اتنی خوش فہمی میں نقصان نہ ہو جائے مرا میں کوئی پائی ہوئی چیز نہ کھونے لگ جاؤں ویسے اقرارِ محبت سے نہیں مجھ کو گریز خوف یہ ہے کہیں بدنام نہ ہونے لگ جاؤں
پَروں کو کاٹنے والے کی خَیر ہو مَولا اُسے غرور مُبارک، مُجھے اُڑان کا دُکھ وہ لَوٹ آئے گا سُورج کے ڈُوبنے سے قَبل سمَجھ رہے ہو نا صَاحب، مِرے گُمان کا دُکھ
شام تک صبح کی نظروں سے اتر جاتے ہیں اتنے سمجھوتوں پہ جیتے ہیں کہ مر جاتے ہیں اک جدائی کا وہ لمحہ کہ جو مرتا ہی نہیں لوگ کہتے تھے کہ سب وقت گزر جاتے ہیں