تمّنا کا سَراب مجھے پیلی دھوپ پسند ہے کیونکہ وہ خوابوں کی سیلن خشک کر دیتی ہے اور ہم حقیقت کو کُھلی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں پھر بھی اپنے سائے میں میں تمہاری پرچھائی تلاشتی ہوں تم اور میں سر سبز وادی کے پیالے پر اُگنے والے دو جنگلی پھول ہو سکتے تھے یا برفیلی ندی پر جمنے والے دو قدم ہم کسی انجان جزیرے پر درست سمت تلاش کرتی دو آنکھیں ہو سکتے تھے یا مقنائے ہوئے لوہے کے دو ٹکڑے لیکن نہیں ہوئے کیونکہ ہماری قسمت کا مقناطیسی انحراف تمنا کو سراب کرنے میں کامیاب رہا عائزہ علی خان بنام 💚
اللہ اللہ، کس قدر مطابقت ہے 💚 میں ہمیشہ سوچتی رہی ہوں کہ زندگی مجھ سے کوئی ابتدائی ملاقات کیوں طے نہیں کرتی۔ اس نے مجھے بحری سفر پہ روانہ کر دیا ہے جبکہ وہ جانتی ہے کہ مجھے پانی کے چاروں جانب ہونے سے کتنا ڈر لگتا ہے۔ میں جس بندرگاہ پہ پناہ لینے کو قدم رکھتی ہوں، وہ خستہ ہونے لگتی ہے۔ جذبات کے صادق ہونے کی قیمت خود کو گراں سمجھ کر ادا کرتی ہوں۔ اپنی ناصبوری کی شکایت صرف اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ کے کر سکتی ہوں۔ میں تغافل اور خواب کے درمیان پھنس چکی ہوں۔ خود آگے بڑھتی ہوں تو سانس گھٹنے لگتی ہے۔ سانس کا خیال کرتی ہوں تو یاد مجھے اپنے کمرے سے نکال باہر کرتی ہے۔ یہ باتیں کتنی افسردہ ہیں۔ مگر اس سے زیادہ نہیں کہ میں ایک معذور خط کو جنم دے رہی ہوں جو کبھی آپ تک نہیں پہنچ پائے گا اور میں کبھی بھی اپنی تھکن نہیں اتار سکوں گی۔ تحریم امان اللہ بخاری
آگے جانے کے سارے راستے بند ہیں اور پیچھے مڑنے میں اذیت۔ ۔ ۔ وقت کا یہ پہیا ہمیشہ چلتا ہی رہتا ہے، کیوں نہیں رکتا ؟ میری طرف دیکھو کہ میرا خوف مجھے زمین بوس کیے وقت کے قدموں میں روند دے گا۔ جیم۔
چشمِ گریاں سمتِ فلک گئی اور دامن فشاں لوٹی کہ اب تو بادلوں نے بھی سنہرے سیماب میں رچے خوبصورت آتشی گولے کو میری نظروں سے اوجھل کر دیا ہے۔ کاش! کہ وہ پیارا زرد ستارہ مجھے سنتا اور بتاتا کہ اس غمگین دل کے بھڑکتے شعلے پر کوئی آبِ زلال کیونکر برساۓ گا؟ جیم۔