آج یوں موسم نے دی جشن محبت کی خبر پھوٹ کر رونے لگے ہیں ، میں محبت اور تم ہم نے جونہی کر لیا محسوس منزل ہے قریب راستے کھونے لگے ہیں میں ، محبت اور تم چاند کی کرنوں نے ہم کو اس طرح بوسہ دیا دیوتا ہونے لگے ہیں میں ، محبت اور تم آج پھر محرومیوں کی داستانیں اوڑھ کر خاک میں سونے لگے ہیں میں ،محبت اور تم کھو گئے انداز بھی ، آواز بھی، الفاظ بھی خامشی ڈھونے لگے ہیں میں ، محبت اور تم وصی شاہ
آج یوں موسم نے دی جشن محبت کی خبر پھوٹ کر رونے لگے ہیں ، میں محبت اور تم ہم نے جونہی کر لیا محسوس منزل ہے قریب راستے کھونے لگے ہیں میں ، محبت اور تم چاند کی کرنوں نے ہم کو اس طرح بوسہ دیا دیوتا ہونے لگے ہیں میں ، محبت اور تم آج پھر محرومیوں کی داستانیں اوڑھ کر خاک میں سونے لگے ہیں میں ،محبت اور تم کھو گئے انداز بھی ، آواز بھی، الفاظ بھی خامشی ڈھونے لگے ہیں میں ، محبت اور تم وصی شاہ
آنکھوں سے مری اس لیے لالی نہیں جاتی یادوں سے کوئی رات جو خالی نہیں جاتی اب عمر نہ موسم نہ وہ رستے کہ وہ پلٹے اس دل کی مگر خام خیالی نہیں جاتی مانگے تو اگر جان بھی ہنس کے تجھے دے دیں تیری تو کوئی بات بھی ٹالی نہیں جاتی آئے کوئی آ کر یہ ترے درد سنبھالے ہم سے تو یہ جاگیر سنبھالی نہیں جاتی معلوم ہمیں بھی ہیں بہت سے ترے قصے پر بات تری ہم سے اچھالی نہیں جاتی ہم راہ ترے پھول کھلاتی تھی جو دل میں اب شام وہی درد سے خالی نہیں جاتی ہم جان سے جائیں گے تبھی بات بنے گی تم سے تو کوئی راہ نکالی نہیں جاتی وصی شاہ
تو میں بھی خوش ہوں کوئی اس سے جا کے کہہ دینا اگر وہ خوش ہے مجھے بے قرار کرتے ہوئے تمہیں خبر ہی نہیں ہے کہ کوئی ٹوٹ گیا محبتوں کو بہت پائیدار کرتے ہوئے میں مسکراتا ہوا آئینے میں ابھروں گا وہ رو پڑے گی اچانک سنگھار کرتے ہوئے مجھے خبر تھی کہ اب لوٹ کر نہ آؤں گا سو تجھ کو یاد کیا دل پہ وار کرتے ہوئے یہ کہہ رہی تھی سمندر نہیں یہ آنکھیں ہیں میں ان میں ڈوب گیا اعتبار کرتے ہوئے بھنور جو مجھ میں پڑے ہیں وہ میں ہی جانتا ہوں تمہارے ہجر کے دریا کو پار کرتے ہوئے وصی شاہ
اداس راتوں میں تیز کافی کی تلخیوں میں وہ کچھ زیادہ ہی یاد آتا ہے سردیوں میں مجھے اجازت نہیں ہے اس کو پکارنے کی جو گونجتا ہے لہو میں سینے کی دھڑکنوں میں وہ بچپنا جو اداس راہوں میں کھو گیا تھا میں ڈھونڈتا ہوں اسے تمہاری شرارتوں میں اسے دلاسے تو دے رہا ہوں مگر یہ سچ ہے کہیں کوئی خوف بڑھ رہا ہے تسلیوں میں تم اپنی پوروں سے جانے کیا لکھ گئے تھے جاناں چراغ روشن ہیں اب بھی میری ہتھیلیوں میں جو تو نہیں ہے تو یہ مکمل نہ ہو سکیں گی تری یہی اہمیت ہے میری کہانیوں میں مجھے یقیں ہے وہ تھام لے گا بھرم رکھے گا یہ مان ہے تو دیے جلائے ہیں آندھیوں میں ہر ایک موسم میں روشنی سی بکھیرتے ہیں تمہارے غم کے چراغ میری اداسیوں میں وصی شاہ
آنکھوں میں چبھ گئیں تری یادوں کی کرچیاں کاندھوں پہ غم کی شال ہے اور چاند رات ہے دل توڑ کے خموش نظاروں کا کیا ملا شبنم کا یہ سوال ہے اور چاند رات ہے کیمپس کی نہر پر ہے ترا ہاتھ ہاتھ میں موسم بھی لا زوال ہے اور چاند رات ہے ہر اک کلی نے اوڑھ لیا ماتمی لباس ہر پھول پر ملال ہے اور چاند رات ہے چھلکا سا پڑ رہا ہے وصیؔ وحشتوں کا رنگ ہر چیز پہ زوال ہے اور چاند رات ہے وصی شاہ
قربتوں سے کب تلک اپنے کو بہلائیں گے ہم ڈوریاں مضبوط ہوں گی چھٹتے جائیں گے ہم تیرا رخ سائے کی جانب میری آنکھیں سوئے مہر دیکھنا ہے کس جگہ کس وقت مل پائیں گے ہم گھر کے سارے پھول ہنگاموں کی رونق ہو گئے خالی گلدانوں سے باتیں کرکے سو جائیں گے ہم ادھ کھلی تکیے پہ ہوگی علم و حکمت کی کتاب وسوسوں وہموں کے طوفانوں میں گھر جائیں گے ہم اس نے آہستہ سے زہراؔ کہہ دیا دل کھل اٹھا آج سے اس نام کی خوشبو میں بس جائیں گے ہم
بے وفائی کرکے نکلوں یا وفا کر جاؤں گا شہر کو ہر ذائقے سے آشنا کر جاؤں گا تو بھی ڈھونڈے گا مجھے شوق سزا میں ایک دن میں بھی کوئی خوبصورت سی خطا کر جاؤں گا مجھ سے اچھائی بھی نہ کر میری مرضی کے خلاف ورنہ میں بھی ہاتھ کوئی دوسرا کر جاؤں گا مجھ میں ہیں گہری اداسی کے جراثیم اس قدر میں تجھے بھی اس مرض میں مبتلا کر جاؤں گا شور ہے اس گھر کے آنگن میں کچھ روز اور گنبد دل کو کسی دن بے صدا کر جاؤں گا
تم مری آنکھ کے تیور نہ بھلا پاؤگے ان کہی بات کو سمجھوگے تو یاد آؤں گا ہم نے خوشیوں کی طرح دکھ بھی اکٹھے دیکھے صفحۂ زیست کو پلٹو گے تو یاد آؤں گا اس جدائی میں تم اندر سے بکھر جاؤگے کسی معذور کو دیکھوگے تو یاد آؤں گا اسی انداز میں ہوتے تھے مخاطب مجھ سے خط کسی اور کو لکھو گے تو یاد آؤں گا میری خوشبو تمہیں کھولے گی گلابوں کی طرح تم اگر خود سے نہ بولو گے تو یاد آؤں گا آج تو محفل یاراں پہ ہو مغرور بہت جب کبھی ٹوٹ کے بکھرو گے تو یاد آؤں گا وصی شاہ
تو میں بھی خوش ہوں کوئی اس سے جا کے کہہ دینا اگر وہ خوش ہے مجھے بے قرار کرتے ہوئے تمہیں خبر ہی نہیں ہے کہ کوئی ٹوٹ گیا محبتوں کو بہت پائیدار کرتے ہوئے میں مسکراتا ہوا آئینے میں ابھروں گا وہ رو پڑے گی اچانک سنگھار کرتے ہوئے مجھے خبر تھی کہ اب لوٹ کر نہ آؤں گا سو تجھ کو یاد کیا دل پہ وار کرتے ہوئے یہ کہہ رہی تھی سمندر نہیں یہ آنکھیں ہیں میں ان میں ڈوب گیا اعتبار کرتے ہوئے بھنور جو مجھ میں پڑے ہیں وہ میں ہی جانتا ہوں تمہارے ہجر کے دریا کو پار کرتے ہوئے وصی شاہ