اک عمر سے فریب سفر کھا رہے ہیں ہم معلوم ہی نھیں کہ کہاں جا رہے ہیں ہم یوں گرد سے اٹے ہیں کہ پہچان مٹ گئی لیکن یہ وہم ہے کہ جلا پا رہے ہیں ہم بنیاد پختہ کا تو نا آیا کبھی خیال چھت جھکتی آرہی ہے تو پچھتا رہے ہیں ہم برسوں سے انتظار ہے اک نخل سبز کا آب حیات ریت پہ ٹپکا رہے ہیں ہم یہ سوچتے ہیں ٹوٹتے تاروں کو دیکھ کر منزل سے رفتہ رفتہ قریب آرہے ہیں ہم اک دائرے میں گھومتے پھرتے رہے ندیم اس وہم میں مگن کہ بڑھے جا رہے ہیں ہم