اب خساروں پہ بات کون کرے؟ اتنے ساروں پہ بات کون کرے؟ بات یوں ہے کہ یار دشمن ہیں ایسے یاروں پہ بات کون کرے ؟ ہمیں دن میں جو اس نے دکھلائے ایسے تاروں پہ بات کون کرے 🖤
وہ بات بات میں اتنا بدلتا جاتا ہے کہ جس طرح کوئی لہجہ بدلتا جاتا ہے یہ آرزو تھی کہ ہم اس کے ساتھ ساتھ چلیں مگر وہ شخص تو رستہ بدلتا جاتا ہے ۔ رتیں وصال کی اب خواب ہونے والی ہیں کہ اس کی بات کا لہجہ بدلتا جاتا ہے ۔ رہا جو دھوپ میں سر پر مرے وہی آنچل ہوا چلی ہے تو کتنا بدلتا حاتا ہے وہ بات کر جسے دنیا بھی معتبر سمجھے تجھے خبر ہے زمانہ بدلتا جاتا ہے 🖤
ایسا تو نہیں پیر میں چھالا نہیں کوئی_ دکھ ہے کہ یہاں دیکھنے والا نہیں کوئی_ تو شہر میں گنواتا پھرا عیب ہمارے_ ہم نے تو ترا نقص اچھالا نہیں کوئی_ وہ شخص سنبھالے گا برے وقت میں تجھ کو_؟ جس شخص نے خط تیرا سنبھالا نہیں کوئی_ اے عقل ! جو تو نے مرا نقصان کیا ہے_ اب لاکھ بھی تو چاہے ازالہ نہیں کوئی_ ہیں عام بہت رزق و محبت کے مسائل_ دکھ تیرا زمانے سے نرالا نہیں کوئی_ 🖤
ہاں مددگار کی ضرورت ہے چھت ہوں دیوار کی ضرورت ہے آپ کی نفرتیں بتاتی ہیں آپ کو پیار کی ضرورت ہے تم تو لفظوں سے مار دیتے ہو تم کو ہتھیار کی ضرورت ہے؟ جیت نے اندھا کر دیا ہے تجھے تجھ کو اک ہار کی ضرورت ہے میں بھی اک بار ضروری تھا اسے تو بھی اک بار کی ضرورت ہے 🖤
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain