اکثر مجھے ہفتہ اتوار کا بہت انتظار ہوتا ہے اس دن میں تسلی سے تتلیوں کا پیچھا کرنا چاہتی ہوں مگر مجھے دیکھتے ہی میری ماں کے گھٹنوں میں تکلیف ہونے لگتی ہے۔ اس دن گندے برتن دیر تک پڑے رہتے ہیں پھر میں دھو دیتی ہوں اور تتلیاں میرے ہاتھوں سے اٹھنے والی سستے صابن کی بو سے اڑ جاتی ہیں.. سارے خیالات پھسل کر نالی میں بہہ جاتے ہیں۔ پھر یونیورسٹی میں بھی مجھے زندگی کبھی پیاری نہیں لگی۔ جوڑے قہقے لگاتے ہیں ہینگ آوٹ کرتے ہیں اور خوبصورت ریستورانوں میں عشائیے کا پلان بناتے ہیں۔ Lmao Btw Pov Idk Brb Lol Tbd... .... جیسی سستی شارٹ فارمز والی گروپ چیٹس میں ایک دوسرے کے ڈارک ہیومر پر سبقت لے جانے کی جدوجہد کرتے ہیں۔
تمہیں بھی جی چاہتا ہو گا کہ سیڑھیوں پر بیٹھو اور شام کو گھورتی رہو.. بسوں میں نظمیں لکھو.. سڑک کے پانی میں پاوں مارو اور فٹ ہاتھ پر بیٹھ جاو۔ ہر چیز کو (romanticize) کرتی جاو لیکن پھر کوئی بائیک تمہارے پاس رکتی ہے اور کہتی ہے ہمارے ساتھ چلو گی؟ آو نا؟ ڈرتی کیوں ہو؟...اور تم پاوں سمیٹ لو گی۔ بیرئیر کے ساتھ مزید چپک جاو گی۔ تمہارے اندر ایک خلا بن جائے گا اور تم یک دم مہذب انداز سے سفر کرنا سیکھ جاو گی۔ پہلے مجھے ہمارے اندر بننے والے اس خلا کو (visualize) کرنے میں مسلہ تھا پھر میں نے بابا کی ایکسرے رپورٹ دیکھی۔ ان کی پسلی میں ایک سوراخ نما زخم ہے بلیک ہول جیسا دکھنے والا۔ وہ مسلسل کھانستے ہیں تاکہ اس سوراخ سے زندگی کی کترن نکل جائے۔
اب جب میری صورت پیلی زرد ہے تو وہ پریشان ہوتی ہیں میں ان کے سینے سے لگ کر انہیں بتانا چاہتی ہوں کہ آج بھی میرے وجود پر نادیدہ رسیوں کی گانٹھیں ہیں اور میں ٹھنڈے فرش پر مسلسل لوٹ پوٹ ہو رہی ہوں۔ مجھے ایک جگہ پر دو بار جھاڑو لگا کر اور بستر کی چادر بالکل سیدھی بچھا کر بھی زندگی جینا نہیں آیا بلکہ میں کسان اور اس کے بیٹے کی طرح کندھوں پر اپنا گدھا اٹھا کر پہاڑی چڑھ رہی ہوں۔ میرے گھر میں کوئی گرماہٹ نہیں ہے..نشستیں اور بستر ٹھنڈے ہیں اور خواب گاہوں کے شیشے دھندلکے میں ڈوبے ہوئے..پہلے ایک کھڑکی سے آسمان نظر آتا تھا اب وہاں دیوار ہے۔ یہاں آسمان کی کوئی بھی اچھی تصویر نہیں آتی کیونکہ ہر تصویر میں تاریں ہیں۔ یہ مواصلاتی برقی ڈاکیے اور مصنوعی روشنی اپنے وجود کا کوئی مقصد نہیں رکھتے۔ انہوں نے وقت اور فاصلے کے بھیدوں کو برہنہ کر دیا ہے۔
ایک ایسی تحریر جو ہر طرح سے میری عکاسی کرتی ہے۔ ------------------💚 نیلی روشنی کا ساز! مجھے جمیلہ اپنی روحانی ماں کی طرح لگتی ہیں میں ان سے بہت محبت کرتی ہوں.. انہوں نے مجھے سکھایا کہ بلوط کی شاخوں سے گیت لپٹتے ہیں..كائنات کی گھن گرج میں روحیں کھو جاتی ہیں..بوگن ویلیا کے سرخ پھول بکھر جاتے ہیں اور کنارے کے جھاڑیوں میں ملاحوں کی آواز الجھی رہتی ہے۔ (دنیا کا سب سے بڑا سچ اختتام ہے اور یہی سب سے مشکل حقیقت ہے)۔ میرا وجود ایک ہار گلاس میں بدل گیا ہے۔ اب میرے اندر مسلسل ریت گرتی رہتی ہے بغیر کسی بھی آہٹ کے میں روز اپنے اندر سے مسمار ہوتی ہوں.. ایک بار میں نے بچپن میں کوئی غلطی کی تو میری ماں نے مجھے باندھ دیا۔ میں ٹھنڈے فرش پر رسیوں میں جکڑی پڑی تھی اور مجھے مار پڑتی رہی۔
دنیا کا کوئی دروازہ نہیں ہوتا جسے کھول کر ہم اس سے باہر نکل جائیں۔ دنیا کی صرف کھڑکیاں ہوتی ہیں، جن سے ہم باہر جھانک سکتے ہیں۔ بعض دفعہ یہ کھڑکیاں دنیا سے باہر کے مناظر دکھاتی ہیں۔ بعض دفعہ یہ اپنے اندر کے منظر دکھانے لگتی ہیں۔ مگر رہائی اور فرار میں کبھی مدد نہیں دیتیں۔ امربیل