میرے عشق کو نِڈھال کر کبھی ہجر کو بھی وِصال کر مجھے دَرس دے تُو فنا کا میرا عشق میں بُرا حال کر مجھے دے سزا کوئی سخت سی مجھے اِس جہاں میں مثال کر میری اصل صورت بگاڑ دے کسی عشق بھٹی میں ڈال کر تیری طلب میں ہوں مَیں در بدر کبھی اِس طرف بھی خیال کر!
یہ تیرے شہر سے آتی ہوئی ٹھنڈی ہوا.. تیرے بیمار کو بستر سے اٹھا دیتی ہے.. میں اتنی بار تجھے دن میں سوچتا ہوں پیا.. کہ جتنی بار اک ماں بیٹے کو دعا دیتی ہے.. تیری دوری سے مفلوج یہ جسم و جاں.. تیرے اک لمس کی چاہت کو ہوا دیتی ہے..