دل تو یہی چاہا کہ کہہ دے کہ کچھ لمحے پہلے تک ٹھیک تھی یہ مینو۔۔۔۔۔۔ شاید وہ لمحہ اسے اپنی زندگی کا حاصل لگا۔۔ بازو میں اٹھنے والے درد نے جیسے مینال کی آنکھوں کا یہ ربط توڑا۔۔۔۔۔۔۔۔
"میں تو آج مر جاتی حانی۔۔۔۔۔ تھینک یو۔۔۔۔ میں ٹھیک ہوں" وہ پھر سے اسکے سینے سے لگ گئی۔
"اللہ کا شکر ہے کہ تم ٹھیک ہو۔۔۔ یہاں آو" ٹارچ بغل میں دبائے اب وہ اسے کھائی سے دوسری طرف لے جا رہا تھا۔۔۔
"میں نے تمہاری بازو بہت زور سے کھینچی۔۔۔ مجھے معاف کرنا۔ تکلیف تو نہیں ہو رہی" مینو نے ایک نظر حانی کا ہلکان چہرہ دیکھا جو اب اسکی بازو پکڑے فکر مندئ سے پوچھ رہا تھا۔
"نہیں ہو رہی" ہونے کے باوجود اس نے نہ ہی کہا۔۔
"تم یہاں کھائی کے اوپر کس لیے چڑھی۔۔۔ کوئی اتنا لاپرواہ کیسے ہو سکتا ہے۔" اب وہ اسے ڈانٹتا ہوا بے حد پیارا لگ رہا تھا۔۔۔
مینال" مینو کو یہی لگا کہ آج اسکا آخری دن ہے۔ مگر جیسے ہی اسکا پاوں پھسلا اسے لگا کسی نے اسکی وہی بازو پوری شدت سے باہر کھینچی ہے اور اگلے ہی لمحے وہ کسی پہاڑ سے جا ٹکرائی۔۔۔ کتنی ہی دیر حانی اسے خود میں سموئے خود کو اس حقیقت کا یقین دلاتا رہا کہ وہ ایک بڑے نقصان اور خسارے سے بچ گیا ہے۔ اگر ایک سیکنڈ کی بھی تاخیر ہوتی تو مینو آج اس گہری اندھیری کھائی میں ہوتی۔۔۔مینال کو لگا جیسے وہ کسی پرسکون اور دلکش سی پناہ میں قید ہو گئی ہے۔۔۔۔۔۔حنوط مرتضی اسے ایک پل میں موت کے سائے سے بچانے آپہنچا تھا۔۔۔۔۔کتنے ہی لمحے گزر گئے۔ پھر جیسے وہ خود میں واپس لوٹا اور اسے خود سے الگ کیے اسکا چہرہ تھام چکا تھا۔۔۔
"مینو۔۔۔۔ تم ٹھیک ہو؟" مینال نے ایک نظر اس زرد ہوتے چہرے پر ڈالی جو خوف سے بھیگ چکا تھا۔۔۔ ہاں۔۔۔ مینو کو کھونے کا خوف۔۔۔
دائم۔۔۔ خدا کے لیے ان دونوں کو ڈھونڈو۔۔۔۔ میرا سانس بند ہو جائے گا۔۔۔۔ یا اللہ ان دونوں کی خفاظت کریں" دائم کے چہرے پر وافع پریشانی تھی۔ اسے امید نہیں تھی کہ انکا یہ مزاق اتنا خوفناک انجام بھی لا سکتا ہے۔
"سنبھالیں خود کو دانیہ آپی۔۔۔۔ نیلم تم پکڑو۔۔ میں ڈھونڈتا ہوں" دائم بھی اب سر میں ہاتھ پھیرے ادھر ادھر دیکھ رہا تھا۔
"دائم کچھ بھی کر کے ان دونوں کو لے کر آو" نیلم اب دانیہ کو پکڑے تھی۔۔۔۔
"ٹھیک ہے۔۔۔اچھا تم لوگ گاڑی میں چلو۔۔۔۔ میں دیکھتا ہوں دونوں کو۔" دائم ان دونوں کو گاڑی تک چھوڑ کر واپس کھائیوں کی طرف چلا گیا۔۔۔
