sometimes all you desire becomes recovering your sanity.
Badly miss that super conscious bintos from 2017..
کررہی ہوں میں شَبِ غم کا علاج
تیری تصویر جلائی ہے ابھی
وشال سحر
زندگی کی ابتدائی دو، اڑھائی دہائیوں میں ہی دایاں ہاتھ بالکل ناکارہ ہو گیا ہے۔
💔
میں تمہاری آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتا تھا پچھلے آدھے گھنٹے سے دیکھ رہا ہوں اب تم نظریں اٹھا کر میری بے بسی دیکھو۔
سوگواری کے باون دن
''Let it be''
خود کو دیکھے، خود سے خود ہی انکاری ہوں
جانے رسمِ دنیا نے ایسا بھی کیا کام کیا
تتلیوں کے جہاں میں، کبھی نہ پھولوں میں
میری پروانه زیست کو کہیں اماں نہ ملی
کانچ ٹکڑوں میں بنٹ رہا تھا
خلش کا دھاگہ الجھ رہا تھا
تم ہو مصروفِ تكلم تمہیں کیا غرض کہ میں
بے ثباتیِٔ گریہ پہ پشیماں کیوں رہوں۔ ۔ ۔
کیا ہوا؟
آسمان سے دل بیزار ہوگیا۔
لیکن سر چھپانے کو اس سے وسیع کوئی چھت بھی نہیں۔ ۔ ۔
پھر آسمان سے کہہ دو کہ ان سورج، چاند ستاروں کو اپنے ماتھے سے نوچ ڈالے، مجھے ان سے وحشت ہوتی ہے
تم اندھیرے سے ڈر جاؤ گی۔
بھلا سیاہی بھی سیاہی سے کبھی چھپتی ہے؟
تھامنے والے ہاتھ کی اور سر ٹکانے کو کاندھے کی ضرورت ہمیشہ نہیں رہتی ، کبھی آپ قدم جمانے کو صرف ہموار زمین چاہتے ہیں۔
کتنا مختصر ہوتا ہے نا اپنا آپ۔
من زندگی زا دوست ندارم ، بنابراین هیچ داستانی برای گفتن ندارم
عاشق پر الزام لگایا گیا کہ تمہارا تو دل ہی بکاؤ ہے، جب چاہا دل لگی میں لگا لیا۔ تو جہان بھر کے حقائق سے آشنا بہتی ہوا متبسم ہوئی اور طعنہ زن، غافل کی لاعلمی پر افسوس کرتی کہنے لگی جو مقامِ اول سے ناواقف ہیں وه مقامِ آخر پر قياس آرائی کرنے کا حق اس ہی دن کھو چکے تھے جس دن سمندر کی لہریں پہلی مرتبہ بپھریں، جس دن زمین سورج کے گرد چکر لگانے لگی، جس دن نبات نے اپنا ننها سر دھرتی کی گود سے اٹھایا!
عشق کا اولین درجہ تو سینے میں رکھے دل کا کھو دینا ہے، جو چیز ہے ہی گمشدہ وه بھلا بکاؤ کیونکر ہوئی؟
یہاں محبت کا تخم دل کا بوسہ لینے کو جھکا اور وہاں عشق کا معجزاتی نخل پروان چڑھا پھر کون جانے، کب سے یہ کراماتی شجر، دل کو اپنے دامن میں چھپائے کیفیات کے اثمار سے لدها رہا۔
انسان کا اپنا قصور کہاں ہوتا ہے؟ یہ تو وه باتیں اور جملے ہوتے ہیں جو ہمارے لاشعور میں گردش کرتے ہیں، ہم اپنے آپ سے ہی ناواقف رہتے ہیں۔ آہستہ آہستہ ان کی بازگشت ہونے لگتی ہے اور پھر یہی نکتے ہمارے شعور کا حصہ بن جاتے ہیں۔
آپ کو پتا ہے، میں نے اپنے بالوں کی طرح اپنے ہاتھ پھیلاۓ اور خوشبو سے سجا دامن بھی، لیکن میرے ہاتھ کسی نے نہیں تھامے۔ ۔ جیسے اس لمس سے میری بدقسمتی رنج کی صورت منتقل ہو جاۓ گی یاجیسے دامن سے اٹھتی مہک، تعفن میں تبدیل ہو کر وبا پھیلاۓ گی۔
جب سہارے کھو جائیں تب منہ کے بل گرنا ہی مقدر ہوتا ہے۔
میں بھی تو تنہا ٹہلتی ہوں یہاں رات گئے
وه بھی تو مثلِ ہوا بام پہ چلتا ہوگا
پاس والوں کو خبر دور کی ہوگی کیسے
اک اسی نہج پہ وه ماتھا مسلتا ہوگا
I greet the blue skies, they'll convey my greetings to you.
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain