منزل بھی اس کے تھی راستہ بھی اس کا تھا ایک میں ھی اکیلی تھی قافلہ بھی اس کا تھا ساتھ ساتھ چلنے کی سوچ بھی اس کی تھی راستہ بدل لینے کا فیصلہ بھی اس کا تھا اج کیوں اکیلی ھوں دل یہ سوال کرتا ھے لوگ تو اس کے تھے کیا خدا بھی اس کا تھا
میں سنیا سی لوگ بے وفا ھوندے نے میں تینوں کدی لوکاں وچ گنیا نہیں
اب نہیں ہو سکتی محبت کسی اور سے تھوڑی سی تو زندگی ہے کس کس کو آزماتے رہینگے
پہلے ڈر لگتا تھا موت کے نام سے اب ڈر لگتا ہے محبت کے نام سے
ﻣﺤﺒﺖ ﺍﻧﺪﮬﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ ﺍﻋﺘﺒﺎﺭ ﺍﻧﺪﮬﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﺍﻋﺘﺒﺎﺭ ﭨﻮﭨﺘﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻣﺤﺒﺖ ﺟﺘﻨﯽ ﺑﮭﯽ ﺷﺪﯾﺪ ﮨﻮ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﺻﺎﻑ ﻧﻈﺮ ﺁﺗﯽ
ایک ایسا بھی وقت ہوتا ہے مسکراہٹ بھی آہ ہوتی ہے
صاف انکار کر دیا کریں مگر کسی کے دل میں جذبات پیدا کر کے اسے جھوٹی امید اور دھوکے میں مت رکھا کریں
کبھی تو کوئی چونک کے دیکھے ھماری طرف کسی کی انکھ میں ھم کو بھی انتظار دکھے
جو راہ عشق میں ثابت قدم رہا اس کو دوبارہ عشق کرنے کی اجازت نہیں ملتی
جو راہ عشق میں ثابت قدم رہا اس کو دوبارہ عشق کرنے کی اجازت نہیں ملتی
ﮨﺎﺗﮫ ﮨﻼ ﮐﺮ ﺭﺧﺼﺖ ﮨﻮﮔﺎ،ﺍُﺱ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﮨﺠﺮ ﮐﺎ ﭼﺎﻧﺪ ﺻﺤﺮﺍ ﺻﺤﺮﺍ ﺑﮭﭩﮏ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ،ﺍﭘﻨﮯ ﻋﺸﻖ ﻣﯿﮟ ﺳﭽّﺎ چاند
یہ شکایت نہیں تجربہ ھے قدر کرنے والوں کی کوئی قدر نہیں کرتا
یقین کریں جو دل سے اتر جائیں وہ سامنے بھی بیٹھے رھے نظر نہیں اتے
ھم کسی کے لیے اتنے خاص بھی نہیں ھوتے جتنا خود اپنے سر پر سوار کر لیتے ھیں
اج اداس ھوں تو کسی نے اواز نہیں دی یہ مٹی کے پتلے کسی سے وفا نہیں کرتے
یعنی وہ جو محبت تھی وہ یکطرفہ تھی یعنی ھم نے پالا تھا یکطرفہ دکھ