Damadam.pk
anusinha's posts | Damadam

anusinha's posts:

anusinha
 

ایک آخری بار وہ مینو کی جانب دیکھتا ہوا اپنا شاپنگ بیگ لیے باہر نکل گیا۔۔
"کافی اچھے ہیں آذان بھائی۔۔۔ پولائٹ سے۔" اب تو نیلم بولی تھی۔ اور دانیہ تو بلکل متفق لگ رہی تھی۔
"تم کو کیسے لگے مینو۔۔۔۔۔ ہنسی تو لگتا کسی نے ادھار لے لی تم سے" اب تو دانیہ بھی ہنسی دبائے تھی۔۔۔۔
"ھاھا۔۔۔۔ایسا نہیں ہے۔۔۔ دراصل ایک میان میں دو نیلی آنکھوں والے نہیں رہ سکتے۔۔۔۔" نیلم کی عجیب ہی منتق پر اب دانیہ کے ساتھ ساتھ مینو بھی بے ساختہ ہنس دی۔
◇◇◇
"تم نے باس سے بات کی؟" مہر کافی کا مگ لیے اسکے روم میں آئی تو وہ لیپ ٹاپ کھولے کام کر رہا تھا۔ چہرے پر ازل کا سنجیدہ پن تھا۔ مہر بھی ساتھ ہی بیٹھ گئی
"پچھلے تین سال سے یہی ایپلیکیشن کئی ہزار بار دے چکا ہوں۔ پر کوئی عمل درآمد ہوتا دیکھائی نہیں دے رہا" وہ سنجیدگی سے کافی کا مگ لیتے بولا۔

anusinha
 

ارے آذان بھائی" دانیہ نے فورا کہا۔
"جی۔۔۔ اسلام و علیکم لیڈیز" آذان بھی دھیمی سی مسکراہٹ لیے بولا۔
"وعلیکم السلام ۔۔کیسے ہیں آپ؟" دانیہ مسکراتے ہوئے پوچھ رہی تھی مگر آج پھر ایک بار مینو اسکی آنکھیں دیکھ کر سنجیدہ تھی۔۔۔ ناجانے کیا تھا ان آنکھوں میں۔۔
"میں فٹ فاٹ۔۔ لگتا ہے شادی کی تیاریاں اپنے عروج پر چل رہی ہیں۔ چلیں جی کیری آن۔۔۔۔ آپ دونوں کیسی ہیں؟" وہ مسکراتا ہوا اب کچھ سنجیدہ ہوا۔ نیلم نے تو مسکرا کر سر ہلا دیا جبکہ مینو لیے دیے انداز میں بس سر ہلاتے ہوئے جان چھڑوا چکی تھی۔ یہ بندہ اسے آج بھی پراسرار سا لگ رہا تھا۔ اوپر سے اسے الجھن میں ڈالتی اسکی وہ آنکھیں۔۔۔
"جی یہ تیاریاں تو اب چلتی رہیں گی" دانیہ بھی مسکرا دی۔
"یہ تو ٹھیک کہا آپ نے بھابھی۔۔۔چلیں جی پھر آپ تینوں جاری رکھیے۔ ان شاء اللہ پھر ملاقات ہوگی"

anusinha
 

واووووو۔۔۔۔ یعنی آپ میری پسند کا ڈریس لیں گی۔ تھینک یو دانیہ" وہ تو اسکے ساتھ لپٹ چکی تھی۔
"اگر ایسی بات ہے بھئی تو یہ سامنے والا کیسا ہے" نیلم اور مینو دونوں کی نظریں ایک ہی لہنگے پر تھیں۔۔۔ دانیہ بھی مسکرا رہی تھی۔
"پرفیکٹ" دانیہ اور مینو نے ایک ساتھ آواز بلند کی اور اگلے ہی لمحے وہ تینوں مسکرا دیں۔
"ھاھا ٹھیک ہے۔۔۔۔ کر دیتے ہیں اسکو فائنل۔ لینے ہم حانی بھائی کو بھیج دیں گے" نیلم نے گویا مسئلہ ہی حل کر دیا تھا۔۔
"یہ بلیک شرٹ پیک کر دیں" انکے ساتھ ہی کسی مردانہ آواز میں کوئی ریسیپسن پر کھڑا بولا تھا۔۔۔۔ فل بلیک میں وہ کوئی اور نہیں آذان ہی تھا۔۔۔۔دانیہ تو فورا پہچان گئی تھی۔۔۔۔ اپنی نیلی سحر زدہ آنکھوں سے گلاسز اتارتا ہوا وہ بھی مسکرا کر ان تینوں کی سمت متوجہ ہوا۔۔۔۔ نظر ایک بل کو اس پری روح تک پہنچی۔۔

anusinha
 

مگر انھیں آج کھانے میں کھیر بنانی تھی۔۔۔ کیونکہ آج کافی ٹائم بعد مہران صاحب نے کھیر کی فرمائش کی تھی۔ آج ان تینوں کا ارادہ مایوں کے لیے شاپنگ کا تھا۔ ساتھ میں جیولری بھی دیکھنی تھی اور کچھ سوٹ دردزی کو بھی دے کر آنے تھے۔ تاکہ شادی تک تمام سوٹ بھی سل جائیں۔
"ویسے دانیہ۔۔۔ کیا خیال ہے آج ہم آپکی شادی کا ڈریس بھی سیلکٹ کر لیں" وہ تینوں اب شاپ میں انٹر ہو رہی تھیں۔۔ مینو کی نظر سامنے بہت خوبصورت سے لہنگے پر گئی تو اسے یونہی خیال آگیا۔
"مینو۔۔۔ وہ تو حانی بھائی پسند کریں گے نا" نیلم بھی سامنے لگا لہنگا ستائشی نظروں سے دیکھتے بولی تو وہ دونوں مسکرا دیں۔
"کوئی نہیں۔۔۔۔۔ کچھ تو ہمیں بھی کرنے دیں نا۔" اب وہ اداسی لیے تھی۔۔
"ٹھیک ہے میری جان۔۔۔۔ تم سیلکٹ کرو یا حانی، ایک ہی بات ہے" دانیہ نے تو اسکا دل ہی خوش کر دیا تھا۔

anusinha
 

دائم منہ ٹیڑھا کیے روٹھے پن میں بولا۔۔۔
"میں بھی کہوں یہ تم لوگوں کا کام لگ ہی نہیں رہا۔۔۔۔ ھاھا مزاق تھا۔۔۔۔۔ بھئی تالیاں بنتی ہیں ان کے کارنامے پر" اگلے ہی لمحے سب کے چہروں پر ہنسی اور مسکراہٹ تھی۔
◇◇◇
دانیہ نے شادی تک آفس کو خیر آباد کہہ دیا تھا۔ کیونکہ نادیہ اور ماہین کہ مطابق اب اسے یہ دن گھر رہنا چاہیے ورنہ شادی پر اسے روپ نہیں آنے والا تھا۔۔۔۔ وہ انکی اس بات پر مسکرائی ضرور تھی مگر پھر مان گئی۔۔۔۔ یہ دن ویسے بھی اسکے لیے بے حد خاص تھے۔ گھر کے تمام افراد ہی آہستہ آہستہ اب تیاری میں مصروف ہو رہے تھے۔ شادی نزدیک تھی اور کام اتنے تھے کہ سب ہی فکر مند تھے کہ آخر کیسے ہوں گے۔۔۔۔ شاپنگ کے کام میں اب مینو نے بھی ساتھ دینے کا سوچ لیا تھا۔ وہ نیلم اور دانیہ کے ساتھ آج بھی شاپنگ پر نکل آئی تھی۔ نادیہ کا بھی ساتھ جانے کا پلین تھا

anusinha
 

شکریہ شکریہ۔۔۔۔۔۔ گو آپکی تعریف بھی تعریف نہ تھی پر خیر" دائم کی شرارتی انداز میں کہی بات پر سب ہی دانت نکال چکے تھے۔
" یہ ناشتے کی ذمہ داری انہی تینوں کو ہی کیوں نہ دے دی جائے" مہران صاحب بھی مسکراتے ہوئے گویا ہوئے تھے
"تایاجان ہم ہیں لیجنڈز۔۔۔۔ اور جو لیجنڈ ہوتے ہیں وہ ایسے انوکھے کام کبھی کبھی کرتے ہیں۔۔ اب ان شاء اللہ دس سال بعد" دائم کی بات پر مہران صاحب بھی ہنس دیے۔۔۔ اب تو حانی بھی امیپریس دیکھائی دے رہا تھا۔۔۔ ماہین کل واپس چلی گئی تھیں۔ اور جاتے ہوئے ان سب بچوں کو گاوں آنے کی تاکید بھی کر گئی تھیں۔
"یقین تو نہیں آرہا کہ ناشتہ واقعی تم تینوں نے بنایا ہے مگر چلو پھر بھی گڈ جاب" اب تو وہ تینوں ہی حانی کی کنجوسی پر منہ بنا چکے تھے۔
"جی ہم نے نہیں بنایا۔۔۔۔ ہم میں جن آگئے تھے"

anusinha
 

۔" دانیہ نے ایک بار پھر میدے اور آٹے میں آٹے کچن اور ان تینوں کو دیکھ کر ہنسی دبائی۔
"دانیہ آپی۔ دیکھیں ہم نے پراٹھے بھی بنا لیے۔ کیک اوون میں ہے۔ چائے اور انڈے بنا دیے ہیں۔ اور بریڈ،مکھن جیم اور جوس باہر میز پر لگ چکا ہے۔۔۔ اور ویسے بھی اچھے کاموں میں ایسا چھوٹا موٹا نقصان تو ہو ہی جاتا ہے"نیلم نے کہا تو اب تو دانیہ واقعی امپریس ہوئی تھی۔
"ارے واہ۔۔۔۔ چلو میں بھی ہلیپ کرواتی۔۔۔ میں یہ باقی چیزیں رکھ دیتی۔۔۔ آو مینو" دانیہ واقعی حیران تھی کیونکہ انہوں نے مزاق مزاق میں سارا ناشتہ بنا لیا تھا۔۔۔ اور سب چیزیں ایک دم کمال بنی تھیں۔
"ارے واہ۔۔۔۔ آج تو مزہ آگیا۔۔۔ گو پراٹھے نہایت بے ڈھنگے سہی پر اف کیا ذائقہ ہے" رضوان صاحب تو دوسرا پراٹھا بھی کھاتے ہوئے بولے۔۔۔۔ سائز بھی دائم نے عام پراٹھے سے ہاف رکھا تھا۔۔۔۔داد تو بنتی تھی۔

anusinha
 

تمہاری وہاں نہیں، یہاں زیادہ ضرورت ہے ہمیں۔۔۔ باقی تمہارا فیملی ایشو میں جانتا ہوں۔۔۔۔۔ شادی کیوں نہیں کر لیتے تم۔ دیکھو یار ہم پر کچھ ترس کھاو۔۔۔ ہم تمہارا جانا افورڈ نہیں کر سکتے" دوسری طرف سے تو صاف نا ہی تھی۔۔۔۔۔ باس اب خودغرضی کی انتہا پر تھا۔ اور شادی والے مشورے پر تو عادی خطرناک حد تک سنجیدہ ہوا تھا۔
"ہممم" مایوسی انتہا کی لیے وہ ایک سرد آہ بھر چکا تھا
"ہم جلد تمہاری ایپلیکیشن پر غور کریں گے۔ تب تک پلیز تم جانے کا مت سوچنا۔۔۔۔۔اور یونہی اپنا بیسٹ دیتے رہو" اب تو عادی کو اس کمپنی کے ساتھ کانٹریکٹ کرنے پر صرف افسوس تھا۔ ایک طرح سے وہ خود بھی بندھ چکا تھا اور مہر کو بھی باندھ چکا تھا۔ جسکا حل صرف اسکی شادی تھا۔۔۔۔۔۔۔بقول مہر کے۔۔۔۔
"چلو مجھے ایک ضروری کام کے لیے نکلنا ہے۔ پھر ملتے" باس کے جاتے ہی وہ بھی اپنے آفس میں آچکا تھا۔

anusinha
 

تھا کہ وہ بھی مہر کے ساتھ پاکستان چلا جائے تاکہ مہر اپنے سسرال کی ذمہ داری بھی نبھائے۔۔۔۔۔ یہاں کے آفس میں اسکا جوئیر باس ایک پاکستانی تھا جسے عادل کئی بار اپنی بات بتا چکا تھا۔۔۔۔
" دیکھو عادل۔ تم پہلے بھی کئی بار یہ ایپلیکیشن دے چکے ہو۔ بٹ یہ ابھی ناممکن ہے" وہ باس کے آفس میں تھا۔ بھورے گندمی رنگ والا یہ میانہ قد آدمی ایک پاکستانی تھا۔
"آپ کے لیے ناممکن کچھ نہیں ہے۔ میں بس یہ چاہتا ہوں کہ اگر آپ میرا ریزائن اپرووو نہیں کرنا چاہتے تو میری پوسٹنگ پاکستان والے آفس کر دیں۔ کچھ فیملی ایشو ہے جسکی وجہ سے میرا یہاں مزید رہنا ممکن نہیں" عادی نے جیسے اپنی بات دہرائی تھی۔
"وہ تو ٹھیک ہے عادل۔ بٹ یو نو کہ ہماری پاکستان والی برانچ فل حال ٹاپ پر جا رہی ہے۔۔۔۔ یہاں کی حالت تم جانتے ہو۔ تم ہی واحد ہو جسکی وجہ سے یہاں کا بزنس چل رہا ہے۔۔۔۔

anusinha
 

عادل سنگاپور سے واپس آچکا تھا مگر واپس آنے کے باوجود اسکی مصروفیات کم نہیں ہو رہی تھیں۔ ایک تو وہ خود بھی مصروفیت پسند تھا دوسرا کام کے معاملے میں وہ ہمیشہ سے اپنا بیسٹ دیتا تھا۔۔۔۔۔۔ مہر کی شادی پاکستان میں ہوئی تھی مگر وہ عادی کی وجہ سے اپنا گھر چھوڑ کر یہاں موجود تھی۔۔۔۔ اس پرائے دیس میں وہ عادی کو اکیلا چھوڑنا نہیں چاہتی تھی۔ اور اس معاملے میں اسکے شوہر بہت کاپریٹیو تھے۔ مہر اب عادی کی شادی کروا کے اپنے گھر واپس جانا چاہتی تھی۔۔ مگر عادل صاحب کو شادی کے لیے منانا اس دنیا کا مشکل ترین کام تھا۔ خود عادی، مہر کا یوں اپنے گھر بار کو چھوڑ کر اسکے لیے یہاں موجود ہونا اب نہیں چاہتا تھا۔۔۔ تبھی وہ اپنے آفس سے گاہے بگاہے پاکستان والے آفس ٹرانسفر کی ریکویسٹ کرتا رہتا تھا۔۔۔۔۔ شادی نہ سہی مگر وہ یہ ضرور چاہتا تھا

anusinha
 

وہ اب پہلے کی طرح ہنستی ہی نہیں" دانیہ کی بات پر حانی کے چہرے پر بھی تاریکی سی ابھری تھی۔
"ہاں۔۔۔ شاید یہ حقیقت پسندی کی نشانی ہو" حانی کا سنجیدہ چہرہ بلکل بے تاثر تھا۔
"ہمممم۔۔۔۔۔ ایسی حقیقت پسندی کس کام کی۔۔ خیر ہم اسے دوبارہ سے ویسا بنانے کی کوشش ضرور کریں گے۔ پہلے کی طرح وہ ہم دونوں سے اپنی باتیں منوایا کرے۔۔۔ حق جمایا کرے۔۔۔ سچ پوچھو تو میں بہت بار اسکی وہ شرارتیں اور ضد مس کرتی ہوں" اب کی بار دانیہ کچھ اداس سی ہوئی۔۔۔
"ہاں بلکل" حانی کا دماغ تو شاید آج کہیں اور ہی تھا۔۔۔۔۔ کتنی دیر تک وہ باتیں کرتی رہی اور کتنی ہی دیر حانی کے چہرے پر پھیکا سا رنگ لہراتا رہا۔۔۔۔۔
◇◇◇

anusinha
 

زبردست" وہ بھی ہلکی سی پرجوشی لیے تھا۔
"ہاں نا۔۔۔ کہہ رہی ہیں کہ ہفتے کے لیے میرے پاس آو سب۔ خوب مزہ کریں گے۔۔۔۔ اینڈ یو نو مینو، دائم اور نیلم نے تو پیکنگ بھی کر لی ہے" آخری بات پر وہ دونوں ہی مسکرائے تھے۔
"ضرور چلیں گے" تو گویا حانی نے بھی حامی بھر لی تھی۔
"اینڈ تم بھی کر لینا کل تک پیکنگ۔۔۔۔ شادی سے پہلے یہ ہم سب کا آخری ٹرپ ہوگا" اب دانیہ صرف مسکرائی تھی
"یہ تو ہے۔۔۔۔۔ سو گئے ہیں کیا سب؟" وہ دونوں اب واک کر رہے تھے۔
"نہیں صرف مینو سوئی ہے۔۔۔۔۔ دائم اور نیلم تو لڈو کھیل رہے۔ امی بابا انکو کمپنی دے رہے جبکہ تایا جان بھی سونے جا چکے ہیں" دانیہ نے اسے تمام تر صورت حال بتاتے کہا۔۔۔۔
"خیر ہو۔ وہ اتنی جلدی کیوں سو گئی ہے" فکر مندی سے سوال آیا تھا۔۔۔۔
"پتا نہیں۔۔ کہہ رہی تھی نیند آگئی ہے۔ ویسے حانی۔ تم نے محسوس کیا ہے۔

anusinha
 

وہ جب سے واپس آیا تھا ایک عجیب سی الجھن میں تھا۔ لان میں مسلسل ٹہلتا ہوا وہ کسی گہری سوچ میں تھا۔
"کافی" دانیہ کی آواز پر جیسے وہ اپنے خیالات سے باہر آیا۔
"تھینکس۔۔۔۔۔ سوئی نہیں؟" کافی کا مگ لیے وہ نارمل انداز میں بولا تھا۔
"سونے ہی والئ تھی۔ لیکن تم پر نظر پڑی تو سوچا کافی ہو جائے۔ کب سے تمہیں خاموشی سے ٹہلتے دیکھ رہی ہوں۔ سب خیریت ہے" دانیہ کی کھوج لگانے کی کوالٹی قابل تعریف تھی۔ مگر وہ بھی حنوط مرتضی تھا۔
"ہمم۔ کچھ خاص نہیں۔ آج زرا ٹہلنے کا موڈ ہو رہا تھا۔ موسم بھی اچھا تھا تو زرا لمبا سٹے ہو گیا" حانی اسے مطمئین کرنے کے لیے مسکرا کر بتا رہا تھا۔ اور وہ مان بھی گئی تھی۔
"چلو پھر ٹھیک ہے۔ ویسے بائے دا وے۔ ہم سب نے گاوں جانے کا پلین بنایا ہے۔۔۔ ماہین پھپھو کے بے حد اسرار پر۔۔۔۔" دانیہ نے یک دم پرجوشی سے بتایا۔۔

anusinha
 

آذان کے چہرے کی مسکراہٹ اور مینال کا نام لینا جیسے اسے پسند نہیں آیا تھا۔۔۔
"حیران ہوگئے نا۔۔۔۔۔۔ تم بھی سوچ رہے ہوگے کہ یوں چند لمحوں کی ملاقات میں یہ سب کیسے ممکن ہے مگر آئی ڈونٹ نو، مجھے لگتا ہے جیسے اسے جاننے کی ضرورت ہی نہیں" کیا بتاتا کہ وہ اک عمر مینال کو اپنا بنانے کئ خواہش کرتا آیا ہے۔۔۔۔ حانی کے چہرے کے تاثرات نہایت پیچیدہ تھے۔
"ہاں۔۔۔۔ اچھئ پسند ہے" حانی کو بمشکل لفظ تراشنے پڑے۔ اور مسکراہٹ میں آذان کا ساتھ دیتے ہوئے وہ کھانے میں لگ گیا۔
"بس اگر تمہاری سفارش مل جائے تو کمال ہو جائے۔ " آذان کے چہرے کا رنگ اچانک سے بڑھا تھا۔۔۔
"ہممم۔۔۔ ضرور۔ میرے اختیار میں ہوا تو کیوں نہیں" آذان کو بظاہر مطمئین کرتا ہوا وہ اب کسی گہری سوچ میں تھا۔ آذان بھی مسکرا دیا۔
◇◇◇

anusinha
 

شادی تو اسی سے کرنی چاہیے جس پر آپکا دل راضی ہو" آذان کی بات پر ناجانے کیوں وہ کچھ لمحے کو ساکت ہوا تھا۔ مگر پھر خود کو نارمل کرنے میں کامیاب ہو چکا تھا۔
"تو پھر ہوا کسی پے دل راضی؟" حانی اب تجسس میں تھا۔
"ہاں۔۔۔۔ لگ تو رہا ہے" اور یہ واقعی حانی کے لیے ایک سرپرائزنگ نیوز تھی۔
"زبردست۔۔۔ جلدی سے بتا دو پھر۔ تاکہ بات آگے بڑھائی جائے۔ نیک کام میں دیر کیسی" حانی نے کہا تو آذان اسکی بات پر مسکرا دیا۔
"دراصل تمہارا یہ دوست کسی سے امپریس ہو گیا ہے۔ اور اس بات کو آگے بڑھانے میں مجھے تمہاری مدد بھی درکار ہوگی۔ کیونکہ تم جانتے ہو اسے" اب تو واقعی حانی حیرت میں تھا۔
"آہاں۔۔۔۔ جلدی بتاو پھر" اب تو اس سے بھی صبر نہیں ہو رہا تھا۔
"مینال" اور ایک لمحے کو جیسے حانی ساکت ہوا تھا۔۔۔۔۔

anusinha
 

اور خود حانی بھی آذان کی ہر قابلیت سے واقف تھا۔ وہ واقعی ایک ذمہ دار اور مخنتی انسان تھا اور اسے اوپر والے نے اسی کا صلہ دیا تھا۔..
"بہت اچھا سوچ رہے ہو۔۔۔ اور ویسے بھی برتھ پلیس سب کو ہی اٹریکٹ کرتی ہے آذان۔۔۔ اب جب کہ جاب بھی مل گئی ہے تو یہیں رہو۔ کہیں جانے کی ضرورت نہیں"گو حانی نے بھی اسکی رائے سے اتفاق کیا تھا۔ دونوں ہی کھانا کھا رہے تھے
"بلکل۔۔۔اور نئی سنو۔۔۔ اب بی جی میری شادی کے پیچھے لگی ہیں۔ سچی کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب والدہ صاحبہ ایموشنل بلیک میلنگ نہ کر لیں۔" اب تو آذان کی بے چارگی پر حانی بھی ہنس دیا۔
"تو کر کیوں نہیں لیتے۔۔۔ یہیں کوئی اچھی سی لڑکی پسند کرو اور کر لو شادی۔۔۔ بی جی بھی خوش اور تم بھی سیٹل" مشورہ تو نہایت شاندار تھا۔
"ہاں اب یہی سوچ رہا ہوں۔۔۔۔۔ زبدگی بھر کا فیصلہ لینے کے لیے کچھ وقت تو سوچنا ضروری ہے نا۔

anusinha
 

♥♥♥♥♥♥♥♥
آذان کا ارادہ اب کچھ عرصہ یہیں رہنے کا تھا۔ اور اگلے ہفتے کے اندر اندر اسے بہت اچھے ہوسپٹل میں جاب آفر ہوئی تھی۔ آج اسی خوشی میں وہ حانی کو ڈنڑ دے چکا تھا۔ دونوں ہی ریسٹورنٹ آئے تھے۔ آذان کو تو اتنی جلدی جاب ملنے کی امید نہیں تھی۔ مگر ایک جان پہچان کام آگئی تھی۔ اور آخر کار اسکی قابلیت بھی بہت تھی۔ ایک اعلی پائے کا سرجن ہونا معمولی بات نہیں تھی لہذا وہ اب کافی مطمئین تھا۔
"سوچ رہا ہوں اب جاب بھی مل گئی ہے تو پکا یہیں سیٹل ہو جاوں۔ بی جی کا تو ان چھ سات سالوں میں بس نہیں چلتا تھا کہ اڑ کر پاکستان آجاتیں۔ مگر مجبوری تھی۔۔۔ بابا کے بکھرے بزنس کو سنبھالنے کی کوشش کے ساتھ اپنی ادھوری پڑھائی مکمل کرتا رہا۔۔۔۔۔بزنس تو نہ بچ سکا مگر میں ایک سرجن ضرور بن گیا" حانی بڑے غور سے اسکی کہانی سن رہا تھا۔

a  : ہم کسی سے خوشیاں مانگے، یہ ہمیں منظور نہیں،،مانگی ہوئ خوشیوں سے کس کا بھلا - 
anusinha
 

۔ دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔۔۔ مینو نے دائم سے ریکٹ لے لیا۔۔۔۔۔ پھر مینو اور حانی کی زبردست ٹکر والی گیم ہوئی۔ اور امید کے مطابق مینو نے بہت اچھا کھیلا تھا۔ پہلے ہی راونڈ میں مینو نے چھ گول کیے جبکہ حانی صرف دو کر سکا۔۔۔ سب ہی مینال کے جیتنے پر پرجوش تھے ۔ خاص کر دائم جو مکمل مینو کو سپورٹ کرتا دیکھائی دے رہا تھا۔
"ہمم ۔ بہت دن بعد کسی نے حنوط مرتضی کو ہرایا ہے۔۔۔ گڈ جاب" وہ اسکی نیلی ہنستی آنکھوں میں جھانکے مسکرایا تھا۔
"جناب۔۔ اب ہر سنڈے آپکی ایسی ہی پٹائی ہونی۔۔۔ کیوں مینو" دائم کو تو جیسے اپنے حریف کے ہارنے کی الگ ہی خوشی چڑھی تھی۔۔دانیہ اور حانی مسکرائے۔۔مینال بھی سر ہلائے ہنس دی۔۔۔
◇◇◇

anusinha
 

یار انھیں کوئی ہرائے" دائم ہاف بازو کو بھی مزید اوپر چڑھاتا ہوا کرسی پر ڈھے چکا تھا۔۔۔۔۔جبکہ حانی بھی ہنستا ہوا ریکٹ گماتا ہوا وہیں آگیا۔
"کتنے سالوں سے تم میرے ساتھ کھیل رہے ہو۔ نکمے ابھی تک تمہیں کھیلنا نہیں آیا۔۔۔۔ بس رونا ڈلوا لو تم سے۔۔۔۔مینال تم بتاو۔ کھیلنا یاد ہے تمہیں یا وہ بھی بھول گئی ہو" حانی بھی اب کافی کا مگ لیے بیٹھتے بولا تو وہ مسکرا دی۔
"ٹرائے کر سکتی ہوں۔۔۔ ویسے کبھی کبھار سنڈے کو میں، مہر اور عادی کھیلتے تھے۔ مہر اور عادی میرے دوست جن کے پاس میں رہتی تھی۔۔۔۔ میں ان دونوں کو ہر بار ہرا دیتی تھی" مینال مسکراتے ہوئے بتا رہی تھی۔
"بھئی مینو۔ تم حانی کو پہلے کی طرح ہرا کر دیکھاو تو مانیں ہم" اب تو گیم ہونا لازم تھا۔۔۔۔ کیونکہ حانی ہمیشہ مینو کے ساتھ کھیلتے انجوائے کرتا تھا کیونکہ انکا ہمیشہ ٹکر کا مقابلہ ہوا کرتا تھا۔