ہر بات کہہ دینے کی نہیں ہوتی کُچھ باتیں سُننے کی بھی ہوتی ہیں
کُچھ سمجھنے کی کُچھ جزب کر جانے کے اور کُچھ سہہ جانے کی بھی ہوتی ہیں
تھکا ہوا ہے وجود سارا یہ مانتی ہوں
مکر خیالوں سے کوٸ جاۓ تو نیند آۓ
یہ دکھ نہیں کے زمانہ خلاف ہے میرے
یہ رنج ہے کہ میرا یار بھی منافق ہے
وق کی عمر میں صبر کرنا سیکھ لیا
میں نے تمہیں منافقوں سے کھینچ کر نکالا تھا
لیکن جہاں کی اینٹ ہو وہاں ہی اچھی لگتی ہے
میری پہلی ترجیح عزت ہے رشتہ چاہے سوشل میڈیا کا ہو یا رٸیل لایف کا میں عزت کو ہر جگہ مقدم رکھتی ہوں
ضد کی بات تو آٶ مقابلہ ہی سہی
ہم نے ہر بار رقیبوں کے بھرم توڑے ہیں
جانے والوں کی سزا
آنے والوں کو مت دیں
وہ کہے آنکھ کھول بات کر
اور میرے پاس اختیار نہ ہو
تمہارے بعد سخاوت سے دڑ گۓ ہم لوگ
تمہارے بعد محبت سے ہاتھ کھینچ لیا ہم نے
اہم کردار ہوں کہانی کا مگر باغی بھی ہوں
ضد پر آٶں تو کہانی سے نکل بھی جاتی ہوں
یقین کیجیۓ صاحب
یقین نے ہی مارا ہے
یہ جو بولتے ہیں نہ ہم کبھی نہیں چھوڑے گے
یقین مانو یہ بہت لمبی لمبی چھوڑتے ہیں
خودکشی کی ہمت نہیں مجھ میں
دعا کرو کوٸ حادثہ ہو جاۓ
سچی محبت انہی لڑکوں کو ہوتی ہے
جن کے دل میں عورت کے لۓ۔
عزت اور آنکھوں میں حیا۶ ہوتی ہے
انسان کو تھکا دیتا ہے سوچوں کا سفر بھی
پسند کی چیز کا تاوان تو دینا ہی پڑتا ہے
کبھی چپ رہ کر اور کبھی خود کو اذیت میں رکھ کر
جب خود اپنی اہمیت بتانی پڑ جاۓ تو سمجھ لیں آپ کی کوٸ اہمیت نہیں رہی