی سب کے چہرے بھی یک دم فکر مندی اور پریشانی میں ڈوب گئے۔
بھائی صاحب بلکل ٹھیک ہو جائیں گے" نادیہ نے گویا تسلی دینی چاہی۔
"ہمممم۔۔۔۔ جانتے ہوئے کہ انکی طبعیت ٹھیک نہیں۔۔ پھر بھی انکو اکیلا چھوڑ دیا۔۔۔۔ یااللہ میری اس غفلت کے لیے مجھے معاف کر دے۔ میرے بھائی جان کو شفا دے دے مالک" رضوان کی تو پریشانی اور دکھ سے حالت غیر تھی۔۔
"آمین۔۔۔۔ تسلی رکھیں رضوان" نادیہ بھی بس بے چینی سے آئی سی یو کی جانب نظریں جمائے تھیں۔
"بچوں کو بتا دوں کیا؟" یک دم رضوان کو جیسے ان سب کا خیال آیا۔۔۔۔
"بتانا تو پڑھے گا۔۔۔۔ آپ ہمت کر کے بتا دیں۔ باقی اللہ شفاء دینے والا ہے" اور اگلے ہی لمحے رضوان نمبر ملا کر کان سے لگا چکے تھے۔
◇◇◇
مہران جو ایک آواز پر بھی اٹھ جاتے تھے مگر آج ہلے تک نہیں تھے۔ رضوان نے ایک نظر پیچھے دیکھا تو فورا انکی جانب لپکے۔۔۔۔انکا پورا جسم ٹھنڈا ہو چکا تھا
"یااللہ ۔۔۔۔۔۔ بھائی۔۔۔ آنکھیں کھولیں" رضوان پریشانی کے عالم میں انکو ہلا رہے تھے مگر وہ بے ہوش تھے۔۔
"او مائی گارڈ۔۔۔۔۔ نادیہ۔۔۔۔۔ فورا ایمبولنس کو کال کرو۔" نادیہ بھی دوڑتی ہوئی کمرے تک بھاگیں۔
"کیا ہوا؟" نادیہ نے اندر آتے ہی پریشانی سے کہا۔
"فون دو ۔۔۔۔ کال کرنی ہے۔۔ بھائی پتا نہیں کب سے بیہوش ہیں۔۔" رضوان بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کال ملا چکے تھے۔۔۔ جلد ہی ایمبولنس آگئی تھی۔۔۔ مہران صاحب کی حالت کافی خراب لگ رہی تھی۔۔۔ رضوان اور نادیہ کا تو پریشانی سے برا حال تھا۔۔۔ انھیں آئی سی یو میں لے جایا گیا تھا۔۔۔ ڈاکٹرز نے فل حال کچھ نہیں بتایا تھا۔۔۔
"حوصلہ کریں رضوان۔۔۔۔
دانیہ بہت اچھی ہے۔۔۔۔ شی از پرفیکٹ فار می" خود کو جیسے تسلی دیتے ہوئے وہ اپنے ماتھے پر بکھرے بال ہٹائے بے بسی سے بولا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
◇◇◇
"بھائی نہیں جاگے ابھی تک؟" رضوان اب اخبار دیکھتے بولے جبکہ نادیہ انھیں ناشتہ سرو کر رہی تھیں۔
"میں گئی تھی بھائی صاحب کو جگانے۔ مگر سوئے ہوئے تھے۔۔۔ ایک آواز دی اور آگئی۔ آپ خود جگا جائیے گا" نادیہ اب انھیں چائے دے کر خود بھی بیٹھ گئیں۔
"چلو ایسا کرتا ہوں۔ میں انکے ساتھ ہئ ناشتہ کر لیتا ہوں۔۔۔ وہیں بجھوا دو" رضوان کرسی سے اٹھتے بولے اور مہران کے کمرے کی جانب بڑھ گئے۔ نادیہ بھی فرمابرداری سے ملازمہ کو ناشتہ ٹرے میں رکھنے کا کہنے لگ گئیں۔۔۔ رضوان کمرے میں پہنچے تو لائٹ آف تھی۔ زیرو بلب جل رہا تھا۔
"بھائی جان۔ اٹھ جائیں۔۔۔" رضوان نے جاتے ہی کمرے کے پردے ہٹائے تو پورا کمرہ روشن ہو گیا۔۔۔
سچ کہا۔۔۔۔ اس کھیل کھیل میں بہت نقصان ہو گیا حنوط مرتضی کا" وہ مینو کی ہنستی نیلی آنکھیں دیکھ کر سوچ رہا تھا جو اب سامنے دیکھ رہی تھی۔
"کہاں گم ہوگئے؟" مینو کی آواز پر وہ جیسے واپس آیا۔
"یہیں ہوں" وہ دوبارہ سے سامنے دیکھنے لگا۔۔۔ اب مینو اسے دیکھ رہی تھی جو یک دم سنجیدہ سا تھا۔
"آپ مجھے کیوں الجھن میں لگ رہے ہیں حانی؟" اسکے سنجیدہ چہرے کو دیکھتے ہوئے مینو سوچ رہی تھی۔۔۔ کتنے پاگل تھے دونوں۔ کہنے کی باتیں بس سوچ ہی سکے تھے۔۔۔ کاش کہہ دیتے۔
"کیا ہوا؟ " خود پر مینو کی نظریں دیکھ کر وہ رخ پھیر کر بولا تو وہ مسکرا دی۔
"کچھ نہیں۔۔۔۔۔ میں یہ دیکھ رہی ہوں کہ دانیہ اور آپ ایک ساتھ کتنے پیارے لگیں گے نا۔۔۔۔۔وہی امیجن کر رہی تھی" وہ اسکی بات پر لمحے بھر کو ساکت سا ہوا۔۔۔
"ہاں۔۔۔۔ لگیں گے پیارے" سامنے دیکھتے ہوئے ہلکی سی آواز میں کہا گیا۔۔۔۔۔۔
حانی آج خیر ہے نا۔۔۔۔۔ اتنی فلاسفی کس لیے۔۔۔" اب وہ مسکرائی تھی۔۔ اور اسکے پاس فرار کے لیے یہی آپشن تھا۔ وہ بھی کہنے کو مسکرایا تھا۔
"دانیہ کہاں ہے؟" اسکی بات کا جواب دیے بنا وہ کافی پیتے بولا۔
"دانیہ تو ارحم کو کہانی سنانے میں بزی تھیں۔ تبھی انہوں نے مجھے بھیج دیا" مینو نے مسکراتے ہوئے بتایا۔
"آہاں۔۔۔ اچھا ہے اسکی ٹرینگ ہو جائے گی" حانی نے یک دم ہی اپنا موڈ بدل کر شرارتی انداز میں کہا تو جیسے مینال کو بھی تسلی سی ہوئی۔
"ھاھا بلکل۔۔۔۔ اور ویسے بھی جتنی مینو نے آپ دونوں کی ٹرینگ کروائی ہے نا اسکے بعد اور کسی چیز کی گنجائش نہیں" اب تو وہ پرانا وقت یاد کیے ہنسی جب وہ ایک آفت کی پریا ہوتی تھی۔ وجہ ہو نہ ہو بس مینو نے منہ سجانا ہوتا تھا۔۔۔۔ اور پھر پورا دن وہ دونوں اسے خوش کرنے میں لگے رہتے تھے۔۔۔۔ حانی بھی وہ سب یاد کیے مسکرایا۔
" اب تو وہ مسکراتے بولی تھی۔
"یہ چوکیداری میرے بس کا روگ نہیں ہے" وہ بھی گویا مسکرایا ہی تھا۔
"اچھا جی۔۔۔۔ ویسے یہاں کھڑے ہو کر کیا ہو رہا تھا۔۔۔ کوئی گہری سوچ درپیش تھی شاید" وہ تجسس لیے حانی کو دیکھ رہی تھی جو اب کافی پینے اور سامنے دیکھنے میں مصروف تھا۔
"سوچ ایسی کوئی خاص نہیں تھی۔۔۔ یہ بتاو تمہاری بازو کیسی ہے؟" حانی کو یک دم خیال آیا۔۔۔ نشان ابھی تک موجود تھا۔
"ٹھیک ہے۔۔۔ " مینو بھی سامنے دیکھتے بولی۔
"پر نشان تو ویسا ہی ہے" حانی اسکی سمت فکر مندی سے دیکھتا بولا۔
"کچھ زخم نشان چھوڑ جاتے بس۔۔۔ درد، وقت کے ساتھ ختم ہو جاتا ہے" وہ سنجیدہ ہوئی تھی۔
"میں نہیں مانتا۔۔۔۔ نشان چلے بھی جائیں تو زخم کی تکلیف کم نہیں ہوتی" اور وہ اسکی اس سنجیدگی سے آج بہت ٹائم بعد خوف کھا گئی تھی۔ اور وہ جانتی تھی یہ وقت اسکے امتحان کا ہے۔
عادی۔۔۔۔۔ اگر یہی فیصلہ امی کرتیں۔۔۔ تو کیا تم تب بھی یونہی انکار کرتے۔۔۔ میں نے بھی تو تمہیں ماں بن کر پالا ہے نا۔ کیا اس ناطے میرا اتنا بھی حق نہیں کہ میں تمہارے لیے ایک فیصلہ لے سکوں۔؟" مہر کا لہجہ سوالیہ اور اداس تھا۔۔۔۔عادی یک دم ہار سا گیا۔۔۔
"میں مینو کو چاہتا ہوں۔۔۔۔۔ تم کیوں نہیں سمجھتی" رخ پھیرے اپنے بالوں میں ہاتھ پھرے وہ بے بسی لیے تھا۔ مہر نے آگے بڑھ کر اسے کندھے سے سیدھا کیا۔۔۔
"لیکن وہ تمہیں نہیں چاہتی۔۔۔۔۔۔ مزید نہ اسکی مشکل بڑھاو نہ اپنی۔ تم اپنی قسمت بارہا آزما چکے ہو۔۔۔۔۔ بس کر دو۔" مہر کا لہجہ بھی سختی لیے تھا۔۔۔۔ ہادی کی نظریں اسکی اندر کی توڑ پھوڑ کا وافع پتا دے رہی تھیں۔
"وہ جسے چاہتی ہے۔ وہ بھی تو اسے نہیں چاہتا۔۔۔۔ وہ لوٹ آئے گی مہر۔۔۔۔۔ مجھے کچھ وقت دو" اب کی بار وہ التجا کر رہا تھا۔
حرا کی والدہ نے مسکراتے ہوئے کہا اور اٹھ کھڑی ہوئیں۔
"ان شاء اللہ ہم جلد آئیں گے" مہر بھی کھڑی ہوئی۔
"ان شاء اللہ ۔۔ امید ہے سب اچھا ہوگا" مہر انھیں دروازے تک چھوڑنے کے بعد جیسے ہی مڑی، سامنے ہی خطرناک سنجیدگی لیے عادی کو کھڑا پایا۔۔۔۔۔۔
"واٹ از دس مہر۔۔۔۔کون تھے یہ لوگ؟" بلا کی سرد مہری سے وہ مخاطب تھا جبکہ مہر اب مسکرا چکی تھی۔۔۔
"تمہارے سسرال والے" مہر بڑے مزے سے کہتی ہوئی دوبارہ لاونچ میں چلی گئی۔۔۔۔ وہ بھی حیران سا اسکے پیچھے ہو لیا۔
"تمہیں کہا تھا نا کہ مجھے شادی نہیں کرنی۔۔۔۔۔ دین وائے ؟" وہ اب غصے میں تھا۔
"لیکن مجھے تو کروانی ہے نا۔۔۔۔۔۔۔ " اسے تو جیسے آج اسکے غصے کی بھی پرواہ نہیں تھی۔
"میں تمہارا یہ فیصلہ ہرگز نہیں مانوں گا۔۔وائے یو فورسینگ می مہر؟" اب کی بار جیسے وہ تڑپ اٹھا تھا۔۔۔ مہر مڑی اور سنجیدہ ہوئی۔
تو حرا کی والدہ نے جیسے پیار سے اسکا چہرہ تھاما۔۔۔۔ عادی نے ایک نظر مہر کو دیکھی جو غضب کی آنکھیں پھیر چکی تھی۔
"وعلیکم السلام جیتے رہیے عادی بیٹا" محبت اور شفقت بھرے لہجے میں کہا گیا تھا۔۔۔ اسکے بعد عائشہ نے بھی سر ہلائے جواب دیا۔۔۔۔۔
"ایکسکیوز می" ایک خفا سی نظر مہر پر ڈالتے وہ کہتا ہوا باہر نکل گیا۔۔۔
"تو کیسا لگا آپکو میرا بھائی؟" عادی کے جاتے ہی مہر نے مسکرا کر پوچھا مگر عادی باہر ہی دروازے کی دوسری جانب کان لگائے تھا۔
"ماشاء اللہ ۔۔۔۔ بہت پیارا بچہ ہے" وہ دونوں ہی مسکرا رہی تھیں۔
"جی۔۔۔۔ یہاں کی بیسٹ کمپنی میں جاب کرتا ہے۔ اسکی قابلیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا" اب تو عادی کو غصہ سا آیا۔۔۔
"ماشاء اللہ ۔۔۔ تو پھر آپ اور عادی آئیے نا ہماری طرف۔ تاکہ ہم باقی کے معاملات بھی طے کر لیں"
یہ پوری فیملی بھی یہیں سیٹل تھی۔۔۔ عائشہ شادی شدہ تھی۔۔۔ مہر ، حرا سے ایک بار مل چکی تھی جب وہ سب رضی کی بھائی کی شادی پر پاکستان گئے تھے۔۔۔۔ وہ بہت پیاری اور خوش اخلاق تھی اور مہر بھی یہی سمجھتی تھی کہ عادل کے لیے ایسی ہی لڑکی ہونی چاہیے۔
"بہت اچھی سوچ ہے آپکی بیٹا" حرا کی والدہ نے مسکراہٹ کا تبادلا کیے کہا۔
"جی۔۔۔رضی نے مجھے آپ کا بتایا اور میں تو فٹ راضی ہوگئی۔ ماشاء اللہ حرا بہت پیاری ہے۔۔۔۔۔۔ اب عادل کو بھی پسند آجائے تو پھر تو زبردست ہو جائے" مہر کی پرجوشی یک دم ماندھ پڑی جب سامنے سنجیدہ سا عادل کھڑا تھا۔۔۔ وہ بھی اندر کا ماحول دیکھ کر کچھ حیران ہوا۔
"لیں عادی آگیا۔عادل یہاں آو۔ ان سے ملو" مہر کے کہنے پر اسے اندر لاونچ میں آنا پڑا۔
"اسلام و علیکم " وہ بھی رکھائی سے سلام کرتے بولا
اوکے دانیہ" مینو بھی فرمابرداری سے مگ لیے سیڑھیاں چڑھ گئی۔
◇◇◇
دوسری طرف مہر کی پھرتیاں بھی بے حد کمال تھیں۔۔۔ اپنی تمام تر توجہ اس نے دل برداشتہ ہونے کے بعد ایک اہم مشن پر لگا دی تھی۔ اس دن عادی سے بات کرنے کے بعد ہی وہ طے کر چکی تھی کہ اب وہ عادی کی شادی کروا کے ہی دم لے گی۔۔۔ اسی سلسلے میں اس نے رضی کی کزن اور انکی بڑی بیٹی کو گھر بلایا تھا۔ مہر چاہتی تھی کہ یہ بات عادل کو ایک دم پتا چلے تاکے وہ انکار ہی نہ کر پائے۔ اور عادل بچارا تو اس سب سے بے خبر اپنے ہی کاموں میں لگا تھا۔۔۔
"بس آنٹی اب یہی خواہش ہے کہ عادل کی شادی کروا دوں۔ تاکہ آرام سے میں بھی واپس جا سکوں۔ آپ تو جانتی ہیں نا کہ کسی اپنے کو یوں پرائے دیس میں اکیلا چھوڑنا کتنا مشکل ہے۔۔۔ اور ماں اور بہن ہونے کے ناطے ،عادی میری پہلی ذمہ داری ہے"
حرا اور عائشہ انکی دو بیٹیاں تھیں۔
" دانیہ نے مسکراتےہوئے کہا جو اب چائے کے بعد کافی بنا رہی تھی۔
"نہیں ۔۔۔۔ آپکے ساتھ جاوں گا" ارحم بھی اپنے نام کا ایک ہی تھا۔ ماہین ہنستے ہوئے اپنی اور رزاق کی چائے لیے باہر چلی گئیں۔
"اچھا جی اب کاکے نے کہانی سننی ہے" مینو تو اسے گدگدی کر رہی تھی۔۔۔۔
"ویسے دانیہ اس وقت کافی کس لیے؟"مینو، ارحم کو اٹھا کر شلیف پر بیٹھاتے بولی۔
"حانی کہہ کر گیا تھا۔۔۔۔۔۔ جناب کی پسند الگ ہی ہے۔۔۔" اب وہ کپ میں ڈالتے بولی۔
"ھاھا لگتا ہے حانی نے واقع آج پہرہ دینا" مینو بھی ہنس دی۔
"دانیہ آپی چلیں بھی" ارحم کی بے صبری دیکھ کر اب وہ دونوں ہنسی تھیں۔۔
"ھاھا اوکے۔ مینو تم ایسا کرو یہ کافی اوپر حانی کو دے آو۔ اب اگر میں نے اسے کہانی نہ سنائی تو یہ میرے کان کھا جائے گا" مگ مینو کو پکڑاتے اب وہ ارحم کو نیچے اتار چکی تھی۔۔۔
ھاھا گدھا" ماہین اسے ایک اور تکیے دیتے ہنس دیں جو بدلے میں انھیں آنکھ مار رہا تھا ۔
"اوئےےےے ظالمو۔ اگر بارش آگئی تو مجھے جگا دینا۔ یہ نہ ہو دائم صاحب صبح تک پانی میں بہہ گئے ہوں" اگلے ہی لمحے وہ ارحم کی گال کھینچتے بولا اور چادر منہ تک اوڑھ لی۔۔۔۔رزاق بھی اسکی بات پر ہنستے ہوئے لیٹ چکے تھے۔
"چلو ارحم تم بھی سو جاو بابا کے پاس جا کر۔۔۔ صبح کا میرا بچہ آج آوارہ ہوا ہے۔۔۔۔ چلو" ماہین کہ کہنے کی دیر تھی ارحم کچن کی طرف دوڑ گیا۔۔۔۔ ماہین بھی پیچھے چلی گئیں۔
◇◇◇
"ارحم" ماہین اسے آواز دے رہی تھیں۔
"دانیہ آپی نے کہا ہے وہ مجھے کہانی سنائیں گے۔۔۔۔۔ امی مجھے سننی ہے۔۔۔ پھر سو جاوں گا نا" ارحم کافی بناتی ہوئی دانیہ سے لپٹتے بولا تو ماہین اور مینو بھی ہنس دیں۔
"اچھا میرئ جان آپ بستر میں تو چلو۔۔۔۔۔ میں ابھی آتی ہوں"
یہ چادر ہے نا۔۔۔۔ دیکھائی نہیں دے رہی" نیلم نے باقاعدہ اسے شرارتی انداز اور پھر منہ کا پوز بنائے کہا تو وہ اسے زبان نکال چکا تھا۔۔۔ارحم بھی منہ پر ہاتھ دھرے ہنس دیا۔
"بندر" نیلم کی آواز بمشکل دائم نے ہی سنی۔۔۔ اسے تو سخت نیند آرہی تھی لہذا وہ اندر کمرے کی طرف بڑھ گئی۔
"اور تم میری بندریا" دائم نے سرگوشی کی اور اسے امید نہیں تھی کہ ماہین سن چکی ہوں گی۔۔۔۔ بچارا شرمندہ سا ہو گیا تھا۔۔۔
"وہ حانی صاحب کہاں سوئیں گے تو" دائم، ماہین سے آنکھ بچاتا چارپائی پر لیٹتے بولا۔ ماہین بھی ہنس دیں۔
"وہ اوپر سوئے گا" رزاق بھی اسکے ساتھ والی چارپائی پر بیٹھتے ہوئے مسکرائے۔
"ارےےےے واہ میرا شیر۔۔۔ چوکیداری کرے گا۔۔۔ چل دائم بچے۔۔۔ اب یہ ایڈونچر بھی دیکھ لے" دائم لیٹتے ہی چادر گردن تک تھان کر بولا تھا۔۔۔
مینال کچن میں آئی تو دانیہ چائے بنا رہی تھی۔۔ جبکہ باقی سب باہر صحن میں گپیں لگا رہے تھے۔ ارحم اور دائم کی مستیاں دیکھ کر اب رزاق ،ماہین اور نیلم بھی ہنس رہے تھے۔ جبکہ حانی فل حال کہیں دیکھائی نہیں دے رہا تھا۔
"بھئی یہ کیا میرا بستر باہر کیوں لگایا گیا ہے" رزاق دو عدد چارپائیاں اور بسترے لگا چکے تھے۔ اور اس بات پر دائم کا منہ بن چکا تھا۔
"اتنی اچھی اور پرفضا جگہ پر سونا بہت فائدہ مند ہوتا ہے" ماہین نے جیسے دونوں چارپائیوں پر تکیے رکھتے اطلاع دی۔۔
"اور ویسے بھی پھپھو۔۔۔ اسے ایڈونچر بہت پسند ہیں" دانیہ نے بھی کچن سے منہ نکالے ہنسی دبائے کہا۔۔۔سب ہی ہنس دیے۔
"ظالمو یہاں مچھر تو نہیں ہیں نا؟" اب تو وہ سر کھجائے بستر تک رسائی حاصل کرتا پوچھ رہا تھا۔
"نہیں نہیں۔۔۔ تمہارے ایریا کے مچھروں کو تمہارے اردگرد نہ بھٹکنے کی تاکید کی گئی ہے۔۔۔۔۔۔
کچھ نہیں ہوتا یار۔۔۔۔ ایسے منہ مت لٹکا۔۔۔۔ حانی کم تھا کہ اب تو بھی بچہ بن گیا ہے" اب تو وہ رضوان کے کندھے پر ہاتھ دھرتے بولے تھے مگر وہ اداس سے تھے۔
"ہم آپکے بچے ہی ہیں۔۔۔۔ آپکی تکلیف ہمیں ڈرا دیتی ہے"مہران کو اس پر بے حد پیار سا آیا۔
"چل اٹھ جا اب۔ زرا اخبار تو پکڑا۔۔۔۔۔" صبح آفس چلے جانے کی وجہ سے وہ اخبار نہیں پڑھ سکے تھے۔۔۔ دوسرا وہ رضوان کی اداسی کو ٹالنا چاہ رہے تھے۔
"جی نہیں۔۔۔ اخبار دوں تاکہ آپ اپنا بی پی بھی بڑھا لیں۔۔۔ نووو" رضوان نے گویا روٹھے انداز میں سامنے رکھا اخبار مزید دور پڑی ٹبیل پر رکھتے کہا۔
"ھاھا۔۔۔ چل یہ ریموٹ ہی پکڑا دے" اب تو رضوان نے باقاعدہ منہ پھلائے گھورا۔۔۔
"اوکے۔۔۔ لیکن نو نیوز۔۔۔۔ سمجھ گئے نا آپ۔۔۔ میں بس آرہا ہوں چینج کر کے" رضوان کے جاتے ہی وہ دلکش انداز میں مسکراتے ہوئے ٹی وی آن کر چکے تھے۔۔۔۔
◇◇◇
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain