پروش نہ ہونے کا اتنا نقصان نہیں ہوتا جتنا تربیت نہ ہونے کا نقصان ہے، بچے کی پروش مسئلہ ایک وقت تک ہے لیکن بچے کی تربیت نہ ہونے سے صرف بچہ ساری زندگی نقصان نہیں اٹھائے گا بلکہ پورہ معاشرہ اس کے نقصانات اٹھائے گا۔
اس لئے کہاں جاتا ہے کہ” *یتیم وہ ہے جس کے والدین نے اس کی تربیت نہ* *کی ہو* “۔ المیہ یہ ہے کہ والدین بچے کی تربیت کی ذمہ داری استاد پر ڈال کر خود بری ذمہ ہو جاتے ہیں، حالانکہ استاد تعلیم دے سکتا ہے، لیکن تربیت والدین ہی کر سکتے ہیں اور ان کی ذمہ داری ہے۔ والدین تعلیم اور فن پر اپنی بساط سے بڑھ کر خرچ کرتے ہیں، لیکن تربیت پر خرچ نہیں محنت کی ضرورت ہے جو غریب اور امیر دونوں کی طاقت میں ہے۔
ایسے ہی آج کل ہم اپنے بچوں کے ساتھ کر رہے ہیں، ہم اچھی غذا، لباس، اپنی حیثیت سے بڑھ کر اسکول اور بعض اوقات اسکول کے بعد ٹیوشن، بیماری کی صورت میں اچھے سے اچھے ڈاکٹر کو چیک اپ اور ہر جائز وناجائز خواہش کی تکمیل کو پورا کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے فرض ادا کردیا، حالانکہ بچوں کو ہم اپنی حیثیت کے مطابق اسکول، لباس، غذا ضرور مہیا کریں، لیکن *ان بچوں کی اصل ضرورت ان کی بہترین تربیت ہے جو والدین کا فریضہ اور بچوں کا حق ہے، جو امیر وغریب* *ہر کوئی کر سکتا ہے تو یہ بچے کی* *دنیا اور آخرت دونوں جہان* *کی زندگی بنا د*گا* ۔‘‘
جیسے بچوں کی پروش والدین کا فریضہ ہے اس سے بڑھ کر والدین کا فریضہ بچوں کی تربیت کرنا ہے
ہم بچے نہیں پالتو جانور پال رہے ہیں، ایک تعلیم یافتہ شخص کے منہ سے یہ بات سن کر عجیب لگا اور استفسار سے ان کی طرف دیکھا تو گویا ہوئے۔
کہ ہم پالتو جانوروں کو اپنے گھر میں اچھی جگہ پر رکھتے ہیں، عام جانوروں کے ساتھ باڑے میں نہیں باندھتے، اچھی غذا دیتے ہیں، اگر بیمار ہوجائے تو اچھے ڈاکٹر کو چیک کرواتے ہیں، جبکہ عام جانور اگر بیمار ہو جائے تو پہلے پہل ٹوٹکے آزمائے جاتے ہیں، حالت زیادہ بگڑنے پر ڈاکٹر بلانے کی زحمت کی جاتی ہے۔
انسان کو خوش رہنا چاہئے
خوش رہنے میں پیسے تو نہیں لگتے
بس دل کو سمجھانا ہوتا ہے
جو ہوگیا اس میں کوئی مصلحت ہوگی اللہ کی
کوئی سبق ہوگا
اور جو ہوگا ان شا اللہ بہتر ہی ہوگا
بس یہ بات مجھے اداس نہیں ہونے دیتی
مایوسی تو گناہ ہے.گناہِ کبیرہ
ایسا میں کیسے کر سکتا ہوں کہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہو جاؤں
میں ہر روز رب سے بات کرتی ہوں
اور وہ روز جواب دیتا ہے کہ صبر کرو.کبھی کہتا ہے مایوس ناں ہو میں ساتھ ہو اور جب بہت زیادہ اداس ہوں تو وہ کہتا ہے کہ
"ان قریب میں تمہیں اتنا دو گا کہ تم خوش ہو جاؤ گی "
میں سوال اٹھاتی ہوں کب مولا
وہ کہتا ہے
"ہو سکتا ہے وعدے کا وقت قریب ہو"
میں کہتی ہوں میرے اللہ آپ کا وعدے میرء حق میں کیسا ہو گا
تو وہ کہتا ہے کہ
"تمہاری بعد میں آنے والی زندگی تمہاری پہلے والی زندگی سے بہتر ہو گی ..
_شہزادیاں ہیں وہ لڑکیاں جو کسی کی محبوبہ بننا نہیں بلکہ شریک حیاتِ بننا پسند کرتی ہیں
_دنیا کے دکھ تو کبھی نہ کبھی ختم ھو جائیں گے لیکن اللّٰہ کی نافرمانیوں کے صلے میں جو دکھ آخرت میں ملیں گے وہ کبھی بھی ختم نہیں ہوں گے*_
_*سوچ ،سمجھ کر اللّٰہ کی نافرمانیوں والے کاموں کی طرف جائیں فرشتے لکھ رہے ہیں اور اللّٰہ دیکھ رہا ہے
اپنی زندگی میں دوسروں کیلئے گنجائش پیدا کرنا سیکھیں ..... صبر, محبت, اخلاق, عفودرگزر اور معاف کرکے
اللہ کو وہ ہاتھ پسند ہیں جو گرتے کو تھام لے.
دوپٹہ عورت کی عزت ہوتا ہے
اگر عورت خود اس عزت کو اپنے سر سے اتار دے تو پھر کوئی مرد اسے کیسے عزت کی نگاہ سے دیکھے گا
جب پوری دنیا آپ سے رخ موڑ لے تو صرف
آپ کی ماں آپ کے لیے کھڑی رہتی ہے ۔۔
لاکھوں سلام ہو آپ پر والدہ
اگر عورت کسی ایسے مرد سے نکاح کرتی ہے جو نماز نہیں پڑھتا ، یا مرد ایسی عورت سے شادی کرتا ہے جو نماز نہیں پڑھتی ہے ، تو ان دونوں کے درمیان نکاح باطل ہے اور عورت کو اجازت نہیں ہے۔ کیونکہ نماز کی ترک کفر ہے
جس کا ثبوت اللہ کی کتاب ، اور اس کے رسول الله صلى الله عليه وسلم کی سنت ، اور صحابہ کرام رضي الله عنهم کے اقوال میں موجود ہیں
اسی بنا پر ، کسی مسلمان عورت کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اس شخص سے شادی کرے جو نماز نہیں پڑھتا ہے ، اور مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ ایسی عورت سے شادی کرے جو نماز نہیں پڑھتی ہے(ابن_عثيمين_رحمه_الله)
اے اللہ ہمسفر ایسا دینا جو تیری راہ سے غافل نہ کرے(آمین)
بچیاں کونسا لٹریچر پڑھ رہی ہیں، ٹی وی، لیپ ٹاپ موبائل وغیرہ پر کیا دیکھ رہی ہیں، اس پر نظر رکھیں. ایسے طریقے موجود ہیں کہ آپ بچوں کے لیپ ٹاپ اور موبائل کی ہر خبر رکھ سکیں اور انہیں پتہ بھی نہ چلے. ان طریقوں کو ماہرین سے سیکھیں. ٹیکنالوجی میں بچوں سے ایک سٹیپ آگے رہنے کی کوشش کریں. لیکن بچوں کو ہرگز علم نہ ہو کہ انکی مانیٹرنگ ہو رہی ہے. بھاڑ میں گیا انگریزوں کا "پرائیویسی" کا درس.
یہ خبیث بچوں کو پرائیویسی کے بہانے والدین سے الگ کرتے ہیں اور پھر اس پرائیویسی کے دوران ان کے ذہنوں میں اپنی کتابوں اور میڈیا کے ذریعے زہر انڈیلتے ہیں اور ہم جنسیت کو ایک نارمل انسانی رویہ باور کرواتے ہیں.
آجکل ہر دوسرے بیسٹ سیلر ناول میں الحاد اور ہم جنسیت کی تعلیم ہے. ان دونوں کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے.
اپنی بچیوں کو انکی سہیلیوں سے دوستی میں حد سے نہ گزرنے دیں.
انکے گھر رات گزارنے کی اجازت بالکل نہ دیں.
اس قسم کے جملوں پر فوراً متنبہ ہو جائیں:
میں تو اس سے اپنی جان سے بھی زیادہ محبت کرتی ہوں.
میں تو اسکے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی.
اسی طرح سہیلی کے حسن کی حد سے زیادہ تعریف پر بھی کان کھڑے کر لیں.
حتی کہ انکی استانیوں کی ان میں غیر معمولی دلچسپی پر بھی شک کریں. کئی کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جن میں استانیوں نے اپنی سٹوڈنٹ لڑکیوں کو ورغلا کر جنسی تعلق قائم کیا.
بالخصوص گرلز ہاسٹلز میں یہ وباء بہت عام ہو چکی ہے.
بات یونیورسٹیوں اور کالجز سے ہوتی ہوئی اب سکولز تک آ چکی ہے.

آو پیاری بہنوں اپنی ذات کو ایسا تراشنیں کی کوشش کریں کہ ہمیں دیکھ کر دوسروں کو رب یاد آ جائے
شروعات اپنے آپ سے کرنی ہے ہم نے پہلے خود کو بدلنا ہے پہلے اپنے نفس کے خلاف جہاد کرنا ہے ان شاءاللہ
اللہ ہم سب کے دل کو اپنی محبت کے نور سے روشن فرمائے
آمین ثم آمین یارب العالمین
السلام علیکم ورحمتہ وبرکاتہ ...
پتا ہے یہ ایمان کے رشتے بہت انمول اور خوبصورت ہوتے ہیں ..
اللہ کی خاطر جو جڑے ہوتے ہیں اور جو محبت اللہ کی خاطر کی جائے وہ بہت ہی پاک ہوتی ہے ...ہر لالچ سے بغیر کسی غرض سے کی گئی محبت
پتا ہے بہترین دوست کون ہوتا ہے ؟
وہ جو آپکی آخرت کی فکر کرے اور آپ کو اللہ کی طرف بلائے
تو آؤ ایمانی ساتھیو ایک دوسرے کو رب کی طرف بلانے والیاں بن جائیں آو پیاری شہزادیوں خود کو جنت کی محفلوں کے لیے تیار کریں آ و اللہ کی بندیوں اللہ کی طرف رجوع کریں آو اسلام کی بیٹیوں اپنی ذات سے وفاداری کریں اسے جہنم کا ایندھن بننے سے بچا لیں
ایسی باتوں سے پھر دل میں جگہ نہیں رہتی، حدیث شریف میں ایا ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا:
"میں نے دوزخ میں عورتیں بہت دیکھیں کسی نے پوچھا یا رسول اللہﷺ! دوزخ میں عورتیں کیوں زیادہ جایئں گی؟ حضورﷺ نے فرمایا، یہ لعنت بہت کیا کرتی ہیں۔
تو ذرا خیال کرو یہ ناشکری کتنی بری چیز ہے۔
رب تعالی عمل کی توفیق عطا فرماۓ۔ آمین
اگر تمہارا شوہر تمہارے لیے کوئ چیز لایا ہے تو پسند آۓ یا نہ آۓ ہمیشہ اس پر خوشی کا اظہار کرو۔ یہ نہ کہو کہ یہ چیز بری ہے ہم کو پسند نہیں ہے۔ اس سے اسکا دل ٹوٹ جاۓ گا اور پھر کبھی کچھ لانے کو جی نہ چاہے گا۔ اور اگر اسکی تعریف کرکے خوشی سے لوگی تو شوہر کا دل اور بڑھے گا اور پھر اس سے زیادہ چیز اپنی بیوی کے لیے لاۓ گا۔
