تقدیر نے جیسے چاہا ویسے ڈھل گئے ہم ۔۔
بہت سنبھل کے چلے پھر بھی پھسل گئے ہم ۔۔
کسی نے بھروسہ توڑا تو کسی نے دل !!
اور لوگوں کو لگتا ہے بہت بدل گئے ہم
بقایا زخم ! اضافی دئیے گئے مجھ کو
میرے لئے تو تیرا انتظار کافی تھا...
نظر لگتی ہے تو لگ جائے
مرشد
ہم تو جی بھر کے تجھے دیکھے گے
میرا تجربہ تو نہیں مگر سن رکھا ہے....
یار پہلو میں ہو تو سُکھ ہوتا ہے
بڑی شفا ھے تیرے عشق میں جاناں..!!
جب سے ھوا ھے کوئی دوسرا درد نہیں ھوتا
دیکھتا تھا جسے روزانہ کی بنیاد پہ میں
ایک دو سال سے اک بار نہیں دیکھ سکا
ہوتی رہیں گی ملاقاتیں تم سے
نگاہوں سے دور ہو دل سے تو نہیں
أنکھ کھلی تو بیت چکی تھی حیات بھی
ایک خواب دیکھنے میں کئیں سال گلے۔۔۔
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا
اب تو عام دیدار یار ہوگا
سکوت تھا پردہ دار جسکا
وہ راز اب آشکار ہوگا۔۔۔