تُنهنجي شِڪايتَ هاڻي ڪنهِن سان ڪَجي
مُون ھَر هِڪ کي چَيو هُيو توکان بِهتر ڪيرُ ناهي...
اظہار سے نہیں لگتا
پتہ کسی کے پیار کا
انتظار بتاتا ہے
کہ طلبگار کون ہے
#ميرجوادمجاھد
شخص هڪڙو ياد آيو شام جو،
مِينھن نيڻن آ وسايو شام جو.
آ سڄو ماحول گيڙُو ٿي ويو،
تو جڏهن ڪلياڻ ڳايو شام جو.
سارِي ڪينجهر ڄَڻ تماچِي ٿِي وئي،
ڪَنڌ نُوريءَ جيئن نِمايو شام جو.
جيئن پکي ٿَڪجِي ڪو آکيري ڏي اچي،
تيئن ”اختر“ گهر ڏي آيو شام جو.
ڪو ياد ڪندي ئي وسري ويو
ڪو وسري وسري ياد رھيو
ڪو پيار ڏيندي ئي وسري ويو
ڪو درد ڏيندي ئي ياد رھيو
بس ياد اچي ماضي ويو
وقت ھو ڪو گذري ويو
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا
تیرا در چھوڑ کے میں اور کدھر جاؤں گا
گھر میں گھر جاؤں گا صحرا میں بکھر جاؤں گا
تیرے پہلو سے جو اٹھوں گا تو مشکل یہ ہے
صرف اک شخص کو پاؤں گا جدھر جاؤں گا
اب ترے شہر میں آؤں گا مسافر کی طرح
سایۂ ابر کی مانند گزر جاؤں گا
تیرا پیمان وفا راہ کی دیوار بنا
ورنہ سوچا تھا کہ جب چاہوں گا مر جاؤں گا
چارہ سازوں سے الگ ہے مرا معیار کہ میں
زخم کھاؤں گا تو کچھ اور سنور جاؤں گا
اب تو خورشید کو گزرے ہوئے صدیاں گزریں
اب اسے ڈھونڈنے میں تا بہ سحر جاؤں گا
زندگی شمع کی مانند جلاتا ہوں ندیمؔ
بجھ تو جاؤں گا مگر صبح تو کر جاؤں گا
اپنے حصے کے بھی وہ غم دے گیا ہے
میری اس سے شراکت تو نہیں تھی
ڪو ٿڪجي پيو آ مسلسل سفر مان
ڪو ھارائيجي چڪو آ پنهنجي اندر مان
تون واحد شخص آهين
جنهن جي سامهون
منهنجي دل جهڪي ويندي آھي
خاموش ٿي ويندي آھي
ميڻ بڻجي ويندي آھي
وہ تیرے میرے عشق کا اک شاعرانہ دور ہی تھا
وہ میں بھی کوئی اور ہی تھا وہ تو بھی کوئی اور ہی تھی
میری طرف سے دما دم والے سب یوزر کو عید مبارک اور اسپیشلی ہنا کو
اگر صاحب علم ہو تو بتاؤ
دیدار یار نہ ہو تو عید ہو جاتی ہے۔۔؟
ہمارے اعتبار کی حد پوچھتے ہوتو!!! سنو صاحب!!!انہوں نے دن کو رات کہا!اورہم سوگئے
اس نے پہلے مجھے دریافت کیا
پھر میری ذات مٹا دی اس نے۔..
اس نے پہلے مجھے دریافت کیا
پھر میری ذات مٹا دی اس نے۔
پھر یوں ہوا کہ درد کی لذت بھی چھن گئی
ہاں ایک شخص مجھے موم سے پتھر بنا گیا
ہم گل خواب سجاتے تھے دکان دل میں
اور پھر خود ہی خریدار ہوا کرتے تھے
کوچۂ میرؔ کی جانب نکل آتے تھے سبھی
وہ جو غالبؔ کے طرف دار ہوا کرتے تھے
جن سے آوارگئ شب کا بھرم تھا وہ لوگ
اس بھرے شہر میں دو چار ہوا کرتے تھے
یہ جو زنداں میں تمہیں سائے نظر آتے ہیں
یہ کبھی رونق دربار ہوا کرتے تھے
میں سر دشت وفا اب ہوں اکیلا ورنہ
میرے ہم راہ مرے یار ہوا کرتے تھے
وقت رک رک کے جنہیں دیکھتا رہتا ہے سلیمؔ
یہ کبھی وقت کی رفتار ہوا کرتے تھے
کچھ بھی تھا سچ کے طرف دار ہوا کرتے تھے
تم کبھی صاحب کردار ہوا کرتے تھے
سنتے ہیں ایسا زمانہ بھی یہاں گزرا ہے
حق انہیں ملتا جو حق دار ہوا کرتے تھے
تجھ کو بھی زعم سا رہتا تھا مسیحائی کا
اور ہم بھی ترے بیمار ہوا کرتے تھے
اک نظر روز کہیں جال بچھائے رکھتی
اور ہم روز گرفتار ہوا کرتے تھے
ہم کو معلوم تھا آنا تو نہیں تجھ کو مگر
تیرے آنے کے تو آثار ہوا کرتے تھے
عشق کرتے تھے فقط پاس وفا رکھنے کو
لوگ سچ مچ کے وفادار ہوا کرتے تھے
آئینہ خود بھی سنورتا تھا ہماری خاطر
ہم ترے واسطے تیار ہوا کرتے تھے
پَر نکلتے ہی کترنے کی وبا پھوٹ پڑی
ایک ہی بار نہ مرنے کی وبا پھوٹ پڑی
جانے کیا بَیر تھا اِس شہر کو مجھ ایسوں سے
میرے بستے ہی اجڑنے کی وبا پھوٹ پڑی
میں وہ محرومِ عنایت ہوں کہ جس نے تجھ سے
ملنا چاہا تو بچھڑنے کی وبا پھوٹ پڑی
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain