تیرے خیالوں میں کہی دور جا کے۔
خود کو جو وآپس لاتا تو ٹوٹ جاتا ہوں۔
آ کے جب خوشگوار ماحول دیکھوں تو
پھر خود سے روٹھ جاتا ہوں۔
زینوں ماہی
تم حقیقت نہیں حسرت ہو
جو ملے خواب میں وہ دولت ہو
تم ہو کہ خاب کی خوشبو اور اتنی ہی بے مرّوت ہو کو
جون ایلیا ء
جب جانا ہی ہوتا خوشیوں کو واپس۔
تو پھر ہم غموں کو کیوں ناراض کریں۔
کرے وہ بھی خود کو توڑ۔
ہم اتنا بے تکلف سے کیوں کسی کو یاد کریں۔
زینوں ماہی
جب عادت لگ گئی مجھکو دردوں کی۔
جب زخم سب ہی میرے لیے نشہ بن گئے۔
تب مجھکوں خوشیاں دی گئی۔
آؤ نا تم آب آ بھی جاؤ ۔
موت تجھے پتا ہے نا میں تم سے اداس ہوں
زینوں ماہی
تو بھی کسی کے باب میں عہد شکن ہو غالباً۔
میں نے بھی ایک شخص کا قرض ادا نہیں کیا
سید جون ایلیا ء
ساقی تم کچھ تو ملا کے دو مجھکوں۔
کچھ بھی ایسا کے جس سے جان نکل جائے۔
زینوں ماہی
اب تو تیرا نام لکھنے سے بھی منہ کرتے ہیں لوگ۔
خود تو محلہ طوائف میں زنا کرتے ہیں لوگ ۔
زینوں ماہی
سوچ لو لیکن محسوس نہیں کر سکتے ۔
لاحاصل شخص کی خاطر زندگی تباہ تم نہیں
کرسکتے ۔
زینوں ماہی
آج کچھ نہیں کہنے کو ۔
آج درد لازوال ہیں۔