یہ دل ایک دم سے خالی کیوں ہو جاتا ہے، امید کا پرندہ پر پھیلائے میری پہنچ سے باہر اڑان کیوں بھرتا ہے، آزمائش کا پھندا ہر لمحہ سکڑتا کیوں جاتا ہے؟ پتا نہیں، سوالوں کا جواب پا لینا اس قدر مشکل کیوں ہے۔
مجھے خلا سے محبت اس لیے نہیں ہے کہ مجھے ستارے (fascinating) لگتے ہیں بلکہ مجھے دنیا (suffocating) لگتی ہے۔ دنیا ایک (probability theory) کی طرح اپنے تمام ممکنہ حل پیش کر رہی ہے لیکن کوئی ایک جواب بھی درست نہیں۔ انسان بس کیچڑ میں کھیلتا رہتا ہے! اب میں سینٹ ایگنیز کی شب محبوب کا خواب نہیں دیکھتی بلکہ میں اکارس کی طرح آزادانہ اڑنے کا خواب دیکھتی ہوں۔ میں چلا چلا کر کونجوں اور قمریوں کو بتانا چاہتی ہوں کہ دیکھو دیکھو میں آزادی سے اڑ رہی ہوں۔ لیکن میں جیسے ہی سورج کے قریب جاتی ہوں میرے پروں کی گوند پگھل جاتی ہے۔ اور خوابوں کا لیس دار مادہ زمین پر گر جاتا ہے۔
کچھ سال پہلے میری گردن جلی تو کسی نے میری ماں سے کہا خبردار اس کی گردن پر کوئی داغ نہ ہو آخر یہ کسی کے گھر جائے گی۔ میں اسی دن سمجھ گئی کہ خود کو باہر سے جلانا درست نہیں ہے۔ سلگھنا جل کر فنا ہونے سے زیادہ زہریلا ہے مگر دوسرا کوئی آپشن نہیں کیونکہ ہمیں کسی کے گھر جانا ہے۔ آخر ہم اپنے گھر کب جائیں گے؟ میرا اعمال نامہ بائیں طرف سے بہت وزنی ہو گیا ہے۔ میرا کندھا حقیقت میں جھک گیا ہے کچھ دن پہلے میری ماں نے پوچھا یہ کیا ہوا ہے؟ میں نے کہا: اوہ یہ بستہ لگانے کی وجہ سے ہے! میں اپنی محبت پر بھی عامیانہ تجربات لاگو ہونے پر افسردہ ہوں میں نے بھی سب کی طرح سوچا تھا کہ میں نے کوئی دائمی دیومالائی محبت کی ہے۔
میرا چہرہ ایک سرطانی کیفیت میں خالی خولی لگتا ہے اور سینہ ایک جانب سے دکھتا ہے۔ میرا وجود اپنی قوت نچوڑ کر پرانا گڑھا بن گیا ہے۔قدیم چیزوں میں بھی دلکشی ہوتی ہے مجھ میں نہیں ہے۔ میں نے نظمیں کہنے والوں سے محبت کی..ایک جگہ تو اعتراف بھی کیا مجھے لگا شائد اس طرح میں زندگی کو کلاسک مووی کی طرح گزار سکتی ہوں۔ لیکن میں نے سیکھا کہ زندگی سیلانی ہے اور یہ کسی فریم میں مقید نہیں رہ سکتی زندگی کا کام ہمارے بدنوں سے گزرنا ہے۔ زندگی کو گزرنے کے لئے نظم نہیں، انسولین کی ضرورت ہے۔ سرخ سفید خلیوں کے ٹھیک طرح کام کرتے رہنے کی اور مناسب تنخواہ کی ضرورت ہے۔ زندگی کو ان تین چار عورتوں کی ضرورت ہے جو سر سے پاوں تک دیکھ کر لڑکی کا انتخاب کریں۔
جب کہ میری ساتھی ایک انٹرورٹ ہے۔ اسے بولنا عذاب لگتا ہے اور مجھے چپ رہنا۔ میں بول کر اسے بتانا چاہتی ہوں کہ سائن بورڈ کو دیکھ کر میں نے کیا سوچا.. سڑک کے کنارے ایک کبڑا بھیک مانگ رہا تھا اس کی آنکھوں میں زندگی کیسی لگتی ہے۔ بدبودار بسوں میں جھگیوں والیاں کیسے اپنی مالکن کی غیبت کرتی ہیں۔ ایک عورت روز مہندی اور نیل پینٹ لگا کر صفائی کرنے جاتی ہے۔ کتنے کمپلیکس جذبوں میں ڈوبے ہوئے یہ لوگ بیس اور تیس روپے کرائے پر لڑتے ہیں۔ میں اسے بتانا چاہتی ہوں کہ مجھے چرچ میں جانے کا شدید شوق کیوں ہے۔ میں خدا کو منانے کی تمام رسمیں ادا کرنا چاہتی ہوں۔ اپنی ذات سے میری حقارت اب پاگل پن میں بدل رہی ہے۔
اکثر مجھے ہفتہ اتوار کا بہت انتظار ہوتا ہے اس دن میں تسلی سے تتلیوں کا پیچھا کرنا چاہتی ہوں مگر مجھے دیکھتے ہی میری ماں کے گھٹنوں میں تکلیف ہونے لگتی ہے۔ اس دن گندے برتن دیر تک پڑے رہتے ہیں پھر میں دھو دیتی ہوں اور تتلیاں میرے ہاتھوں سے اٹھنے والی سستے صابن کی بو سے اڑ جاتی ہیں.. سارے خیالات پھسل کر نالی میں بہہ جاتے ہیں۔ پھر یونیورسٹی میں بھی مجھے زندگی کبھی پیاری نہیں لگی۔ جوڑے قہقے لگاتے ہیں ہینگ آوٹ کرتے ہیں اور خوبصورت ریستورانوں میں عشائیے کا پلان بناتے ہیں۔ Lmao Btw Pov Idk Brb Lol Tbd... .... جیسی سستی شارٹ فارمز والی گروپ چیٹس میں ایک دوسرے کے ڈارک ہیومر پر سبقت لے جانے کی جدوجہد کرتے ہیں۔
تمہیں بھی جی چاہتا ہو گا کہ سیڑھیوں پر بیٹھو اور شام کو گھورتی رہو.. بسوں میں نظمیں لکھو.. سڑک کے پانی میں پاوں مارو اور فٹ ہاتھ پر بیٹھ جاو۔ ہر چیز کو (romanticize) کرتی جاو لیکن پھر کوئی بائیک تمہارے پاس رکتی ہے اور کہتی ہے ہمارے ساتھ چلو گی؟ آو نا؟ ڈرتی کیوں ہو؟...اور تم پاوں سمیٹ لو گی۔ بیرئیر کے ساتھ مزید چپک جاو گی۔ تمہارے اندر ایک خلا بن جائے گا اور تم یک دم مہذب انداز سے سفر کرنا سیکھ جاو گی۔ پہلے مجھے ہمارے اندر بننے والے اس خلا کو (visualize) کرنے میں مسلہ تھا پھر میں نے بابا کی ایکسرے رپورٹ دیکھی۔ ان کی پسلی میں ایک سوراخ نما زخم ہے بلیک ہول جیسا دکھنے والا۔ وہ مسلسل کھانستے ہیں تاکہ اس سوراخ سے زندگی کی کترن نکل جائے۔
اب جب میری صورت پیلی زرد ہے تو وہ پریشان ہوتی ہیں میں ان کے سینے سے لگ کر انہیں بتانا چاہتی ہوں کہ آج بھی میرے وجود پر نادیدہ رسیوں کی گانٹھیں ہیں اور میں ٹھنڈے فرش پر مسلسل لوٹ پوٹ ہو رہی ہوں۔ مجھے ایک جگہ پر دو بار جھاڑو لگا کر اور بستر کی چادر بالکل سیدھی بچھا کر بھی زندگی جینا نہیں آیا بلکہ میں کسان اور اس کے بیٹے کی طرح کندھوں پر اپنا گدھا اٹھا کر پہاڑی چڑھ رہی ہوں۔ میرے گھر میں کوئی گرماہٹ نہیں ہے..نشستیں اور بستر ٹھنڈے ہیں اور خواب گاہوں کے شیشے دھندلکے میں ڈوبے ہوئے..پہلے ایک کھڑکی سے آسمان نظر آتا تھا اب وہاں دیوار ہے۔ یہاں آسمان کی کوئی بھی اچھی تصویر نہیں آتی کیونکہ ہر تصویر میں تاریں ہیں۔ یہ مواصلاتی برقی ڈاکیے اور مصنوعی روشنی اپنے وجود کا کوئی مقصد نہیں رکھتے۔ انہوں نے وقت اور فاصلے کے بھیدوں کو برہنہ کر دیا ہے۔
ایک ایسی تحریر جو ہر طرح سے میری عکاسی کرتی ہے۔ ------------------💚 نیلی روشنی کا ساز! مجھے جمیلہ اپنی روحانی ماں کی طرح لگتی ہیں میں ان سے بہت محبت کرتی ہوں.. انہوں نے مجھے سکھایا کہ بلوط کی شاخوں سے گیت لپٹتے ہیں..كائنات کی گھن گرج میں روحیں کھو جاتی ہیں..بوگن ویلیا کے سرخ پھول بکھر جاتے ہیں اور کنارے کے جھاڑیوں میں ملاحوں کی آواز الجھی رہتی ہے۔ (دنیا کا سب سے بڑا سچ اختتام ہے اور یہی سب سے مشکل حقیقت ہے)۔ میرا وجود ایک ہار گلاس میں بدل گیا ہے۔ اب میرے اندر مسلسل ریت گرتی رہتی ہے بغیر کسی بھی آہٹ کے میں روز اپنے اندر سے مسمار ہوتی ہوں.. ایک بار میں نے بچپن میں کوئی غلطی کی تو میری ماں نے مجھے باندھ دیا۔ میں ٹھنڈے فرش پر رسیوں میں جکڑی پڑی تھی اور مجھے مار پڑتی رہی۔
دنیا کا کوئی دروازہ نہیں ہوتا جسے کھول کر ہم اس سے باہر نکل جائیں۔ دنیا کی صرف کھڑکیاں ہوتی ہیں، جن سے ہم باہر جھانک سکتے ہیں۔ بعض دفعہ یہ کھڑکیاں دنیا سے باہر کے مناظر دکھاتی ہیں۔ بعض دفعہ یہ اپنے اندر کے منظر دکھانے لگتی ہیں۔ مگر رہائی اور فرار میں کبھی مدد نہیں دیتیں۔ امربیل