دم یہ نکلے ہے اور آواز نقاہت سے ہے پرُ فکر فرسائی کو چھوڑو، بچا جذباتی ذہن , _ حاصلِ بخت یہی ہے کہ میں ناکارہ رہوں جھیلوں قسمت کو مگر کیسے سہاروں گی وزن
آخری شمع ہے، دیکھو، جو ترکِ جوت ہوا نارسائی میں مگر، تُو، تو نہ یہ آگ پہن , _ یہ جو اعلٰی سماعت ورثے میں تھی پائی کبھی آج راہ و رسم میں کھو گیا، کہاں پہ لحن
میں کہ ترساں ہوں کبھی، بیشتر میں سیر ہوئی پھر بھی تسکینِ مروت کو کہاں جاۓ رتن , _ فاصلے وقت کی مرضی ہیں سو، میں راضی ہوں یوں تو عاجز ہوں تماشے یا ریاکاری، جتن!
کیسے ٹھہروں گی میں اس چوکیِٔ ناداری پر کیسے ارمان سجاؤں گی، ہیں یہ آثارِ گہن , _ بجلیاں چمکی تھیں اس رات، طوفان آیا تھا پھول مرجهایا تھا جب روئی تھی مہتاب دلہن
میں کہ تنہائیاں چاہوں مگر وه مل نہ سکیں کتنی بے رحمی سے لگتا ہے تھپیڑائے دہن , _ میری خلوت کی ملاوٹ میں ملوث ہیں وہی کتنی بے ذوقی سے ملتے ہیں یہ افرادِ صحن
دل ہے میرا کہ سناؤں میں فسانۂِ گزند سینکڑوں دکھ ہیں کہ پائیں وه موضوعِ سخن , _ رنج سرطان کی ملکت ہے سو وه بڑھتا ہے درد میرا ہی مقدّر ہے وه بھی اک دارِ محن