"آپی پانی پی لیں" نیلم خود روئے جا رہی تھی مگر دانیہ کا تو یوں لگ رہا تھا رنگ ہی زرد پڑھ گیا ہے۔۔۔۔وہ دونوں اسی جانب دیکھ رہئ تھیں جہاں دائم گیا تھا۔۔ دونوں کی ہی حالت غیر تھی۔
◇◇◇
نہ دانیہ نہ نیلم۔۔۔۔پیچھے ناختم ہونے والا اندھیرا۔۔۔۔ایک خوف اور ڈر مینال کے چہرے پر ابھرا۔۔۔۔ اور پھر کھائی کے قریب پڑے بڑے بڑے پتوں سے اچانک ہی اسکا پاوں پھسل گیا۔۔۔۔۔ زور دار چینخ ابھری۔۔۔۔۔
◇◇◇
"ک۔۔۔۔۔۔کون" کسی روشنی پر دانیہ اور نیلم ڈرتی ہوئی بولیں۔۔۔ مگر پھر جیسے انکی جان میں جان آئی۔۔۔۔ سامنے ٹارچ لہراتا ہوا دائم تھا۔۔۔۔۔
"گرلز۔۔۔ میں ہوں دائم"دائم نے دور سے ہی آواز لگائی تو جیسے ان دونوں کی جان میں جان آئی۔
"دائم۔۔۔۔ تم ٹھیک ہو۔۔۔۔ بھیا۔۔۔۔۔ بھیا کہاں ہیں" اگلے ہی لمحے نیلم کی بمشکل آواز نکلی۔۔۔ جبکہ دائم بھی اب پریشان تھا۔ کیونکہ حانی تو اس سے پہلے نکل چکا تھا۔۔۔ اور مینو بھی اسے دیکھائی نہیں دے رہی تھی۔
"بھائی ابھی تک پہنچے نہیں؟ یہ مینو کہاں ہے" نہ میں سر ہلاتی وہ دونوں ہی اب گر پڑنے والی تھیں۔
مینال نے موبائیل کی ٹارچ دوسری طرف کی تو سامنے بے شمار چھوٹی بڑی کھائیاں دیکھائی دیں۔۔۔۔ وہ تینوں اب اس طرف چل رہی تھیں۔
"چھوڑ مجھے دائم" اب تو حانی دائم کا ہاتھ زبردستی چھڑواتا ہوا ان تینوں کے پیچھے بھاگا تھا۔۔
"افف یہ جذباتی بندہ" دائم بھی منہ ٹیڑھا کیے پیچھے ہی چلا گیا۔
"دانیہ آپی مینال کہاں ہے" اگلے ہی لمحے دانیہ ساکت ہو چکی تھی۔۔۔۔ وہ دونوں ہی تھیں اور مینال انکے ساتھ کہیں آس پاس نہیں تھی۔۔۔۔دانیہ کو لگا کسی نے اسکے پیروں تلے سے زمین کھینچ لی ہو۔
"یا میرے خدا۔۔۔ اب یہ مینو کہاں گئی۔۔۔۔ اففففف مدد کیجئے"اب تو دانیہ کا بھی رونے کا دل کر رہا تھا۔۔۔چہرے کا پسینہ صاف کیے اب وہ مینو کو ادھر ادھر آوازیں دے رہی تھیں۔
"دائم۔۔۔۔۔ حانی۔۔۔ کہاں ہیں آپ" مینال ، کھائی کے کنارے پر کھڑی آواز دے رہی تھی۔۔۔ پیچھے دیکھا تو سکتے میں چلی گئی۔
بنے راستے کی طرف جا رہی تھیں۔
"بس اب دائم۔۔۔۔ تینوں کا منہ رونے والا ہو گیا ہے" حانی کو بھی اب فکرمندی سی ہوئی مگر اسکا بازو پکڑے دائم دوبارہ بیٹھا چکا تھا۔
"ابھی تو اصل مزہ آئے گا حانی بھائی۔۔۔۔ کام کرو تو پورا کرو۔"دائم تو ہلنے تک کو تیار نہ تھا۔۔۔۔ دوسری طرف وہ مزید آگے بڑھ رہی تھیں۔۔۔اب تو حانی پریشانی سے اٹھ کھڑا ہوا۔۔
"دائم اس طرف کھائیاں ہیں۔ چلو روکتے ہیں انھیں" اب تو حانی نے ہی دائم کو بازو سے گھسیتے ہوئے کہا۔
"تھوڑی دیر پلیز" اب تو حانی کا دل چاہا اکیلا ہی چلا جائے۔
"دائم۔۔۔۔ حانی۔۔۔۔۔ کہاں ہو تم دونوں۔ جہاں پے ہو پلیز ہمیں جواب دو" گلا پھاڑتی ہوئی دانیہ کی آواز آئی۔اب تو دانیہ کا بھی برا حال ہو رہا تھا۔۔۔ خدانخواستہ کچھ ہو نہ گیا ہو۔۔ دل میں یہی وسوسے آرہے تھے۔
"دانیہ آپی۔۔۔ وہ رہیں کھائیاں۔ وہ یقینا وہیں ہوں گے"
لیکن دوسری طرف ضرور سکتہ چھا گیا تھا۔
"کیا۔۔۔۔ تم لوگ کرنے کیا گئے تھے وہاں۔۔۔۔۔ ہلیو" اگلے ہی لمحے کال کٹ گئی۔۔۔۔ دانیہ کے چہرے پر یک دم پریشانی اور فکر ابھری۔
"یااللہ یہ کیا ہو گیا۔۔۔۔۔ وہ دونوں کسی کھائی میں گر گئے ہیں۔۔۔ ہمیں انکو ڈھونڈنا ہوگا۔۔۔۔ چلو" اب تو مینو اور نیلم کی شکل دیکھنے والی تھی۔۔۔ نیلم تو باقاعدہ رونے والی ہو چکی تھی۔
"دانیہ اب کیا ہوگا۔۔۔۔۔" مینو بھی گھبرائی سی بولی۔ وہ تینوں جیسے ہی باہر نکلیں، چیختے چیختے بچیں۔ کیونکہ درخت کی سوکھی اور لمبی ٹہنیاں باقاعدہ گلے میں پڑھ رہی تھیں۔۔۔تینوں کے چہروں پر موجود گھبراہٹ اور سناٹا ، دائم اور حانی ہنسی دبائے دیکھ رہے تھے۔۔
"دیکھو پریشان مت ہو تم دونوں۔۔ یہیں ہوں گے۔ ہم انھیں ڈھونڈ لیں گے۔" دانیہ مسلسل فون بھی ملائے جا رہی تھی۔۔ وہ تینوں اب گاڑی کی دوسری طرف
اور گاڑی کی ہیڈ لائٹس تھوڑی ڈم سی کیے باہر نکل آئے۔۔کیونکہ وہ اتنی روشنی چاہتے تھے جس میں وہ اور گاڑی انکو صاف دیکھائی دیتی رہے۔ وہ بہت عجیب سا پرانا اور بہت زیادہ رقبے پر پھیلا درخت تھا۔ جیسے کئی صدیوں سے یہیں کھڑا ہو۔ساتھ ہی گہری تو نہیں مگر کافی ساری کھائیاں بنی تھیں۔ ایک لمحے کو تو وہ دونوں بھی ٹھٹھک سے گئے۔ سڑک کی دوسری طرف چھوٹے چھوٹے درخت لگے تھے جس کے ساتھ ہی ہلکا پھلکا جنگلی راستہ بنا ہوا تھا۔۔۔۔۔ دونوں نے اچھی خاصی خوفناک جگہ تلاش کر لی تھی۔ اب دائم اور حانی، کیکر کے ایک بڑے سے درخت کے پاس جاکر بیٹھ چکے تھے۔ دونوں کی نظر گاڑی پر ہی تھی۔
"حانی بھائی۔۔۔۔ سٹارٹ کریں" گویا دائم صاحب، گرو جی کی اجازت کے طلب گار تھے۔۔۔ حانی کے ہنسنے کی دیر تھی کہ دائم فون پر کوئی کال ملانے لگ گیا۔
◇◇◇
۔ اسے کہتے ہیں رومانٹک" حانی کی بیچارگی پر اب دائم کا قہقہ نہ ابھرتا تو اسے بھلا چین کیونکر ملتا۔
"آپ کہیں تو جگا دیتا ہوں۔۔۔۔ اہمم اہممم۔۔۔۔"دائم نے اب آنکھ ماری تھی اور اسے پنچ پڑتے پڑتے بچا تھا۔۔۔ پھر بھی وہ ڈھیٹوں کی طرح دانت نکالے جا رہا تھا۔
"بھئی بھلائی کا تو زمانہ ہی نہیں رہا" دائم مسلسل ہنس رہا تھا مگر پتا نہیں حانی کو کیا خیال آیا کہ اسکا چہرہ شرارتی ہنسی سے بھر گیا۔
"دائم ویسے مجھے ایک آئیڈیا آرہا ہے۔۔۔۔ کیوں نہ ہم تینوں کو ڈرائیں" حانی کے دماغ میں اول تو ایسی الٹی شرارتیں آتی نہیں تھیں مگر آج وہ بھی مستی موڈ میں تھا۔ اور کچھ اثر دائم صاحب کی شرارتی طبعیت کا تھا۔ دائم کی تو آنکھیں ہی روشن ہو چکی تھیں۔
"وااااووو۔۔۔۔ تھرل بھی ہوگا۔۔۔ زبردست حانی بھائی۔ بڑا مزہ آئے گا سچی ان تینوں کو ڈرانے کا" دائم تو جیسے پہلے ہی
وہ فل وقت شہر کے ہی اختتامی ایریا میں تھے۔۔۔ یہاں کی سڑک کافی ہموار تھی اور کچھ دیر میں اکا دکا گاڑیاں بھی گزر رہی تھیں۔ دائم کو تو جیسے سنائی ہی نہیں دیا تھا۔۔۔ وہ تو مسلسل کسی اعلی پائے کے بے سرے سنگر کی طرح کچھ گنگنا رہا تھا۔ جبکہ پچھلی نشتوں پر تینوں شہزادیاں بڑے مزے سے آرام فرما رہی تھیں۔
"اوئے بے شرم۔۔۔ کان سے اتار یہ" حانی نے اب باقاعدہ اسکے دونوں کانوں سے کھینچ کر ہیڈ فون اتارے تو جیسے وہ نواب صاحب دنیا میں واپس آئے۔
"کیا ہو گیا جگر۔۔۔۔ اس قدر رومانٹک ماحول میں سفر۔۔۔ ھائےے اسے بکواس مت کہیے۔"دائم کی بات پر حانی نے ایک نظر پیچھے سوئی پڑی ان تین خواتین پر ڈالی اور ایک سامنے سنسان سڑک پر۔ دل تو اسکا یہی کیا تھا کہ دائم کو چلتی گاڑی سے دھکا دے دے۔ دائم نے بمشکل ہنسی روکی۔
"دل تو چاہ رہا ہاتھ کے بجائے سیدھا لاٹ سے تجھے دھکا دوں۔
انھیں واقعی اپنے تمام بچوں پر فخر تھا۔۔۔۔ اور یہی چیز انہوں نے اپنی تربیت میں بھی شامل کی تھی کہ ایک دوسرے کی خوشی کا خیال اولین ترجیح میں شامل ہونا چاہیے۔۔۔۔اور انھیں خوشی تھی کہ سب بچے انکی امیدوں سے بڑھ کر فرمابردار اور احساس رکھنے والے تھے۔
"چلیں۔ اب آپ آرام کیجئے۔ اور کتاب بند کر دیں۔" رضوان انکے ہاتھ سے کتاب اور انکے چہرے سے چشمہ اتارتے بولے تو وہ اس پر بھی مسکرا دیے۔
"ٹھیک ہے۔۔۔۔ شب بخیر" مہران صاحب کے دروازے کو بند کرتے ہوئے وہ باہر نکل آئے۔۔۔ کپ لیے اب وہ انھیں کچن میں رکھنے لے گئے۔۔۔۔
◇◇◇
"دائم۔۔ یہ رات کو تیرا نکلنے کا پلین نہایت بکواس ہے۔ دیکھ نہ بندہ نہ بندے کی ذات۔۔۔ اور خدانخواستہ کوئی مسئلہ ہو گیا تو تیری خیر نہیں پھر میرے ہاتھوں" وہ لوگ گاوں کی طرف روانہ تھے۔گاوں کا راستہ ابھی شروع نہیں ہوا تھا۔
اس بار تو ارحم کو بھی نہیں لائی تھی" ارحم ،ماہین کا اکلوتا اور ایک نمبر کا شرارتی بیٹا ہے۔۔۔۔ اسکے ذکر پر ہی رضوان مسکرا اٹھے۔
"ہاں بھئی وہ آفت کا سمندر ہمیں بھی بہت یاد آرہا ہے۔" مہران بھی اسے مس کرتے ہوئے بولے۔
"ھاھا بلکل سہئ کہا آپ نے بھائی۔ خیر سے اب کچھ دنوں تک گھر میں خوب چہل پہل رہنے والی ہے۔ میں تو بہت ایکسائٹڈ ہوں" رضوان کا تو بس نہیں چل رہا تھا کہ کب یہ دن گزرتے۔
"بلکل۔۔۔ بس اللہ ہر طرف خیر رکھے۔" مہران صاحب چائے پیتے ہوئے بولے تو رضوان بھی مسکرا دیے۔
"آمین۔۔۔ چلیں آپ نے دوا لے لی ہے کیا؟ آپکی طبعیت کا دانیہ حاض خیال رکھنے کا کہہ گئی ہے۔۔۔۔ لاپرواہی مت کیجئے گا" اب تو رضوان شرارت لیے انھیں کہہ رہے تھے۔
"ہاں بھئی کھا لی ہے۔۔۔ جیتی رہے۔ اللہ میرے تمام بچوں کو یونہی ایک دوسرے کا خیال رکھنے والا بنائے رکھے۔"
آج تک تمہارے ہاتھ کی چائے میں وہی دلکشی ہے" پہلے ہی سیپ پر وہ تعریف کیے بنا نہ رہ سکے۔ رضوان بھی خوش دلی سے مسکرا دیے۔
"بس جناب۔۔۔ یہ تو آپکا پیار ہے" وہ جیسے اپنی اس کوالٹی پر اترائے تھے۔۔۔ دونوں جانب خوبصورت سی مسکراہٹ ابھری۔
"بچہ پارٹی تو نکل چکی ہے سیر سپاٹوں پے۔ گھر تو ایک دم سونا سونا ہو گیا ہے۔واقعی کسی نے سچ کہا ہے کہ گھر کی رونق تو ان بچوں سے ہی ہے" رضوان صاحب کے اعتراف پر مہران بھی متفق نظر آرہے تھے۔
"بلکل۔۔۔ آجائیں گی یہ رونقیں واپس۔۔۔ بس اس رب سے یہی دعا ہے کہ میرے اس گھر کی یہ خوشیاں یونہی قائم رہیں" دعا گو ہوتے ہوئے مہران صاحب بولے تھے۔
"آمین ثم آمین۔۔۔میں نے تو حانی کو تاکید کی تھی کہ آتے ہوئے ماہین کو ساتھ ہی لے آئے۔ اب تو ویسے بھی شادی کو چند ہی دن باقی رہ گئے ہیں۔ وہ آجاتی ہے تو حمدان حویلی میں جان آجاتی ہے۔
دائم نے کمال شرمیلے انداز میں کہا تو اگلے ہی لمحے وہاں ہنسی پھیل گئی تھی۔
"ھاھا۔۔۔۔ اسکا بندوبست کرواتے ہیں۔۔۔ بہت بگھڑ گیا ہے" اب تو دانیہ نے باقاعدہ اسکا کان پکڑے بولا تو وہ بھی ڈھیٹوں کی طرح ہنس دیا۔۔۔۔۔۔ اسے تو چاہیے ہی یہی تھا کہ اسکا بندوبست ہو جائے بس۔۔۔ نیلم بھی دانت نکالے ہنس دی۔۔۔
◇◇◇
"آجاو بھئی رضوان۔۔" مہران کتاب پڑھتے ہوئے سیدھے ہوئے۔ رضوان اپنے اور انکے لیے خود ہی چائے بنا کر لائے تھے.
"آپ ابھی تک جاگ رہے ہیں۔ میں اپنے لیے چائے بنانے گیا تھا تو سوچا آپکے لیے بھی بنا لوں" رضوان بلیک ٹی شرٹ اور براون ٹراوزر میں جنٹل مین ہی لگ رہے تھے۔ جبکہ مہران اس وقت زیادہ تر کرتے اور شلوار میں ہی ملبوس ہوتے تھے۔
"سچ پوچھو تو چائے کی بہت طلب ہو رہی تھی" چائے کا کپ لیے وہ دھیمے سے مسکرا دیے۔
"آہاں۔۔۔۔ بہت خوب ۔
"وہ مما جانو۔۔۔۔ دراصل ہمارا آتے اور جاتے ہوئے پکنگ کا پلین بھی ہے۔۔۔۔ آپ تو جانتی ہیں نا ہم کبھی بھی کہیں سیدھے ڈائریکٹ نہیں گئے" پھر سے دائم کو لاڈ کا دوڑا پڑا تو سب ہی ہنس دیے۔
"ھاھا اچھا اچھا جاو موجیں کرو۔۔۔۔ حانی ان سب کا خیال رکھنا۔ اور ہاں کوئی الٹی سیدھی مستی نہیں" اب تو نادیہ ان سب کو ہدایت دے رہی تھیں جبکہ رضوان اور مہران بھی مسکراتے ہوئے یہ لمحے انجوائے کر رہے تھے۔۔
"جی جو حکم" حانی بھی مسکراتے بولا۔۔۔ وہ سب لوگ گاڑی تک آ چکے تھے۔
"خوب مزہ آئے گا۔۔۔۔ بیچلرز ہونے کے ناطے یہ آپ دونوں کا آخری ٹرپ ہوگا" وہ حانی اور دانیہ سے بولی تھی۔مینال کی پرجوشی دیکھ کر وہ چاروں مسکرا دیے تھے۔
"دیکھو مینو۔۔۔۔ ایسا نہیں کہتے۔۔۔ یہ بھی ممکن ہے کہ میرا بھی ایز آ کنوارہ یہ آخری ہی ٹرپ ہو"
مجھ سے آٹھ نو سال تو بڑے ہیں نا۔ ھائےےےے حانی بھائی تسی انے پرانے او" دائم اب حانی کی گرفت میں تھا۔۔۔۔۔
"ھاھا گدھے۔۔۔ مرد کبھی اولڈ نہیں ہوتا۔۔۔ ابھی تو کچھ دن پہلے ہی تھرٹی پلس ہوا ہوں یار۔۔۔ اتنا بھی اولڈ نہیں" اب تو دائم صاحب ہنستے ہوئے لیپ ٹاپ پیک کر رہے تھے۔
"ھاھا چک کے رکھو۔۔۔۔۔ " وہ دانت نکالے اٹھ کھڑا ہوا تھا۔
"کدھر" حانئ نے پوچھا۔
"جناب من۔۔۔۔ شام ہونے والی ہے۔ اور جیسا کہ آپکو پتا ہے عین وقت پر اپنے سارے کام کرنے والے دائم صاحب ہیں اور انہوں نے ابھی اپنا سامان بھی پیک کرنا ہے۔" دائم کی بات پر وہ بھی اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔ سب نے ہی شام تک اپنی تیاری مکمل کر لی تھی۔۔۔
"بھئی بچو۔ کیا تم لوگ سال کے لیے جا رہے ہو۔۔ یہ بیگوں میں کونسے پتھر بھر رکھے" اب تو نادیہ ہنستی ہوئی انکے سوٹ کیس اور کندھے پر ڈالے بیگوں کی جانب اشارہ کر رہی تھیں۔
شام تک ان سب کا پلین گاوں کے لیے نکلنے کا تھا۔۔۔ وہ سب ایک ہفتہ ماہین کے پاس رہنے جا رہے تھے۔ آج حانی نے بھی آفس سے چھٹی کی تھی جبکہ نیلم اور دائم بھی گھر ہی تھے۔
"نہیں یار۔۔۔۔ یہ ڈیزائن تو بہت اولڈ فیشن ہے۔۔۔ کچھ نیا اور فریش سا ہو" حانی اور دائم اب لیپ ٹاپ پر دیکوریشن دیکھ رہے تھے۔۔ حانی کی بات پر دائم کے دانت باہر نکل آئے
"ھائےےے آپ اب اولڈ ہیں جناب۔ ویسے کیا عمر ہو گئی آپکی حانی بھائی۔۔۔۔؟" اب تو دائم شرارتی انداز میں بولا تو وہ بھی مسکرا دیا۔
"تجھے بتاوں۔ تاکے تو اخبار میں دے آئے" اب تو دائم کی ہنسی پھوٹی تھی۔ حانی بھی تو لڑکیوں کی طرح عمر چھپانے پر تلا تھا۔
"ھاھا توبہ توبہ۔۔۔۔۔۔ مطلب چالیس پار کر گئے ہیں آپ" اب تو حانی بھی ہنس دیا۔
"جی نہیں۔۔۔۔ ابھی تو ہم جوان ہیں" حانی بھی مزے سے بولا تھا۔
"مطلب میں ہوا چوبیس کا۔۔
تم چلی جاو بے فکر ہو کر" عادی اسے اب سچ میں لاجواب کر چکا تھا۔ مہر نے ایک بے بس اور اداس سی نظر اس پر ڈالی۔
"ٹھیک ہے شادی کر لو پھر" عادی کو مہر سے اسی بات کی توقع تھی۔ کیونکہ یہ پہلی بار نہیں ہوا تھا۔
"افففف۔۔۔۔۔ ایک تو یہ شادی میرے پیچھے ہی پڑھ گئی ہے۔ گو شادی نہ ہو گئی۔۔۔ حفاظتی کوور ہو گیا۔۔۔۔پلیز مہر اس ٹاپک کو اب بند کر دو۔۔۔۔تم کیا سمجھتی ہو سب کچھ شادی ہی ہے" اب تو وہ بھی خفا سا تھا۔
"میرا اطمینان اور تسلی سمجھ لو عادی" وہ جیسے تھک سی گئی۔
"تم مطمئین ہو کر چلی جاو۔۔۔ میں فل حال ایسے ہی ٹھیک ہوں" اب وہ وہاں سے کہہ کر اٹھ گیا تھا اور مہر نے اپنا سر پکڑ لیا۔
"کیا کروں میں اس ضدی لڑکے کا۔ یا اللہ مدد کریں" بچاری فکر میں ہلکان تھی۔۔ دعا کے سوا کیا کر سکتی تھی۔
◇◇◇
تم میری پہلی ذمہ داری ہو عادی" اب تو اسے مہر پر یک دم پیار سا آیا۔
"اتنا پیار مت کرو مہر۔ کہ تمہارے بنا رہ نہ سکوں" تو گویا عادی صاحب بات کو ہر ممکن کوشش کر کے ٹالنا چاہتے تھے۔
"بس یہی۔۔۔ بات کو ٹالنا تو کوئی تم سے سیکھے۔۔۔ مجھے نہیں پتا۔ تم باس سے بات کرو نہیں تو رئزائن کر دو۔ تمہارے لیے پاکستان میں نوکریوں کی کمی نہیں ہے" اب تو مہر جذباتی ہو رہی تھی۔
"آٹھ سال۔۔۔۔آٹھ سنہرے سال دیے ہیں میں نے اس کمپنی کو۔اور اتنے عرصے میں ایک بے ہنر انسان بھی اعلی پائے کا کاریگر بن جاتا ہے مہر۔ میرے یہاں سے جانے کی صرف ایک سبیل ہے کہ اگر وہ میرا ٹرانسفر اپنی ہی پاکستانی کمپنی میں کر دیں۔ کیونکہ دس سال کا کانٹریکٹ سائن ہو چکا ہے۔۔۔۔ ایسی صورت میں یہاں سے جانے کا مطلب یہی ہے کہ میں اپنی آٹھ سالہ محنت خاک کر دوں۔ میں کوشش کر رہا ہوں۔۔۔ جلد آجاوں گا۔۔۔۔
"پتا نہیں یہ مسئلہ کب حل ہوگا۔ دراصل رضی کے پاپا چاہتے ہیں کہ رضی اب انکی پاکستان کی جائیداد اور بزنس سنبھال لیں۔ جسکی وجہ سے وہ مزید یہاں نہیں رک سکتے۔" مہر نے بھی سنجیدگی سے بتایا۔
"تو اچھا ہے نا۔ تم بھی چلی جانا۔ میرے لیے یہاں رکنے کی مزید ضرورت نہیں" اب کی بار عادی نارمل سے انداز میں مسکرایا۔
"کیسے چلی جاوں۔ تمہیں یہاں اس اجنبی ملک میں اکیلا چھوڑ کر" مہر تو جیسے خفا ہو کر بولی تھی۔
"تم تو ایسے کہہ رہی ہو جیسے میں ایک چھوٹا سا بچہ ہوں اور اپنا خیال نہیں رکھ سکتا۔ تم چلی جاو مہر۔ تمہاری فیملی ہے وہاں۔ میرے لیے یہاں مزید بندھنے کی ضرورت نہیں۔" عادل نے جیسے سمجھانا چاہا۔
"ہمم بلکل نہیں۔ نہ تو تم شادی کرتے ہو نا ہی پاکستان جانے کا تمہارا کوئی وسیلہ بن رہا۔۔۔۔ اس غیر دنیا میں تمہیں اکیلا نہیں چھوڑ سکتی۔۔۔ جو بھی ہے،
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain