تتلیاں پکڑنے کو۔ ۔ ۔ ۔ ۔“ کتنا سہل جانا تھا خوشبوؤں کو چھو لینا بارشوں کے موسم میں شام کا ہرایک منظر گھر میں قید کر لینا روشنی ستاروں کی مٹھیوں میں بھر لینا کتنا سہل جانا تھا خوشبوؤں کو چھو لینا جگنوؤں کی باتوں سے پھول جیسے آنگن میں روشنی سی کرلینا اس کی یاد کا چہرہ خوابناک آنکھوں کی جھیل کے گلابوں پر دیر تک سجا رکھنا کتنا سہل جانا تھا اے نظر کی خوش فہمی ! اس طرح نہیں ہوتا “تتلیاں پکڑنے کو دور جانا پڑتا ہے“🔥
تجھے مڑ کر دیکھیں گلاب بھی۔۔ تجھے چاہتیں وہ نصیب ہوں۔۔۔ کرے رشک تجھ پہ یہ آسمان۔۔۔ تجھے رفعتیں وہ نصیب ہوں۔۔ رہے روشنی سے دھلا ہوا تیرا راستہ تیری رہ گزر۔۔۔ تیری بات بات ہو کامران۔۔ تیرا خواب خواب ہو با ثمر۔۔۔ تو جہاں رہے وہ بہشت ہو ۔۔ تو جدھر چلے وہاں پھول ہوں۔۔ ہے دعا میری نئے سال میں۔۔۔ تیری ساری دعائیں قبول ہوں۔۔۔
حال ایسا نہیں کہ تم سے کہیں ایک جھگڑا نہیں کہ تم سے کہیں زیر لب آہ بھی محال ہوئی درد اتنا نہیں کہ تم سے کہیں تم زلیخا نہیں کہ ہم سے کہو ہم مسیحا نہیں کہ تم سے کہیں سب سمجھتے ہیں اور سب چپ ہیں کوئی کہتا نہیں کہ تم سے کہیں کس سے پوچھیں کہ وصل میں کیا ہے ہجر میں کیا نہیں کہ تم سے کہیں اب خزاںؔ یہ بھی کہہ نہیں سکتے تم نے پوچھا نہیں کہ تم سے کہیں
حال ایسا نہیں کہ تم سے کہیں ایک جھگڑا نہیں کہ تم سے کہیں زیر لب آہ بھی محال ہوئی درد اتنا نہیں کہ تم سے کہیں تم زلیخا نہیں کہ ہم سے کہو ہم مسیحا نہیں کہ تم سے کہیں سب سمجھتے ہیں اور سب چپ ہیں کوئی کہتا نہیں کہ تم سے کہیں کس سے پوچھیں کہ وصل میں کیا ہے ہجر میں کیا نہیں کہ تم سے کہیں اب خزاںؔ یہ بھی کہہ نہیں سکتے تم نے پوچھا نہیں کہ تم سے کہیں
دسمبر چل پڑا گهر سے سنا ہے پہنچنے کو ہے مگر اس بار کچھ یوں ہے کہ میں ملنا نہیں چاہتا ستمگر سے میرا مطلب دسمبر سے کبهی آزردہ کرتا تها مجهے جاتا دسمبر بهی مگر اب کے برس ہمدم بہت ہی خوف آتا ہے مجهے آتے دسمبر سے ,دسمبر جو کبهی مجهکو بہت محبوب لگتا تها وہی سفاک لگتا ہے بہت بیباک لگتا ہے ہاں اس سنگدل مہینے سے مجهے اب کے نہیں ملنا قسم اسکی نہیں ملنا مگر سنتا ہوں یہ بهی میں کہ اس ظالم مہینے کو کوئی بهی روک نہ پایا ,نہ آنے سے، نہ جانے سے صدائیں یہ نہیں سنتا ,وفائیں یہ نہیں کرتا یہ کرتا ہے فقط اتنا ,سزائیں سونپ جاتا ہے