بات سجدوں کی نہیں خلوصِ دل کی ہو تی ہے اقبالؔ
ہر میخا نے میں شرابی اور ہر مسجد میں نمازی نہیں ہو تا۔
__میرے نزدیک اگر محبت میں صدق نا ہو تو وہ ایسا ہے جیسے آپ کے پسندیدہ کھانے میں نمک یا شکر کی کمی کی وجہ سے اسکا بد مزہ اور بیکار ہو جانا ۔۔۔۔یہ صدق ہی تو میرا وہ عقیدہ ہے جو تم پر ختم هوتا ہے ۔۔۔۔۔تم چاہے لاکھ کوشش کر لو مجھے حاصل کرنے کی اگر تمہاری پسلی سے نہیں نکالی گئی تو تمہارے سب جتن رائیگا ۔۔۔اور اگر میں تمہارے وجود کا حصہ ہوں تو تم لاکھ کنارے کرو مجھ سے آخر میں تمہیں مکمل میں ہی کروں گی ۔۔۔۔پھر تم کچھ نہیں کر سکتے اور نا میں ۔۔۔کیونکہ جیسے خدا نے جوڑا اسے انسان جدا نہیں کر سکتے ۔۔۔۔۔!!!
تمہیں پتا ہے ایک عقیدے کے مطابق کہا جاتا ہے کہ "ابتدائے عالَم ہی سے "آدم کا اکیلا رہنا ٹھیک نہیں تھا اس لئے اس کے واسطے ایک مددگار خلک کی جسکا نام حوا رکھا "
مجھے نہیں معلوم کہ یہ دنیا اس عقیدے کو کس نظر سے دیکھتی ہے مگر میرے نزدیک یہ عقیدہ "محبت" کا عقیدہ ہے۔جانتے ہو کہا جاتا ہے کہ حوا آدم کی پسلیوں میں سے ایک ہے یعنی اسی کے وجود کا حصہ۔میرا بھی یہی عقیدہ قائم ہے کہ اگر میں تمہاری پسلی سے نکلی ہوں تو تم تک پہنچ جاؤنگی_پھر چاہے تم سات سمندر پار ہو یا میں دور کسی گاؤں کی بہتی ندیوں کے پار_بھلے ہی تم مجھ سے کتنی ہی جان چھڑاؤ یا میں کتنا ہی تم سے دور ہو جاؤں تو بھی میں تم تک رسائی حاصل کر ہی لوں گی ۔۔۔اگر میں تمہاری پسلی سے نکلی ہوں تو تمہیں مکمل هونا لازمی ہے_میرے نزدیک اگر محبت میں صدق نا ہو تو وہ ایسا ہے جیسے آپ کے پ
سمجھے گا آدمی کو وہاں کون آدمی؟
بندہ جہاں خدا کو خدا مانتا نہیں
صبا اکبر آبادی
سب فسانے ہيں،،،،،،،،،،،،،،،،، دنیا داری کے
کس نے،،،،،،،،،،،،،،،، کس کا سکون لوٹا ہے
"سچ" تو یہ ہے کہ،،،،،،،،،،،، اس زمانے میں
میں بھی "جھوٹى" ہوں، تُو بھی "جھوٹا" ہے
سناہے اس کو بھی ہے شعرو شاعری کا شغف
سو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے رات اسے چاند تکتا رہتا ہے
ستارے بامِ فلک سے اُتر کے دیکھتے ہیں
بچھڑنے والوں کو یہ بات کون سمجھائے.........
دوبارہ لوٹ کے آنے میں عُمر لگتی ھے..........
میرے ورگا تیرا حال وی ہو سکداے،
ایہ سارا کُجھ تیرے نال وی ہو سکداے۔
میری من تے میریاں ساہواں لیندا جا،
اگلے شہر ہوا دا کال وی ہو سکداے۔
رخت گریز گام سے آ گے کی بات ہے
دنیا فقط قیام سے آگے کی بات ہے
تو راستے بچھا'نہ چراغوں کی لو تراش
یہ عشق اہتمام سے آگے کی بات ہے
خوش دعوتِ یاراں بھی ہے ۔۔۔ یلغارِ عدو بھی
کیا کیجیے دل کا ۔۔۔ جو کم آمیز بہت ہے
فیض احمد فیض
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ
فیض احمد فیض
ان گنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم
ریشم و اطلس و کمخاب میں بنوائے ہوئے
جا بہ جا بکتے ہوئے کوچہ و بازار میں جسم
خاک میں لتھڑے ہوئے خون میں نہلائے ہوئے
جسم نکلے ہوئے امراض کے تنوروں سے
پیپ بہتی ہوئی گلتے ہوئے ناسوروں سے
لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجے
اب بھی دل کش ہے ترا حسن مگر کیا کیجے
مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ
میں نے سمجھا تھا کہ تو ہے تو درخشاں ہے حیات
تیرا غم ہے تو غم دہر کا جھگڑا کیا ہے
تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات
تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے
تو جو مل جائے تو تقدیر نگوں ہو جائے
یوں نہ تھا میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
اگر قدرت کورونا وائرس کے ذریعے کافروں سے انتقام لے رہی ہے تو ہر سال گرمیوں میں ڈینگی، برسات میں سیلاب، جاڑے میں برفانی تودے، بارشوں میں لینڈ سلائیڈنگ اور زلزلے یہ سب ہم مسلمانوں پر ہی کیوں آتے ہیں ہم تو خود کو قدرت کے چہیتے سمجھتے ہیں۔
ہمیں بجائے خوشیاں منانے کے اجتماعی طور پر اس بیماری سے اپنے لیے اور چینیوں کے لیے بھی پناہ مانگنی چاہیے۔ یہ مسائل انسانوں کی صلاحیتوں کہ آزمائش ہوتے ہیں۔ ان سے مل جل کر مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ وگرنہ 1720 کا چکن پاکس اور طاعون ،1820 کا ہیضہ اور ٹائیفائیڈ 1920 کے طاعون (پلیگ) کی طرح 2020 کا کورونا وائرس چھ کروڑ سے زائد لوگوں کو مار کر تاریخ میں موٹے حرفوں درج ہو جائے گا۔
~سردار عمار بیگ
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ وائرس کے ہاں کسی مزہب کی کوئی تمیز ہے نہ رنگ و نسل کی۔ اور اگر اللہ نے ایسا ہی عذاب دینا ہے تو چین میں اوسط عمر 76 سال ہے اور پاکستان میں 66 برس ہے ۔ یعنی یہ لوگ ہم سے دس سال زیادہ اللہ کی نعمتوں کا لطف اٹھاتے ہیں۔ اسی طرح جاپان میں 84 برس،سویٹزر لینڈ اور اسپین 83 برس،آسٹریلیا،سنگاپور،اٹلی، کینیڈا اور فرانس میں 82 برس جبکہ امارات اسلامیہ افغانستان میں 62 برس ہے۔ اول الذکر تمام ممالک حرام چیزیں کھاتے ہیں، بے حیا ہیں، لہو و لعب میں پڑے ہیں، شراب پیتے لیکن کیا وجہ ہے کہ ان سے بدلہ نہیں لیا جاتا ہے
ادھر ہمارے وطن عزیز میں خوشی کی لہر چلی ہوئی ہے جس میں اس وائرس کو خدائی نُصرت اور کافروں سے مسلمانوں کے انتقام جیسے بیوقوفانہ تبصرے ہو رہے ہیں۔ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ چینی عورتیں نقاب نہیں کرتی تھی لہذا اب سزا کے طور پر ان کے مردوں کو بھی نقاب کروا دیا گیا ہے۔
ایک رائے یہ بھی ہے کہ چینی ناشتے میں اڑتی چمگادڑیں پکڑ کر انکا خون پی لیتے ہیں اور لنچ میں چوہے، بچھو ،سانپ وغیرہ بُھون بُھون کے کھاتے ہیں جبکہ ہم اصلی حلال مرغ مسلم کو شہید کر کے مرغے کی شہادت کا ثواب اور ٹانگ کا گوشت دونوں حاصل کرتے ہیں لہزا یہ وائرس جانے اور چینی جانیں۔ مریں سڑیں ہمیں کیا لینا دینا۔ ہم مسلمانوں کا کسی نے کیا بگاڑ لینا ہے۔
اس ہولناک بیماری کا ابھی تک کوئی علاج یا ویکسین مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہے۔ چین اور آسٹریلیا میں سائسدانوں کو اس کی ویکسین بنانے میں کسی حد تک کامیابی ہوئی ہے مگر یہ ابھی تجرباتی عمل سے گزر رہی ہیں لہذا اس سے بچاو ہی واحد راستہ ہے۔ کھانسنے چھینکنے کے لیے ماسک(N95 زیادہ بہتر ہے)کا استعمال۔ ہاتھوں کو اچھے سے صابن سے دھونا، رش والی جگہ سے پرہیز،خوراک کو اچھے سے تیز حرارت پر پکا کر کھانا، غیر ضروری سفر سے پرہیز اور کورونا وائرس سے متاثر شخص سے کسی قسم کے جسمانی لمس یا اس کی استعمال شدہ چیزوں کے استعمال میں احتیاط سے اس بیماری سے بچنا ممکن ہے۔
چین نے اس طبی آفت کے ساتھ نمٹنے کے لیے صحت کی بہترین سہولیات کے ساتھ ساتھ اعلی ترین انتظامی اقدامات کیے ہیں۔
یہ آپ کے نظام تنفس یعنی ناک،حلق اور پھیپھڑوں پر حملہ کرتا ہے اور خاص قسم کا نمونیا کرواتا ہے۔ پہلے پہل آپ کو بخار، گلے میں درد، ناک بہنے، شدید کھانسی اور سانس لینے میں دشواری کی شکایت ہوتی ہے۔ اگر تین سے پانچ دنوں میں یہ ٹھیک نہ ہوں تو وائرس نظام تنفس کے نچلے حصوں یعنی پھیپیڑوں میں پھیل کر نمونیا کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اس کا زیادہ شکار کمزور قوت مدافعت والے اور عمر رسیدہ لوگ بنتے ہیں۔ یہ آپ کے گردوں میں بھی جا سکتا ہے اور اگر علاج نہ کیا جائے تو گردے ناکارہ کرنے میں دیر نہیں لگاتا۔
یہ مرض متعدی ہے۔ یعنی یہ ایک جاندار سے دوسرے تک پھیلتا ہے۔ یہ جانوروں اور انسانوں دونوں کو متاثر کرتا ہے۔ انسانوں میں یہ عام نزلے کی طرح ہوا میں پھوار کی صورت میں پھیلتا ہے۔ اس کے علاوہ منہ کے راستے دخول کے بھی شواہد ہیں۔ چھینکنے، کھانسنے، متاثرہ شخص سے ہاتھ ملانے، معانقہ کرنے، لباس اور تولیہ وغیرہ استعمال کرنے حتی کے متاثرہ شخص کے دروازہ کھولنے کے بعد اگر آپ ننگے ہاتھوں اسی دروازے کو پکڑ لیں تو آپ پر بھی یہ وائرس حملہ آوور ہو سکتا ہے۔
کورونا وائرس گلے کی اوپری جِھلی پر اپنا نشیمن بناتا ہے۔ اگر گلہ تر ہو تو اس کے قدم اچھے سے جم نہیں پاتے۔ یہ اس کے سوکھنے کا انتظار کرتا ہے۔
7 جنوری 2020 کو اس بات کی تصدیق ہوئی کہ یہ کورونا وائرس کی ایک قسم ہے جو اس قسم کی اموات کا باعث بنا ہے۔اسے نوول (Novel)کورونا وائرس 2019 کا نام دیا گیا۔جب تک اس وائرس کی نشاندہی ہوتی تب تک صوبہ وہان کے باسی سارے چین اور کچھ دوسری ممالک میں بھی پھیل چکے تھے۔
کورونا وائرس آتشِ بَن کی طرح پھیل رہا ہے۔ابھی تک دنیا کے نو سے زائد ممالک جن میں امریکا،تھائی لینڈ،کوریا جاپان، ویت نام، سنگاپور وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ چین کے چالیس صوبوں میں آٹھ سو سے زائد اور چین کے زیر انتظام ہانگ کانگ اور تائیوان میں بھی کچھ کیس سامنے آچکے ہیں۔ چین کو اس وقت طبی ایمرجنسی کا سامنا ہے۔پاکستان کے دو شہروں ملتان اور لاہور میں مبینہ طور پر کورونا وائرس سے متاثر چار افراد کی نشاندہی ہوئی ہے۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain