سکونِ قلب کا سامان بنتے جا رہے ہیں وہ دل کی سیج پر مہمان بنتے جا رہے ہیں نہیں اٹھتیں کیوں ان کے روبرو نظریں ہماری سمجھتے ہیں مگر انجان بنتے جا رہے ہیں بندھی تو ہے ذرا ڈھارس ہماری بے کلی کو انہیں ملنے کے کچھ امکان بنتے جا رہے ہیں جو میری آبرو ہیں ، جان بھی ہیں ، زندگی بھی وہ میری چاہتوں کی شان بنتے جا رہے ہیں بہاروں کی مجھے دستک سنائی دے رہی ہے وہ اچھے وقت پر ایمان بنتے جا رہے ہیں خدا جانے ہمارے دل کو یہ کیا ہو گیا ہے کبھی انجان تھے جو ، جان بنتے جا رہے ہیں تمہیں اس موج میں لے جائیں گے اک دن بہا کر کہ ہم جذبات کا طوفان بنتے جا رہے ہیں سخن ور کر دیا ہے گل کو ان کی چاہتوں نے مرے دیوان کا عنوان بنتے جا رہے ہیں