Damadam.pk
anusinha's posts | Damadam

anusinha's posts:

anusinha
 

اور ہاں سبزیاں زیادہ ڈالنا اور نمک کم۔۔۔۔۔۔کیوں۔۔۔ٹھیک ہے نا؟" اب وہ مہران کو دیکھ کر بولے جو سوپ پر منہ بنا چکے تھے۔
"سچ پوچھو تو سوپ پر زرا دل راضی نہیں" اب تو رضوان بھی ہلکے مسکرا دیے۔
"اچھا ٹھیک ہے۔۔۔۔ ابھی ملک شیک پی لیں۔۔ سوپ بعد میں۔ جاو نادیہ" نادیہ تو اس چکر میں حبیبہ کے رشتہ لانے والی بات بتانا بھی بھول گئی تھیں۔۔۔ وہ فرمابرداری سے کچن میں چلی گئیں۔
"بھائی۔۔ پلیز اپنا خیال رکھا کریں۔خدانخواستہ آپکو کچھ ہوا تو ہمارا کیا ہوگا۔۔۔۔۔۔اللہ کے بعد آپ ہی ہم سب کے سر کا آسمان ہیں" اب تو رضوان انکا ہاتھ پکڑے افسردگی سے بولے تو وہ پھر سے مسکرا دیے۔۔۔۔ماں باپ کے بچپن میں ہی وفات پا جانے کی وجہ سے مہران نے رضوان اور ماہین کو بھی بلکل اپنے بچوں کی طرح پالا تھا۔۔۔۔۔ ویسے بھی اس گھر کا ہر فرد ہی مہران سے بے حد اٹیچ تھا۔

anusinha
 

ہے۔ کہہ رہے ہیں دل بلکل ٹھیک نہیں ہے۔۔۔ آپکو معمولی لگتا ہے بھائی؟ میری تو اس وقت کی جان اٹکی ہوئی ہے" اب تو رضوان باقاعدہ خفا ہوئے تھے۔
"دیکھ یار ایک دم فٹ ہوں۔۔ ان ڈاکٹرز کو تو پیسے بٹورنے کا بہانہ چاہیے بس" گویا اب بھی وہ خود کو بہتر شو کر رہے تھے۔
"نہیں بھائی صاحب۔۔۔۔ آپکو اپنا خیال رکھنا ہے۔۔۔ یوں لاپرواہی نہیں کرنی۔۔۔۔ حانی کو پتا چلا تو۔۔۔۔۔۔" نادیہ بھی افسردگی لیے تھیں۔
"ارے ان بچوں کو مت بتانا۔۔۔۔۔ انکے انجوائے کے دن ہیں۔۔۔ مت فکر کرو تم دونوں۔ میں اب بہتر ہوں" حانی کو بتانے کا مطلب تھا کہ اپنی شامت لے آنا۔۔۔ پچھلی بار بھی جب وہ دل کی تکلیف کی وجہ سے ہوسپٹل گئے تھے تو حانی کی حالت دیکھنے والی تھی۔۔۔۔ ایک مہران ہی تھے جنکی تکلیف وہ چاہ کر بھی برداشت نہیں کر پاتا تھا۔۔۔
"ہمممم۔۔۔ نادیہ تم اچھا سا سوپ بنا کر لاو۔۔۔

anusinha
 

اب تو دانیہ اٹھ چکی تھی اور دائم ارحم کا ہاتھ پکڑے بھاگ چکا تھا۔۔۔ وہ تینوں بھی ہنستے ہوئے پیچھے پیچھے ہو لیے۔۔۔ مینو تو ابھی تک تصویریں بنانے میں لگی تھی۔۔۔۔
◇◇◇
"آگئے آپ؟" نادیہ کافی دیر سے منتظر تھیں۔ آج رضوان اور مہران صاحب نے آنے میں کافی دیر لگا دی تھی۔۔
"کیا ہوا۔۔۔۔ سب خیر ہے۔ کافی دیر لگا دی۔ اور بھائی صاحب آپکو کیا ہوا؟" رضوان، مہران صاحب کو پکڑے اب صوفے پر بیٹھا چکے تھے جن کے چہرے پر ہلکی سئ مسکراہٹ تھی ۔ جبکہ رضوان ضرور سنجیدہ اور پریشان دیکھائی دے رہے تھے۔
"ہوسپل چلے گئے تھے۔۔۔۔ بھائی کو اچانک ہی گھبراہٹ اور ہارٹ پین سٹارٹ ہو گیا تھا" اب تو نادیہ بھی پریشان ہو چکی تھیں۔
"ارے یار کچھ نہیں ہوا۔۔۔۔ ٹھیک ہوں میں" وہ تو جیسے ایک دم نارمل انداز میں بولے تھے۔
"جی جی۔۔۔ نظر آرہا ہے۔۔۔۔ ڈاکٹر نے بائے پاس کا مشورہ دیا ہے۔

anusinha
 

ارحم ادھر آجاو۔۔۔ یہ تو آج تمہاری یہ چیکس اتار دے گا۔ آجاو" اب تو نیلم نے کہا تھا۔۔۔۔باقی سب مسکرا دیے۔
"ہاں ہاں۔۔۔ جاو جاو۔۔۔ تھکو پارٹی کے پاس" دائم نے منہ کا زاویہ بنائے دہائی دی۔
"دائم۔۔۔۔ تیرا کان کہاں ہے۔۔۔۔۔ ادھر میرے ہاتھ میں دے زرا" اب تو دانیہ نے بھی کہا جس پر وہ ہنسی دبائے مسکرا دیا۔
"جی وہ کرائے پے گیا ہے۔۔۔۔۔ اسکی گال چلے گی۔۔۔۔ ارحم یہ دے زرا" اب تو ارحم آگے تھا اور دائم پیچھے۔۔ جبکہ ارحم اب حانی کے پیچھے چھپ کر بچ چکا تھا۔۔۔۔۔ سب ہی ہنس دیے۔
"اچھا اچھا اب بس۔۔۔۔ چلو گھر چلیں" حانی نے ارحم کا ہاتھ پکڑے کہا۔۔۔۔۔ وہ تینوں تو ایسے بیٹھی ہوئی تھیں جیسے وہیں جم گئی ہوں۔۔۔۔
"ھاھا کرین لے آئیں انکے لیے" دائم نے کہا تو وہ تینوں اب آنکھیں نکالے اس پر حملے کو تیار تھیں۔۔۔۔
"تجھے ہی کرین کے نیچے دینا ہم نے۔۔۔۔ رک زرا"

anusinha
 

ارحم کی زبان سٹارٹ ہو چکی تھی۔ اور سب ہی ہنس دیے۔۔ وہ خود بھی شرارتی ہنسی لیے تھا۔
"بہت اچھا دادا جی" اب تو حانی نے بھی اسکی دونوں گالیں پکڑے بیٹھتے ہوئے کہا۔۔۔ مگر وہ ہنس دیا کیونکہ دائم کی طرح حانی نے زیادہ دبائی نہیں تھیں۔۔۔۔ حانی کے بیٹھنے کی دیر تھی کہ مینو، دانیہ اور نیلم بھی وہیں کھیت کے ساتھ بنی دیوار پر بیٹھ گئیں۔
"افففف میری تو ٹانگیں جواب دے گئیں" مینو نے تو باقاعدہ دہائی دی۔۔
"میری بھی" نیلم تو باقاعدہ ٹانگیں دبا رہی تھی۔
"ارحم یار۔۔۔ یہ لڑکیاں اتنی تھکو قسم کی ہیں قسم سے۔ یار اپنی اس گھولو صحت کا راز انھیں بھی بتا دے" اب تو دائم نے اسکی گلابی گال پورے زور سے کھینچی۔
"دائم۔۔۔ باز آ۔۔۔۔ یار سرخ لال کر دی ہیں تو نے اسکی گالیں" اب تو حانی نے باقاعدہ ارحم کو کھڑے ہو کر خود کی طرف کیا۔ دائم تو پھر سے اسکی طرف دانت نکالے ہوا تھا۔

anusinha
 

رزاق اسکے بعد انھیں ارحم کے ساتھ روانہ کیے خود وہیں ٹھہر گئے۔ ارحم کو گاوں کا چپا چپا بہت اچھے سے پتا تھا۔ اور بچارے کی پھولی ہوئی گالیں تو پورا راستہ بھی دائم کے ہاتھ میں رہی تھیں۔۔ آگے تینوں خواتین تھیں۔۔ ماہین رات کے کھانے کا انتظام کرنے گھر ہی رک گئی تھیں۔۔۔ مینو ، دانیہ اور نیلم ہر انوکھی اور پیاری چیز کو اپنے موبائیلز میں کیپچر کر رہی تھیں۔۔۔ اور بھاری سے قدم اٹھاتا حانی بھی انکے پیچھے پیچھے ہی چل رہا تھا۔۔۔۔۔
"تم اپنی اس بے بسی سے دستبردار ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتے حنوط مرتضی۔۔۔۔۔ اگر اب تم پیچھے ہٹے تو سب تباہ ہو جائے گا" وہ خود کو تنبیہ کرتا ہوا چل رہا تھا۔۔ آگے ان پانچوں نے شور مچا رکھا تھا۔ ارحم پیچھے بھاگ کر آیا تو جیسے حانی بھی اپنے خیالات جھٹک کر مسکرا دیا۔ دائم اسے مسلسل تنگ کر رہا تھا۔
"تو بچو کیسا لگا ہمارا گاوں"

anusinha
 

ہم باقاعدہ رسم کرنے آجائیں گے" تو گویا حبیبہ تو رسم تک کا سوچے بیٹھی تھیں۔۔۔
"ان شاء اللہ خیر ہوگی۔۔ میں آپکی بات سب تک پہنچا دوں گی آپا۔ امید تو ہے کہ کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا مگر پھر بھی بچوں کی زندگی کا فیصلہ انکی خوشی سے ہی ہو تو اچھا ہوتا ہے" نادیہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"بلکل نادیہ ایسا ہی ہے" حبیبہ کی خوشی دیدنی تھی۔
"رشتہ تو بہت اچھا ہے۔ اب ہوپ سو باقی سب بھی مان جائیں" چائے آچکی تھی۔۔۔نادیہ، حبیبہ کو سرو کرنے کے بعد سوچ رہی تھیں۔۔۔۔۔
◇◇◇
شام کو وہ سب گاوں گھومنے نکلے تھے۔۔۔ انکا چھوٹا پٹاکہ ارحم بھی ساتھ تھا۔۔ سب سے پہلے تو رزاق انکو اپنی زمینیں دیکھانے لے کر گئے۔۔۔۔ کئی اراضی پر پھیلی زمین دیکھ کر ساری بچہ پارٹی حیران تھی۔ ان میں کچھ کھیت تو باقاعدہ سبزیوں کے تھے۔

anusinha
 

مگر پھر انھیں لگا کہ صبح صبح جانا مناسب نہیں لہذا وہ دن کے بعد گئی تھیں۔۔۔ رضوان صاحب کے ساتھ آج مہران صاحب بھی آفس گئے تھے۔۔۔۔ صبح انھیں تھوڑی گھبراہٹ فیل ہو رہی تھی تبھی انہوں نے گھر سے باہر نکلنے کا ارادہ کیا تھا۔ صرف نادیہ ہی گھر میں موجود تھیں۔
"حبیبہ آپا۔۔ اس سب تکلف کی کیا ضرورت تھی۔۔۔۔ یہ تو بہت غلط کیا آپ نے۔۔۔۔۔ آئیے تشریف رکھیے۔۔۔ آذان بیٹا نہیں آیا؟ اسے بھی لے آتیں؟" نادیہ پہلے تو اتنے لوازمات پر خفا سی ہوئیں پھر انھیں بہت اپنائیت سے بیٹھا دیا۔۔۔۔۔
"اپنوں میں کیسا تکلف۔۔۔۔ کچھ غلط نہیں ہے۔ بھئی آج میں یہاں ایک خاص مقصد کے لیے آئی ہوں تبھی اسے ساتھ نہیں لائی۔ ان شاء اللہ اگر بات بن گئی تو اگلئ بار ہم دونوں ساتھ آئیں گے" حبیبہ اب اسے تجسس میں ڈالتے ہوئے مسکرائیں۔
"آہاں۔۔۔۔ ایسا ہے کیا۔ تو بتائیے پھر۔ دیر کیسی"

anusinha
 

حانی کو لگا اسکے سر میں ٹھیس سی اٹھ رہی ہے۔۔۔۔
"ٹھیک ہے۔ میری بات ہوگی تو میں تمہیں بتا دوں گا۔۔۔ بیسٹ آف لک" اب کی بار آذان مسکرایا تھا۔۔۔۔اور اللہ حافظ کہہ کر فون بند کر دیا۔۔۔۔ حانی کتنی ہی دیر ساکت چہرے سے فون کو دیکھتا رہا۔ اب کیا تھا۔۔۔۔۔۔ وہ کیوں اپنے آپ کو بے قابو ہوتا محسوس کر رہا تھا۔۔۔۔۔۔ جیسے آج اسکے سب اختیار چلے گئے تھے۔۔۔۔ ایک مدت سے وہ اس سفر میں تھا مگر اب اتنے عرصے بعد وہ پھر سے اپنے دل کی بغاوت محسوس کر رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ مینو کو لے کر وہ آج ایک بار پھر الجھ چکا تھا۔۔۔۔۔ اور اب شاید اسے اپنے یہ غلط جانب اٹھتے قدم روکنے کے لیے بہت سی محنت درکار تھی۔۔۔۔۔
◇◇◇
حبیبہ کی اچانک آمد خاصی خوشگوار اور حیران کن تھی کیونکہ وہ خالی ہاتھ نہیں آئی تھیں۔ مٹھائی، پھل وغیرہ کے ساتھ پوری تیاری کے ساتھ آئی تھیں۔ ارادہ تو انکا صبح کا تھا

anusinha
 

ماہین پھپھو کی طرف" حانی چہرے پر ہلکی پھلکی سنجیدگی لائے بتا رہا تھا۔۔۔
"اوہ اچھا۔۔۔۔زبردست۔۔۔ تو جناب دلہا صاحب سیر سپاٹے کر رہے ہیں" اب تو حانی کو بھی مسکرانا سا پڑا۔۔۔
"ہاں بس سب نے پلین بنا لیا ایک دم۔۔۔۔ ویسے بھی شادی سے پہلے سب کا دل تھا کہ کہیں گھوم آیا جائے" حانی بھی باہر صحن میں لگے درختوں کی طرف آگیا تھا۔۔۔ ماہین کے گھر کا صحن بے حد خوبصورت تھا۔ کئی طرح کے تو گلاب لگا رکھے تھے۔۔۔
"یہ تو اچھا ہے" آذان بھی مسکرایا۔
"ہاں۔۔۔ تم بتاو۔ کیا چل رہا ہے" حانی پھر سے سنجیدگی اوڑھ چکا تھا۔۔۔
"چلنا کیا ہے۔۔۔۔۔ یہی بتانے کے لیے کال کی تھی کہ بی جی تو میری سوچ سے بھی فاسٹ نکلیں۔ دراصل وہ آج حمدان حویلی جا رہی ہیں۔ میرے لیے مینال کا باقاعدہ رشتہ لینے۔۔۔۔ میں نے بہت روکا مگر وہ میری ایک بھی نہیں سن رہیں"

anusinha
 

"میں آتا ہوں" اسی لمحے حانی کا فون بجا تو وہ سننے باہر کی طرف نکل گیا۔۔۔
"دانیہ تم آتے ہی کام میں لگ گئی ہو۔ بھئی اب تم مہمان ہو۔۔ یہ رضیہ کر لے گی نا" ماہین نے کچن سے چائے لاتی دانیہ کو کہا تو وہ مسکرا دی۔۔۔ مینو نیلم اور دائم تو ارحم کے ساتھ گپوں میں لگ چکے تھے۔۔۔
"کوئی بات نہیں جناب۔۔۔۔ مہمان ہیں تو کیا ہوا۔۔۔ آپکے اپنے مہمان ہیں خیر ہے" دانیہ نے مسکراتے کہا تو ماہین بھی مسکرا دی۔
◇◇◇
"ارے جناب۔۔۔ اتنی دیر لگا دی فون اٹھانے میں" فون کان سے لگتے ہی آذان کی آواز آئی۔۔۔۔حانی کے چہرے پر اس بار وہ خوشی نہیں تھی جو ہونی چاہیے تھی۔ آذان اب اپنی گاڑی میں بیٹھ چکا تھا۔۔ تھری پیس پہنے، بالوں کا نفیس سا اسٹائیل بنائے اپنی نیلی آنکھیں پھیلائے وہ مسکرا کر مخاطب تھا۔
"ہاں دراصل فیملی میں بیٹھا ہوا تھا۔۔۔ ہم ابھی گاوں پہنچے ہیں۔

anusinha
 

"نہیں پھٹتا" ارحم بمشکل بولا کیونکہ دائم اسے مسلسل گدگدی کر رہا تھا۔
"ماشاء اللہ کہتے ہیں" نیلم نے باقاعدہ دائم کو گھورا۔
"ماشاء اللہ ۔۔۔ چشم بددددوور۔۔۔۔ نظر بددور۔۔۔ اور بھی کچھ رہ گیا ہو تو"اب تو حانی اور مینال کے ساتھ ساتھ ماہین اور دانیہ بھی ہنس دیں۔۔۔ رزاق تو پہلے ہی مسکرا کر یہ انجوائے کر رہے تھے۔
"ویسے میں نے تو چھوٹو سا دیکھا تھا۔۔۔۔ ارحم تم مما کے ساتھ کیوں نہیں آئے تھے" اب تو مینال بھی اسکی پیاری سئ گال پکڑے پوچھ رہی تھے۔
"میرے پیپرز تھے" دبی دبی آواز میں ارحم صاحب کا جوشیلہ جواب حاضر تھا۔۔
"چلو کوئی بات نہیں۔۔۔ اب یہ ہمارے ساتھ چلے گا۔ ٹھیک ہے نا ارحم" اب حانی نے کہا تو وہ دانت نکالے سر ہلا رہا تھا۔۔۔ دائم کا تو بس نہیں چل رہا تھا اسکی گالیں پکڑ کر اتار ہئ لیتا۔۔۔ سب ہی ہنس رہے تھے۔

anusinha
 

جبکہ دائم کی تو ہنسی کو بمشکل بریک لگی تھی
ماہین اور رزاق کو بہت منتوں اور مرادوں کے بعد ایک ہی اولاد ملی تھی۔۔۔ ارحم دس سال کا تھا۔۔ بہت ہی شرارتی اور پیارا سا گھولو مولو بچہ ۔۔۔۔ اسکی ایک عدد گال تو تب سے دائم کے ہاتھ میں تھی۔ ماہین اب ملازمہ کے ساتھ مل کر ناشتہ تیار کروا چکی تھی۔
"بھئی تم لوگوں کے آنے پر سب سے زیادہ خوش ارحم تھا۔ کل ہی اسے سکول سے چھٹیاں ہوئی ہیں" ماہین ساتھ ساتھ ملازمہ کو کہہ کر ناشتہ بھی لگوا رہی تھیں اور بتا بھی رہی تھیں۔
"پھپھو اسکو تو آپ نے جوان کر دیا۔کیوں رس گلے۔۔۔ کم کھایا کر ۔ لگتا ہے دیسی گھی اور مکھن خوراک ہے تیری۔۔۔۔۔ کیا روئی سی گالیں ہیں۔۔۔ پھٹ جائے گا ایک دن" دائم اور ارحم کی مستی اب نیلم ،حانی اور مینو بھی دیکھ کر ہنسے جبکہ دانیہ اب کچن میں ملازمہ کی مدد میں لگی تھی۔

anusinha
 

میرے خیال میں تو یہ بہت جلدی ہے۔۔۔ باقی آپ کو جو مناسب لگے" اب وہ اٹھتے ہوئے بولا تھا۔
"ٹھیک ہے۔۔۔۔ تو مجھ پے چھوڑ دے۔۔۔ جا تو خیر سے جہاں جا رہا تھا" اب تو بی جی بھی سنجیدہ ہوئیں۔
"ویسے بی جی۔۔۔ خواب والی بات کچھ ہضم نہیں ہوتی" جاتے جاتے وہ کچھ لمحے کو رکا۔۔۔
"ہوگی بھی نہیں" اب تو دونوں ہی کے چہرے پر خوشگوار سی مسکراہٹ ابھری تھی۔۔۔
◇◇◇
صبح کے آٹھ بجے وہ سب لوگ ماہین پھپھو کے گھر پہنچے تھے۔۔ راستے میں جو کچھ ہوا تھا اسے خود تک رکھنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔۔۔ کیوں کہ یہ وہی حساب تھا کہ بات نکلے گی تو دور تلک جائے گی۔۔
"کیسا رہا بچو تم سب کا سفر" رزاق بہت خوش مزاج انسان ہونے کے ساتھ ساتھ وہاں گاوں میں زمین دار کے عہدے پر فائز تھے۔
"جی اچھا تھا"بچے کیا بتاتے سفر کا۔۔۔ سب نے مسکین سی صورت بنائے ہنسی میں ٹال سا دیا۔۔۔۔

anusinha
 

وہ دراصل آج نا تیرے آبا میرے خواب میں آئے تھے۔ بولے کہ بیگم کیا بیٹے کو کنوارہ ہی رکھنا ہے۔۔۔۔ اب اگر نیک کام کا سوچ لیا ہے تو بسم اللہ بھی کردو" اب تو آذان ہنسے بنا نہ رہ سکا۔۔۔ حبیبہ بھی دبی مسکراہٹ لیے تھیں۔
"ھاھا۔۔۔ بی جی" وہ اب اپنی ہنسی کنٹرول نہیں کر پایا تھا۔۔۔
"اور کیا۔۔۔۔ اب تیرے ابا کی بات تو نہیں ٹال سکتی ناں۔۔ بس میں جا رہی ہوں آج۔۔۔۔ سب پکا کر کے ہی لوٹوں گی" آذان تو اپنی نیلی آنکھوں کے سنگ ہنستا ہوا انھیں بے حد پیارا لگ رہا تھا۔۔۔ اور وہ تو والدہ کے خطرناک ارادے جان کر ہنس رہا تھا۔
"بی جی۔ جس سپیڈ سے آپ چل رہی ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہیں کل ہی میری شادی نہ ہو جائے" اب تو وہ بھی آنکھوں میں شرارت لیے بولا تھا
"ہاں تو۔۔۔۔ میرے بس میں ہو تو میں ایک لمحہ بھی ضائع نہ کروں" وہ تو آج ہر صورت تیاری پکڑے ہوئی تھیں۔
"دیکھ لیں بی جی۔۔۔

anusinha
 

آذان صبح صبح ہی ریڈی ہو چکا تھا۔۔ آج اسے فائنل انٹرویو کے لیے جانا تھا۔ باہر آیا تو حبیبہ کو ایک دم تیار دیکھ کر حیران ہی تو رہ گیا۔ گرے کلر کا نہایت ہی نفیس سوٹ پہنے اور بہت خوبصورت سی سیاہ اور سرخ چادر اوڑھے۔۔۔ تیاری بتا رہی تھی کہ بڑا اہم معرکہ سر کرنے جا رہی ہیں۔
"آہاں۔۔۔۔ بی جی۔۔۔ یہ صبح صبح کس سفر کا ارادہ ہے" اب تو وہ کوٹ کے بٹن بند کرتا ہوا متجسس نظریں لیے انکے رو برو تھا۔
"کہیں کا نہیں" حبیبہ نے بڑے رازدارانہ انداز میں ہنسی دبائی۔
"اہممم اہممم۔۔۔ کوئی تو چکر ہے۔ بتائیے نا" وہ بھی انکے ساتھ بیٹھے اب بڑے تجسس سے مسکرا رہا تھا۔
"تیرا رشتہ لینے جا رہی ہوں" اب تو آذان تھا اور اسکا کھلا منہ۔۔۔
"کیا مطلب۔۔۔۔ ابھی سے۔۔۔ بی جی۔ آپکو کہا تو تھا کہ کچھ دن رک جائیں" اب تو وہ حبیبہ کی پھرتیوں پر واقعی حیران تھا۔

anusinha
 

حانی کا سارا دھیان مینو کی بازو کی طرف ہی تھا۔۔۔ نا چاہتے ہوئے بھی وہ افسوس میں تھا۔۔۔۔
"چلو اب چلتے ہیں۔۔۔ آگے ہی ڈر ڈر کر جان آدھی ہو گئی ہے" نیلم نے کہا تو دانیہ اور مینو بھی پیچھے جا کر بیٹھ گئیں۔۔۔ دائم نے بھی اپنی جگہ سنبھال لی۔ جبکہ حانی بھی ایک نظر ارد گرد ڈالتا ہوا گاڑی میں بیٹھ چکا تھا۔۔۔ سب کے منہ پر فل وقت بارہ بج رہے تھے۔۔۔۔
"گاوں کا راستہ شروع ہونے لگا ہے۔۔۔۔ یہ سیڈنس ختم کرو گائز" دائم نے ہی ماحول بہتر بنانے کے لیے کہا اور اب کی بار اس نے ایک ڈھنگ کا گانا چلایا تھا۔۔۔۔۔۔
"ہمیں تم سے پیار کتنا۔۔۔ یہ ہم نہیں جانتے
مگر جی نہیں سکتے، تمہارے بنااااااااااااااا" اب تو حانی نے اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا۔۔ اگلے ہی لمحے وہ ہنسی دبائے میوزک بند کر چکا تھا
◇◇◇

anusinha
 

جو اب نیلم کو ساتھ لگا چکا تھا۔۔۔۔جبکہ دائم تو ابھی بھی حانی کی کہنی لگنے پر بازو سہلا رہا تھا۔۔
"ٹھیک ہے سب۔۔۔۔ ریلکس ہو جاو۔" حانی نے جیسے تسلی دی۔ دیکھ وہ مینال کو رہا تھا جو دانیہ کے ساتھ لگی ہوئی تھی۔
"تم لوگ ان کھائیوں کی طرف گئے ہی کیوں تھے۔۔۔ اللہ نے بڑے نقصان سے بچایا ہے" اب وہ بچارے کیا بتاتے کہ مزاق گلے پڑنے والا تھا۔۔۔ یہ بھی راز رکھنا تھا کیونکہ پھر دونوں کی ہڈیاں انکے ہاتھوں میں لٹکتی دیکھائی دیتیں۔۔۔ دائم نے تو اب بمشکل ہنسی دبائی جیسے صرف حانی نے دیکھا۔۔۔۔ اور ایک دفعہ گھورنے پر ہی دائم ہنسی ضبط کر کے منہ پر مسکینی لانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔
"ہاں بس ہم راستہ دیکھنے گئے تھے تو گر گئے۔۔۔ لیکن کھائی اتنی گہری نہیں تھی اس لیے اپنی مدد آپ کرتے باہر آگئے" حانی نے بڑی مشکل سے جھوٹ بولتے کہا۔ اور وہ تینوں اسے سچ سمجھ چکی تھیں۔

anusinha
 

دونوں کو ہی اپنی حرکت پر بے حد افسوس تھا۔۔۔۔چھوٹا سا مزاق آج حنوط مرتضی کی زندگی چھین سکتا تھا۔ یہ تو اوپر والے کی مہربانی تھی کہ اس رب نے برے وقت سے بچا لیا تھا۔۔۔ دل تک اس رب کا شکر گزار ہوتا ہوا وہ سوچ رہا تھا۔
"چلو جلدی چلو پھر" حانی اب رسک نہیں لینا چاہتا تھا لہذا وہ مینو کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ چکا تھا۔۔۔۔ وہ لوگ جلد پہنچ گئے۔
"دانیہ" مینال تو دانیہ کو دیکھتے ہی اسکی طرف بھاگی۔
"حانی بھائی۔۔۔ ان سبکو پتا نہ چلے کہ یہ مزاق تھا۔ نہیں تو ہماری ہڈیاں ہمارے ہی ہاتھوں میں ہوں گی" دائم بھی پیچھے چلتا چلتا ساتھ آیا اور حانی کے کان میں مسکین آواز لیے بولا۔۔۔۔حانی نے فورا ایک کہنی دائم کو رسید کی جس پر وہ کراہ کر رہ گیا۔
◇◇◇
"اللہ کے شکر ہے۔۔۔ مینو۔۔۔۔حانی۔۔۔ تم دونوں ٹھیک ہو" دانیہ مینال کو خود سے لگائے ساتھ حانی کو بھی دیکھتے بولی

anusinha
 

حانی کے سلجھے بال یک دم بکھرے سے دیکھائی دے رہے تھے۔۔۔
"آپ نے یوں بچانا تھا تبھی۔۔ آہ" حانی کے بازو دبانے پر وہ کراہ چکی تھی۔۔۔ حانی نے ایک خفا نظر مینو کو دیکھا۔۔۔اور پھر ٹارچ سے اسکی بازو دیکھی جس پر حانی کی انگلیوں کے نشان برے طریقے سے ثبت ہو چکے تھے۔
"مجھے اس کے لیے معاف کرنا یار۔۔۔۔۔ میرے پاس اور کوئی چوائز نہیں تھی۔" حانی بے حد افسوس سے کہہ رہا تھا۔۔۔ دور سے کسی کے بھاگنے کی آواز آئی تو وہ دونوں اس طرف متوجہ ہوئے۔۔۔ دائم بھاگتا ہوا وہیں آرہا تھا۔۔۔ ان دونوں کو دیکھ کر جیسے اسکی اٹکی سانس پھر سے بحال ہوئی۔۔
"شکر ہے مل گئے ہو" دائم کی سانس باقاعدہ پھولی لگ رہی تھی۔
"وہ دونوں ٹھیک ہیں" حانی اور مینو بھی دائم کے ساتھ ساتھ چلنے لگے۔
"جی دانیہ آپی بے حال ہو چکی ہیں" دائم اور حانی نے ایک دوسرے سے نظریں ملائیں۔۔۔