زندگی میں ایک دفعہ ہدایت کا مل جانا ایک دفعہ اللہ کا احساس ہو جانا ایک دفعہ اللہ کو رب کے مقام پہ بٹھا دینا اس بات کی گارنٹی نہیں ھے کہ ہم ہمیشہ اپنے اس سٹیٹس پہ قائم رھیں گے۔۔۔اس کے لیے تو مسلسل جدوجہد مسلسل اللہ سے جڑے رہنا مسلسل اللہ کی ربوبیت کو یاد رکھنا ہوگا
میری آنکھوں میں آنسو آگئے،
جب اللہ نے مجھ سے پوچھا !
"الَستُ بِربکُم" کیا میں تمہارا رب نہیں؟
میں نےکہا:"بلا" بے شک آپ ہی ہیں۔
اس پر اللہ نے بڑے لاڈ سے کہا:
"فاَینَ تَذھَبُون" تو پھر کدھر جارہےہو مجھے چھوڑ کر؟
کیا کوئی انسان تمہیں مجھ سے زیادہ محبت دے سکتا ہے؟ کیا یہ دنیا مجھ سے زیادہ تمہیں نوازتی ہے؟
کیا دیکھتے نہیں جو فرشتے تمہارے کیے ہوئے گناہ میرے پاس لاتے ہیں تو میں انہی کے ہاتھوں تمہارا رزق
بھیج دیتا ہوں۔
آپکا پریشان کرنے والا بچہ کٸی بانجھ لوگوں کا خواب ہے۔
دنیا میں کتنے ہی ایسے لوگ ہیں ۔جنہوں نے ساری زندگی ایک لفظ نا بولا اور نا سنا
آپکی خوشی کٸ اداس لوگوں کا خواب ہے۔آپکا تھوڑا سا پیسہ کٸ قرض دار لوگوں کا خواب ہے۔آپکے گھر میں موجود فریج' ٹیوی'اے سی اور گاڑی جیسی سہولتیں ہیں خداٸی کا دعویٰ کرنے والے نمرود کے پاس بھی نہ تھیں! روٹی کا نوالہ آپ پیسے سے نہیں کھاتے بلکہ قسمت سے کھاتے ہیں اور خدا کی مرضی نہ شامل ہو تو وہی نوالہ آپکی جان بھی لے سکتا ہے۔
تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاٶ گے؟آج ہی اپنا جائزہ لیجیے
ورنہ آنے والا کل ہر گھر کی یہی کہانی ہوگی ۔اور ہماری آنے والی نسلیں کفر سے بھی زیادہ بدتر کہلایں گیں۔
فحاشی عروج پر ہے تمام چینلز کا باٸیکاٹ کریں ۔
ہماری نوجوان نسل کو ان پرایویٹ چینلز نے تباہی کے داہانے پے لا کھڑا کر دیا ہے
ایسے چینلز اور پروگرام کے خلاف عدلیہ فوری ایکشن لے ۔
اپنے ڈرامے دیکھو
جَلن" میں بہن اپنے بہنوئی پر فدا عشقیہ" میں بہنوئی سالی پر فدا۔
دیوانگی " میں باس اپنے ملازم کی بیوی پر فدا ،
پیار کے صدقے " میں سسر اپنی بہو پر فدا ،
دلربا میں لڑکی کا ایک ساتھ پانچ افراد کے ساتھ عشق ،
کیا یہ سب ہمارا کلچر ہے۔؟
یا پھر یہ رائیٹرز ۔ پروڈیوسر ۔ ڈاریکٹرز.
کے اپنے گھروں کا کلچر ھے یہ یا انکے خاندان کا.
پاکستان میں رہنے والا سفید پوش اور عزت دار بندہ
اپنی ماں بہن بیٹی بھو کے ساتھ ایسے ڈرامے نہیں دیکھ سکتا ۔۔
ہم سب کو ایسے ڈرامے پیش کرنے والے چینل کے خلاف آواز اٹھانی ھے ۔

لڑکیوں میں بھی ایسی لڑکیاں ہونگی جو اپنے ناجائز مقاصد کے لئے لڑکوں کو۔انبکس کریں پر وہ اٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ مرد زیادہ ملوث ہیں اس بے حیائی اور برے فعل میں۔۔۔۔۔
اللہ پاک سب کو ہدایت نصیب فرمائے۔سب کو حیاء اور شرافت نصیب فرمائے بے حیائی کئی برایوں کی جڑ ہے اللہ پاک ہمارے معاشرے کو اس لعنت سے پاک کرے امین ثم امین۔۔۔۔
لیکن میں لڑکیوں کے رد عمل کو سراہتی ہوں کہ نا صرف وہ ان کی افر کو ٹھکراتی ہیں بلکے انھیں بلاک کر کے ان کے منہ پر چپیڑ مارتی ہیں کہ ہر لڑکی ایسی نہیں ہوتی۔اور ایسا کر کے نہ صرف وہ اپنی اچھی تربیت اور اللہ پاک سے محبت کا ثبوت دیتی ہیں بلکہ وہ بے حیائی کا ایک پورا باب ختم کر دیتی ہیں جو معاشرے کے لئے زہر قاتل ثابت ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔۔ ان سب باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فیس بک استعمال کرنے والے ایسے حوس پرست مرد عورتوں سے زیادہ ناقص العقل اور بے وقوف ہیں اللہ پاک ایسے لوگوں کو ہدایت نصیب فرمائے اور اس برے فعل کو ترک کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔۔۔۔۔
لیکن فیس بک پر صورت حال بلکل اس بات کے مخالف ہے اور یہاں پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مرد ناقص العقل اور بیوقوف ہیں۔کیونکہ بیوقوفی کا تقاضا تو یہ تھا کہ عورتیں اور لڑکیاں مردوں کو انبکس کرتیں اور الٹا مرد ان کو سمجھاتے کہ دیکھو ایسا نہیں کرو اپنی اور اپنے والدین کی عزت کی حفاظت کرو۔۔۔۔مگر یہاں تو معاملہ ہی الٹا ہے عقل والے کم عقلوں کو انبکس کر کے دوستی کی یا محبت کے نام پر ناجائز تعلقات کی افر کرتے ہیں۔۔۔۔۔اور اتنا بھی نہیں سوچتے کہ اگر ہماری بہن بیٹی کے ساتھ کوئی ایسا کرے تو ہمیں کیسا محسوس ہوگا؟؟ افسوس کا اور سوچنے کا مقام ہے۔فیس بک استعمال کرنے والی لڑکیاں ایسے حوس پرستوں کو اتنی سستی نظر اتی ہیں کہ جانے پہچانے بغیر وہ دوستی یا حرام تعلق کی افر دینگے اور لڑکی قبول کر لے گی۔ حالانکہ یہ ایسے مردوں کی غلط فہمی ہے۔
یہ پوسٹ صرف ان لڑکوں اور مردوں کے لئے ہیں جو ایسے بے حیائی کے کام کرتے ہیں۔سب ایک جیسے نہیں ہوتے جیسے پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہیں۔
ہمارے معاشرے میں ایک بات مشہور ہے کہ عورت ناقص العقل ہے۔کوئی تو بہت ہی گھٹیاں الفاظ استعمال کرتے ہیں۔جیسے کہ گندی بوٹی۔بیوقوف پاوں کی جوتی وغیرہ اور اس سب سے بڑھ کر احمقانہ اور جاہلانہ جملہ کہ عورت ذات اس میں تو تقریبن سب ہی عورتیں ا گئ نعوذ باللہ۔۔۔۔۔
بلکل اس میں کوئی شک نہیں کہ عورت کی عقل مرد کی نسبت کچھ کم ہے لیکن اس میں بھی اللہ پاک کی کچھ حکمتیں ہیں مرد کی زمہ داریاں زیادہ ہیں اس لئے وہ ذہنی اور جسمانی قوت میں عورتوں کی نسبت زیادہ ہے۔مگر اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ ایسے ناذیبا الفاظ استعمال کئے جاہیں۔
انسان اپنے اندر پائے جانے والے اوصاف کی خوشبو کسی دوسرے میں محسوس کرتا ھے تو اسکی طرف مائل ہونا شروع ہوجاتا ھے اور اس سے بات کرنا اسے دیکھنا اور اس سے ملنا اسے اچھا لگتا ھے اسے یہ لگتا ھے یہ میرا اور میں اسکا ہوں دراصل وہ خود کو اس میں اور اپنے آپ میں اسکو دیکھتا ھے۔
اور ہر جگہ اسکی کمی کو محسوس کرتا ھے اور وہ چاہتا ھے کہ وہ ہر پل مجھ سے راضی رھے اسی کیفیت کو زمانے والے عشق کہتے ہیں
ایک بار حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ سے کسی نے پوچھا عشق کیوں ہوتا ھے؟
کسی انسان کو کوئی انسان اتنا اچھا کیوں لگتا ھے کہ اسکے سامنے ساری کائنات کچھ نہیں لگتی؟
امام جعفر صادق رضی اللہ نے جواب دیا میں نے اپنے بابا سے اور انہوں نے اپنے بابا سے اور انہوں نے اپنے بابا سے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہتے سنا ہر انسان کے اندر الله تعالى کی کوئی نہ کوئی صفت ضرور موجود ہوتی ھے
کوئی رحم دل ہوتا ھے کوئی سخی ہوتا ھے تو کوئ عادل ہوتا ھے کوئی شجاع ہوتا ھے
بحث کر کے ہم کسی سے لڑائی تو لے سکتے ہیں لیکن علم نہیں لے سکتے کیونکہ علم لینے کیلئے سوال ضروری ہے اور ہم اکثر سوال کرنے سے ہی ڈرتے ہیں اسی لئے بحث کرتے ہیں اور یہ اونچے درجے کی جہالت ہے کیونکہ قرآن کہتا ہے جس بات کا تم علم نہیں رکھتے اس کے بارے میں علم والوں سے پوچھو علم میں کبھی خداری کام نہیں آتی عاجز ہونا ہی پڑتا ہے ورنہ آپ علم سے ہمیشہ ہی محروم رہتے ہیں۔۔
خون کے آنسو نکلتے ہیں
جب کوئی لڑکا کسی بہن سے بے وفائی کرتا ہے ٹائم پاس کرتے ہیں اپنا مطلب نکالتے ہیں دل بہت جلتے بندہ ان لوگ کیا کہے اور کیا کریں
آپ تھک جاتی ہیں۔
آپ میں سے “اپنا آپ” کھویا ہوا محسوس ہونے لگتا ہے۔
زندگی وہی لگی بندھی کھلانے، پہنانے، دھونے دھلانے میں غرق ہوتی لگتی ہے۔
نماز قرآن کے لئے دوڑے بھاگتے آتی ہیں۔
باقیوں کو دیکھ کر خود کو ملامت کرتی ہیں۔
آپ تھک رہی ہیں۔ میں سمجھ سکت ہوں!
لیکن بس دعا کرتی جائیے کہ یہی اولاد آپکے سینے کی ٹھنڈک بنے۔ متقیوں کی امام بنے۔ آپکی تھکن اتر جائے۔ فی الحال کچھ وقت یوں گزرے گا، پھر ٹھیک ہو جائے گا سب
آپ بہت بڑا کام کر رہی ہیں۔ آپ بہت ہی مشکل کام کر رہی ہیں۔ خود کو کندھے پر تھپکی دیجیے۔ مسکرائیے۔ خود پر فخر کیجیے۔ اور بھاگ دوڑ زندگی میں سے کھینچ تان کر چند لمحے روزانہ کی بنیاد پر اپنے لئے جمع کیجیے۔ ان لمحوں میں اپنے اندر کو زندہ رکھیے۔ آپ ماں ہیں۔ آپ “آپ” بھی ہیں۔ خود میں سے خود کو کھونے نہ دیں۔
انسان کا بچہ پالنا کوئی آسان کام نہیں۔ رات بھر بچے کو کبھی دودھ چاہیے، کبھی باتھ روم لے کر جانا ہے۔ کبھی کمبل ٹھیک کروانا ہے۔ کبھی کوئی ڈراؤنا خواب اور وہ ماں کا قرب چاہتا ہے۔ دن بھر انکے پیچھے بھاگنا۔ ان گنت بار کی سمجھائی ہوئی بات پھر سے سمجھانا۔ بہن بھائیوں کے نہ ختم ہونے والے جھگڑوں پر منصف بنے رہنا۔ ایک کو کچھ کھانا ہے اور دوسرے کو کچھ اور۔ کبھی فرش پر دودھ گرا دیا ، کہیں کھلونے کمرے میں بکھیر دیے۔ کسی دیوار پر نقش نگاری کر دی، کسی میز پر نشان ڈال دیا۔
مشکل ہے۔
ہیں، اگلی سانس آئے گی کہ نہیں اور کل صبح آپ زندہ و جاوید جاگیں گے یا پھر کسی مسجد سے میرے آپکے جنازے کا اعلان نہیں ہو رہا ہوگا میرے رب کے علاوہ کوئی بھی نہیں جانتا۔ اس لیے جو کہتے ہیں کہ جوانی کو بڑھاپے، زندگی کو موت سے پہلے غنیمت جانیں. زندگی میں رب کی طرف لوٹ چلیں۔۔۔۔ سانسوں کی مہلت ختم ہونے کے بعد تو عمل کا موقع نہیں ملے گا۔۔۔۔۔ ·
قبروں میں ایسےلاتعداد نوجوان دفن ہیں جنہوں نے بڑھاپے میں توبہ کرنی تھی اورایسے بھی بے شمار ہیں جنہوں نے کل سےنماز شروع کرنی تھی، جنہوں نے کل کسی کو معاف کرنا تھا، جنہوں نے کل سے ماں باپ کی خدمت کرنی تھی اور جنہوں نے کل اپنی بہن کا اور بیٹی کا مارا ہوا حق وراثت ادا کرنا تھا، جنہوں نے کل کسی یتیم کا کھایا ہوا مال واپس کرتا تھا اور جنہوں نے کل توبہ کرنی تھی۔پرسانس وہی ہے جو آپ نے لے لی اور دن وہی ہے جو آپ جی رہے
وہ جب تمہاری دُعاؤں کو قبولیت کے لیے چُن لیتا ہے تب وہ تمہارے دل میں دُعا کا خیال بھی خود ہی ڈال دیتا ہے۔
تم سوچتے ہو کے جو مانگ رہے ہو وہ کیسے قبول ہوگا ؟
اور وہ تمہیں خبر ہی نہیں ہونے دیتا کے اس نے تمہیں ہی تمہاری دُعاؤں کی قبولیت کا وسیلہ بنا دیا۔ تم نصیب اور وقت سے لڑتے ہو یہ سوچے بنا ہی کے نصیب لکھنے کا اختیار تو اللّٰہ پاک نے تمہیں دے رکھا ہے کے اپنی دُعاؤں سے جب چاہو جو چاہو بدل ڈالو۔
جو دُعا چاند کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کر کے اُسے اپنی جگہ سے سرکا سکتی ہے تمہیں لگتا ہے کے وہ تمہارا مُقدر نہیں بدل سکتی؟
تمہاری دُعائیں وہ سب کرسکتی ہیں جو تم نہیں کر سکتے
ضرورت اس امر کی ہے کہ والدین ہی اپنے بچوں کی تربیت پر توجہ دیں، بچوں کی تربیت اس انداز میں کی جائے کہ اگر وہ نظروں سے اوجھل بھی ہوں تو معاشرے کی آلودگی ان کو متاثر نہ کر سکے۔
*آپ نے اپنے بچوں کو سب کچھ دیا ہے لیکن تربیت نہیں کی تو کچھ نہیں دیا اور یتیم چھوڑ کر جا رہے *ہیں* ۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain