تم مری آنکھ کے تیور نہ بھلا پاؤ گے
ان کہی بات کو سمجھوگے تو یاد آؤں گا
ہم نے خوشیوں کی طرح دکھ بھی اکٹھے دیکھے
صفحۂ زیست کو پلٹو گے تو یاد آؤں گا
اس جدائی میں تم اندر سے بکھر جاؤ گے
کسی معذور کو دیکھو گے تو یاد آؤں گا
اسی انداز میں ہوتے تھے مخاطب مجھ سے
خط کسی اور کو لکھو گے تو یاد آؤں گا
میری خوشبو تمہیں کھولے گی گلابوں کی طرح
تم اگر خود سے نہ بولو گے تو یاد آؤں گا
آج تو محفل یاراں پہ ہو مغرور بہت
جب کبھی ٹوٹ کے بکھرو گے تو یاد آؤں گا
غور سے دیکھ یہ تصویر پرانی میری
اور بتا کیسی لگی تجھ کو جوانی میری
تو سمجھتا ھے کہ ہنستے ھوۓ چھوڑ آیا ھوں
اتنی آساں بھی نہ تھی نقل مکانی میری
صرف اک شخص کے غم میں مجھے برباد نہ کر،
روز روتے ہوئے کہتی ہے جوانی مجھ سے۔۔
کیسے ہو؟ کیا ہے حال؟ مت پوچھو
مجھ سے مشکل سوال مت پوچھو
کس طرح تیری سمجھ میں آئے گا ہمارا دکھ
تو نے کبھی کِسی کو گنوایا تو ہے نہیں
ہم تیری یاد کی زمینوں میں صبر بوٸیں گے، ہجر کاٹیں گے
نمَکداں لےکے ہاتھوں میں سِتم گَر سُوچتےکیا ہو
ہزاروں زَخم ہیں دِل پہ، جہاں چاہو چھڑک ڈالو۔
یاد آئیں گی غفلتیں تم کو، تمہیں دُکھ نہ ہونے کا دُکھ بڑا ہوگا
مُحبت سَب کے لیے سُرخ گلابٗ نہیں ہوتی۔
اس عشق پہ وار دیا خود کو مین نے ہار دیا.....
کسی کی جان جاتی ہے کسی کا کچھ نہیں جاتا
نفرت ہے مجھے ایسی محبتوں سے ۔۔۔
میں ان شیشہ گروں سے پوچھتا ہوں
کہ ٹوٹا دل بھی جوڑا ہے کسی نے
ہمیں حاصل ہے یہ ہنر کہ
ہم ہنسی میں کرب چھپا لیتے ہیں