اب کے ہم بچھڑے تو شائد کبھی خوابوں میں ملیں جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی یہ خزانے تجھے، ممکن ہے، خرابوں میں ملیں غمِ دنیا بھی غمِ یار میں شامل کر لو نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں تو خدا ہے، نہ مرا عشق فرشتوں جیسا دونوں انساں ہیں تو کیوں اتنے حجابوں میں ملیں آج ہم دار پہ کھینچے گئے جن باتوں پر کیا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں میں ملیں اب نہ وہ میں، نہ وہ تو ہے، نہ وہ ماضی ہے فراز جیسے دو شخس تمنا کے سرابوں میں ملیں
غمِ دل کو ان آنکھوں سے چھلک جانا بھی آتا ہے تڑپنا بھی ہمیں آتا ہے تڑپانا بھی آتا ہے کسی کی یاد میں جو زندگی ہم نے گزاری ہے ہمیں وہ زندگی اپنی محبت سے بھی پیاری ہے وہ آئیں روبرو ہم داستاں اپنی سنائیں گے کچھ اپنا دل جلائیں گے کچھ ان کو آزمائیں گے سرِ محفل ہمیں تو شمع بن جانا بھی آتا ہے تڑپنا بھی ہمیں آتا ہے تڑپانا بھی آتا ہے وہ منظر جھانکتی ہے آج بھی یادوں کی چلمن سے بھلا سکتا ہے کیسے کوئی وہ انداز بچپن کے ہمیں گزری ہوئی باتوں کو دہرانا بھی آتا ہے تڑپنا بھی ہمیں آتا ہے تڑپانا بھی آتا ہے ہمیں آتا نہیں ہے پیار میں بے آبرو ہونا سکھایا حسن کو ہم نے وفا میں سرخرو ہونا ہم اپنے خونِ دل سے زندگی کی مانگ بھر دیں گے یہ دل کیا چیز ہے ہم جان بھی قربان کر دیں گے خلافِ ضبطِ الفت ہم کو مر جانا بھی آتا ہے تڑپنا بھی ہمیں آتا ہے تڑپانا بھی
عین ممکن ہے کہ حالات کی تلخی ہو کوئی سب کے سب عشق کے مارے تو نہیں ہوتے ناں__ مسترد ہونے کو تم دِل پہ لیۓ بیٹھے ہو سب کے سب جان سے پیارے تو نہیں ہوتے ناں__
گلزار دل درد کا ٹکڑا ہے پتھر کی ڈَلی سی ہے اِک اَندھا کنواں ہے یا اِک بند گلی سی ہے اِک چھوٹا سا لمحہ ہے جو ختم نہیں ہوتا میں لاکھ جلاتا ہوں یہ بھسم نہیں ہوتا
کسی نظر کو تیرا انتظار آج بھی ہے کہاں ہو تم کہ یہ دل بےقرار آج بھی ہے وہ وادیاں وہ فضائیں کہ ہم ملے تھے جہاں میری وفا کا وہیں پر مزار آج بھی ہے نا جانے دیکھ کے کیوں اُنکو یہ ہو احساس کہ میرے دل پہ اُنہیں اختیار آج بھی ہے وہ پیار جس کے لیؑے ہم نے چھوڑ دی دنیا وفا کی راہ میں گھائل وہ پیار آج بھی ہے یقیں نہیں ہے مگر آج بھی یہ لگتا ہے میری تلاش میں شائد بہار آج بھی ہے نا پوچھ کتنے محبت کے ذخم کھائے ہیں کہ جن کو سوچ کے دل سوگوار آج بھی ہے کسی نظر کو تیرا انتظار آج بھی ہے کہاں ہو تم کہ یہ دل بےقرار آج بھی ہے
رشتوں کی دہلیز کو ہم نے مذبحہ بنتے دیکھا ہے ہم نے جینے کی خواہش کو یوں بھی مرتے دیکھا ہے پتھر مارنے والوں میں جو پہلی صف میں ہوتے ہیں میں نے اُن کو قبروں پر گلدستے رکھتے دیکھا ہے تُم نے کب دیکھا ہے منظر ورنہ تم بھی رو دیتے میں نے صبح کے منظر کو بھی شام میں ڈھلتے دیکھا ہے تُم تو خیر محبت کے عنوان سے بھی ناواقف تھے ہم نے موم کے پُتلوں کو بھی پتھر بنتے دیکھا ہے پٕیار کی قیمت پوچھ کے تُم نے میرے ہونٹ ہی سی ڈالے تُم بتلاٶ ! تُم نے پیڑ کو سایہ بیچتے دیکھا ہے
سینے میں جلن آنکھوں میں طوفان سا کیوں ہے اس شہر میں ہر شخص پریشان سا کیوں ہے Seene main jalan, ankhon main tufan sa kyun hai, Is sheher main har shakhs pareshan sa kyun hai..