کبھی یاد آۓ تو پوچھنا
ذرا اپنی خلوتِ شام سے
کیسے عشق تھا تیری ذات سے
کیسے پیار تھا تیرے نام سے
میں تیرے ساتھ محبت نہیں نبھا پایا
مگر میں تجھ کو تیرے یار سے ملا دو گا
تیرے بعد یوں میرا حال
جیسے اتوار کی چھٹی اور سکول ویران
ضروری نہیں کہ انسان کے پاس دولت ہو
اچھے دوست بھی اس کا سرمایہ ہوتے ہیں
تکتے رہنا بھی افراطِ محبت کی دلیل
پیار کے سینکڑوں اظہار ہوا کرتے ہیں
تم میرے پاس نہیں ہو اس مجھے اس کا غم ہے
تم میرے خیالوں میں جو آۓ یہی کیا کم ہے
دستِ تقدیر سے ہر شخص نے حصہ پایا
میرے حصے میں تیرے وصل کی حسرت آئی
تم بدلے ہو تو ہم بھی کہاں پُرانے سے رہے
تم آنے سے رہے اور ہم بُلانے سے رہے
میرے دیکھے ہوۓ خواب جیئے گا
تیرے نصیب میں لکھا ہوا شخص
جتنی پُر سکون ہے یہ شام کاش یہ دل بھی ہوتا❤
ان کی محفل میں نصیر
ان کے تبسم کی قسم
دیکھتے رہے گے ہم ہاتھ سے جانا دل کا
ایسے آنے سے تو بہتر تھا نہ آنا دل کا
کیا خبر تھی کہ عشق کے ہاتھوں
ایسی حالت تباہ ہوتی ہے
بات کرتا ہوں دم الجھتا ہے
سانس لیتا ہوں آہ ہوتی ہے
بزدلوں سے دل نا لگانا کبھی
بیچ راستے میں چھوڑ جاتے ہیں
آج تک رکھے ہوۓ ہیں پچھتاوے کی الماری میں
ایک دو وعدے جو دونوں سے نبھاۓ نہ گے
نشہ کیا ہوتا ہے تجھے کیا پتہ
کبھی یار کے لبوں پر لب رکھ کے تو دیکھ
عین ممکن ہے کہ تنہائی اسے ڈسنے لگے
یہ بھی ہوسگتا وہ گھبرا کے پکارے مجھ کو
تو کسی اور کا ہوگیا میری آنکھوں کے سامنے
میرا صبر دیکھ میں آج بھی مسکراتا ہوں
میرے اعمال تو بخشش کے نہ تھے
پھر بھی نصیر
کے محمد نے شفاعت
تو خدا مان گیا
کچھ محبتیں بہت عجیب ہوتی ہیں صاحب
نہ ہی ملتی ہیں اور نہ ہی ختم ہوتی ہیں
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain