تجھ کو آتی ہے اگر کاری گری، سنگ تراش میرا چہرہ، مرا پیکر، مرا کوئی انگ تراش یا تو پانی سے کوئی شیشہ بنا میرے لیے یا تو آئینے سے یہ دھول ہٹا زنگ تراش میرے آنچل کو بنانے کے لیے گھول دھنک اور پھر پھول سے تتلی سے کئی رنگ تراش تیرے ہاتھوں میں کئی سر ہیں، یہ دعوی ہے ترا چل کوئی ساز ہی لکڑی سے بنا، چنگ تراش کورے کاغذ پہ بھی کاڑھے ہیں شجر، پھول، ثمر شعر کہنا ہے تو کچھ ذائقہ کچھ ڈھنگ تراش جیسے ترشا ہے یہ سورج کسی پرکار کے ساتھ تو بھی آوزار اٹھا ایسا کوئی شنگ تراش میں بناؤں گی کھلا اور وسیع ایک جہان میں نہیں قید، گھٹن، قبر، قفس، تنگ، تراش کام میرا ہے بناؤں میں شہد اور شہد تو مگر زیر بنا اور بنا، ڈنگ تراش تو تو مٹی کے طلسمات سے واقف تھا حسن کیوں جہاں زاد کے جلوے سے ہوا دنگ، تراش! قندیل بدر
پرانا گھر نئے نقشے میں اچھا بن گیا ہے مگر اک باپ بچوں کا تماشہ بن گیا ہے بہت اچھا ہوا ہم اک قبیلے کے نکل آئے چلو اب ہاتھ تھامو اب تو رشتہ بن گیا ہے خدایا اب ذرا تیری توجہ اس طرف بھی ہمارا ہاتھ پھیلے پھیلے کاسہ بن گیا ہے تعلق پہلے جیسا تو نہیں پھر بھی ہے قائم یہ دریا تھا سمٹ کر جو کنارہ بن گیا ہے ادھورا گھر سہی سر ڈھانپنے کو چھت تو ہے ناں بہت ہے یار، اب تک جو بھی، جیسا بن گیا ہے وہ ڈھابہ یاد ہے جس پر کبھی مل بیٹھتے تھے وہ ڈھابہ گر چکا ہے اور پلازہ بن گیا ہے یہ دیوانہ جسے سب لوگ پاگل کہہ رہے ہیں کسی کا ناز تھا دیکھو تو اب کیا بن گیا ہے