کبھی غصہ میں آکر خاوند کی ناشکری نہ کرو اور یوں نہ کہنے لگو کہ اس گھر میں آکر میں نے دیکھا ہی کیا ہے بس ساری عمر مصیبت بھری اور تکلیف ہی سے کٹی میرے باپ دادا نے میری قسمت پھوڑ دی مجھے ایسی مصیبت میں پھنسا دیا، ایسے خراب شخص کے ساتھ مجھے بیاہ دیا۔
تمہارے شوہر جب کبھی (پردیس) سفر سے واپس آیئں تو مزاج پوچھو، خیریت دریافت کرو کہ وہاں کس طرح رہے، تکلیف تو نہیں ہوئ. ہاتھ پاؤں پکڑلو کہ تھک گۓ ہونگے۔ بھوکا ہو تو روٹی پانی کا انتظام کردو۔ گرمی کا موسم ہو تو پنکھا جھل کر ٹھنڈا کرو۔ غرض یہ کہ اسکی راحت و آرام کی باتیں کرو۔ شوہر سے روپے پیسے کی باتیں ہرگز نہ کرنے لگو کہ ہمارے واسطے کیا لاۓ ہو، کتنا خرچ لاۓ ہو یا کونسا سامان لاۓ ہو، بیگ دیکھیں کہاں ہے دیکھیں کتنا ہے؟؟؟ یہ سب غلط ہے۔ جب وہ خود دیں تو لے لو۔ پیسوں کے حساب مت کرو کہ کہاں کتنا خرچ کیا۔
جیسے توبہ ہی نہ کی ہو اس سے، اپنی پوری کشش اور توانائی سے۔
توبہ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ کو گناہ کی کشش محسوس نہیں ہو گی، اور نہ توبہ مطلب یہ ہے، کہ آپ کو مزاحمت نہیں کرنی پڑے گی۔ آپ کو بہکاووں سے لڑائی کرنا ہوتی ہے، اور بعض دفعہ کئی کئی سالوں تک۔
یہی وہ وقت ہوتا ہے جب آپ نیکی کی گنجائش پیدا کر رہے ہوتے ہیں اپنے اندر۔
نیکیوں اور گناہوں کا پورا پورا وجود ہوتا ہے۔ بعض دفعہ ہمارے دل و دماغ میں گناہوں کی اس قدر بھرمار ہو ہوتی ہے، کہ اس میں کسی نیکی کا ٹھہرنا محال ہو جاتا ہے۔ اس صورت میں توبہ پر قائم رہنا بڑی مردانگی کا کام ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں توبہ کو سمجھنے اور پکی توبہ کرنے کی ہمت عطا فرمائے، آمین۔
ہم جسے خوش کرنے کے لئے گناہوں سے توبہ کر کے آئے تھے، ہمیں لگتا ہے وہ خود ہمیں گناہگار ثابت کرنے پر بضد ہے۔
اور ہوتا یہ ہے کہ ہم ایک دن چپکے سے اپنا گناہ دوبارہ اختیار کر لیتے ہیں۔
بات یہ ہے کہ ہم نے ایسا نہیں کرنا۔
بات یہ ہے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کا تصور ایسا نہیں کرنا۔
بات یہ ہے کہ گناہ ہمارے اندر راستے بنا چکے ہوتے ہیں، ہمارے دل و دماغ کے حصے بن چکے ہوتے ہیں۔ جتنی دیر آپ کسی گناہ میں مبتلا رہے ہوں، کم از کم اس سے دو گنا عرصہ آپ کو نیکی میں گزارنا چاہئے۔ اگر آپ بیس سال پرانے گناہ کو، تیس سال، چالیس سال، پچاس سال پرانے گناہ کو، ایک دو ہفتے، یا دو تین مہینے میں مٹانا چاہتے ہیں، تو آپ غلطی پر ہیں۔ آپ نے جن جن حالات میں کوئی گناہ سرزد کیا ہوتا ہے، ان حالات میں وہ گناہ پھر سامنے آ جاتا ہے،
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain