خزاں بہار کا جھگڑا کھڑا نہ ہونے دیا شجر لگایا بھی خود، خود ہرا نہ ہونے دیا یوں فرض اپنا نبھاتے رہے طبیب ترے کسی کو تیرے مرض کی دوا نہ ہونے دیا ہر ایک بار کئے وعدے جاں فزا تجھ سے ہر ایک بار مگر کچھ نیا نہ ہونے دیا قدم قدم پہ گرے سر کٹائے، اف بھی نہ کی کسی شکاری کو ہم نے خفا نہ ہونے دیا لٹا کے بیٹھے ہیں سب مال، جان و تن جن پر انہیں گلہ ہے کہ ان کو خدا نہ ہونے دیا ہماری قوم کو محسن کشی کی عادت ہے کسی بھی لعل کا حق ہی ادا نہ ہونے دیا ستم یہ ہے کہ پچھتر برس کا ہو کے بھی یہ بچہ پاؤں پہ ہم نے کھڑا نہ ہونے دیا ...
محبت کو عقیدہ عاشقی کو دین کہتا تھا کوئی تھا جو میری ہر بات پہ آمین کہتا تھا کبھی آنے نہیں دیتا تھا میری آنکھ میں آنسو وہ میرے اشکوں کو اپنے عشق کی توہین کہتا تھا
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain