میں واقع ہے جس پر اسرائیل کا قبضہ ہے۔ یہ یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے جس میں 5 ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے جبکہ مسجد کے صحن میں بھی ہزاروں افراد نماز ادا کرسکتے ہیں۔ 2000ء میں الاقصیٰ انتفاضہ کے آغاز کے بعد سے یہاں غیر مسلموں کا داخلہ ممنوع ہے
مطابق اس مسجد کو حضرت سلیمان علیہ السلام نے جنات سے تعمیر کرایا۔ لیکن اسے کلیتہً ہیکلِ سلیمانی قرار دینا تاریخی اعتبار سے غلط ہے۔ ہیکل کا لفظ رہائش گاہ ،محل یا دربار کے لئے استعمال ہوتا ہے۔گمان غالب ہے کہ نبی اللہ سلیمان علیہ السلام نے اپنی رہائش کا حجرہ بھی مسجد میں ہی بنا رکھا ہو اور اپنے متبعین کا اجتماع بھی مسجد میں ہی کرتے ہوں اس لحاظ سے اس مسجد کو ہیکل سلیمانی یعنی سلیمان علیہ السلام کا محل یا دربار کے نام سے منسوب کر دیا گیا ہو۔حالانکہ یہ مسجد فی الواقع زمین پر دوسری تعمیر ہونے والی مسجد ہے۔
مقامی مسلمان اسے المسجد الاقصیٰ یا حرم قدسی شریف (عربی: الحرم القدسی الشریف) کہتے ہیں۔ یہ مشرقی یروشلم میں واقع ہے جس پر اسرائیل کا قبضہ ہے۔ یہ یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے جس میں 5 ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے جبکہ مسجد کے صحن میں بھی ہزاروں افراد
اول اور خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔مسجد اقصی حقیقت میں مسلمانوں کی میراث[2] ہے جو تاریخی اور مذہبی حقائق سے ثابت ہے مگر یہ جس جگہ پر تعمیر کی گئی , یہود کے موقف کے مطابق اِس جگہ پر پہلے سُلیمانی ہیکل تھی۔ مُسلمانوں کے یروشلیم شہر پر قبضہ کرنے کے بعد یہ مسجد تعمیر کی گئی۔حالانکہ کہ قرآن میں سفر معراج کے باب میں اس مسجد کا ذکر ہے۔ گویا یہ مسجد حضور ﷺ کے بعثت سے بھی پہلے موجود تھی۔ متعدد روایات کے مطابق خانہ کعبہ کے بعد دوسری عبادت گاہ الاقصٰی تعمیر ہوئی تھی۔ مسجد کا تعلق اللہ کی عبادت سے ہے اور ہر نبی کو عبادت کے لئے مسجد کی ضرورت تھی۔ یہاں تک درست ہے کہ موجودہ دور میں اس مسجد کی معروف نسبت حضرت سلیمان علیہ السلام کے ساتھ ہے حتیٰ کہ ایک روائت کے مطابق اس مسجد کو حضرت سلیمان علیہ السلام نے جنات سے تعمیر کرایا۔ لیکن
ایک روائت کے مطابق اس مسجد کو حضرت سلیمان علیہ السلام نے جنات سے تعمیر کرایا۔ لیکن اسے کلیتہً ہیکلِ سلیمانی قرار دینا تاریخی اعتبار سے غلط ہے۔ ہیکل کا لفظ رہائش گاہ ،محل یا دربار کے لئے استعمال ہوتا ہے۔گمان غالب ہے کہ نبی اللہ سلیمان علیہ السلام نے اپنی رہائش کا حجرہ بھی مسجد میں ہی بنا رکھا ہو اور اپنے متبعین کا اجتماع بھی مسجد میں ہی کرتے ہوں اس لحاظ سے اس مسجد کو ہیکل سلیمانی یعنی سلیمان علیہ السلام کا محل یا دربار کے نام سے منسوب کر دیا گیا ہو۔حالانکہ یہ مسجد فی الواقع زمین پر دوسری تعمیر ہونے والی مسجد ہے۔
مقامی مسلمان اسے المسجد الاقصیٰ یا حرم قدسی شریف (عربی: الحرم القدسی الشریف) کہتے ہیں۔ یہ مشرقی یروشلم میں واقع ہے جس پر اسرائیل کا قبضہ ہے۔ یہ یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے جس میں 5 ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے جبکہ مسجد کے صحن میں بھی
مسجد اقصی مسلمانوں کا قبلہ اول اور خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔مسجد اقصی حقیقت میں مسلمانوں کی میراث[2] ہے جو تاریخی اور مذہبی حقائق سے ثابت ہے مگر یہ جس جگہ پر تعمیر کی گئی , یہود کے موقف کے مطابق اِس جگہ پر پہلے سُلیمانی ہیکل تھی۔ مُسلمانوں کے یروشلیم شہر پر قبضہ کرنے کے بعد یہ مسجد تعمیر کی گئی۔حالانکہ کہ قرآن میں سفر معراج کے باب میں اس مسجد کا ذکر ہے۔ گویا یہ مسجد حضور ﷺ کے بعثت سے بھی پہلے موجود تھی۔ متعدد روایات کے مطابق خانہ کعبہ کے بعد دوسری عبادت گاہ الاقصٰی تعمیر ہوئی تھی۔ مسجد کا تعلق اللہ کی عبادت سے ہے اور ہر نبی کو عبادت کے لئے مسجد کی ضرورت تھی۔ یہاں تک درست ہے کہ موجودہ دور میں اس مسجد کی معروف نسبت حضرت سلیمان علیہ السلام کے ساتھ ہے حتیٰ کہ ایک روائت کے مطابق اس مسجد کو حضرت سلیمان علیہ السلام نے
لیکن یہودیوں کا خیال ہےکہ تابوت سکینہ مسجد اقصیٰ کے نیچے ہے۔اس لیے وہ مسجد اقصیٰ کو گرانا چاہتے ہیں۔
ایک روایت میں ہے حضرت داﺅ علیہ السلام کی زبردست خواہش تھی کہ وہ اس صندوق (تابوت ِسکینہ) کے لئے ایک مستقل گھر بنائیں تاکہ یہ محفوظ رہے ۔ بالآخر حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے عہد سلطنت میں یہ گھر تعمیر کروایا جو ہیکل سلیمانی کے نام سے مشہور ہوا۔حضرت سلیمان علیہ السلام نے یہاںخادموں کے لئے رہائش گاہیں بھی بنوائیں تھیں۔ ان کے بعد ہر آنے والے بادشاہ نے اس ہیکل کی بارہ دریوں اور برآمدوں میں اضافہ کیا ۔ حتیٰ کہ تابوت سکینہ کا کمرہ ان مختلف عمارتوں میں چاروں طرف سے گھر گیا ۔ ۸۹۵قبل مسیح میں جب ایک سفاک اور ظالم بادشاہ بخت نصر نے بنی اسرائیل پر حملہ کیا تو دوسری عمارتوں کے ساتھ ساتھ ہیکل سلیمانی کو بھی تباہ وبرباد کردیا ، اس افراتفری میں تابوت سکینہ غائب ہوگیا اور آج تک اسکا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔
ایک روایت میں ہے حضرت داﺅ علیہ السلام کی زبردست خواہش تھی کہ وہ اس صندوق (تابوت ِسکینہ) کے لئے ایک مستقل گھر بنائیں تاکہ یہ محفوظ رہے ۔ بالآخر حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے عہد سلطنت میں یہ گھر تعمیر کروایا جو ہیکل سلیمانی کے نام سے مشہور ہوا۔حضرت سلیمان علیہ السلام نے یہاںخادموں کے لئے رہائش گاہیں بھی بنوائیں تھیں۔ ان کے بعد ہر آنے والے بادشاہ نے اس ہیکل کی بارہ دریوں اور برآمدوں میں اضافہ کیا ۔ حتیٰ کہ تابوت سکینہ کا کمرہ ان مختلف عمارتوں میں چاروں طرف سے گھر گیا ۔ ۸۹۵قبل مسیح میں جب ایک سفاک اور ظالم بادشاہ بخت نصر نے بنی اسرائیل پر حملہ کیا تو دوسری عمارتوں کے ساتھ ساتھ ہیکل سلیمانی کو بھی تباہ وبرباد کردیا ، اس افراتفری میں تابوت سکینہ غائب ہوگیا اور آج تک اسکا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔
حضرت طالوت نے اعلان کے مطابق اپنی شہزادی کا نکاح حضرت داﺅد علیہ السلام سے کردیا اور انھیں اپنی آدھی سلطنت کا بادشاہ بھی بنادیا۔اس واقعہ کے چالیس سال بعد جب حضرت طالوت کا انتقال ہوگیا تو حضرت داﺅد علیہ السلام پوری سلطنت کے بادشاہ بن گئے اور جب حضرت شموئیل علیہ السلام کی بھی وفات ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے داﺅد علیہ السلام کو بادشاہت کے ساتھ ساتھ نبوت سے بھی سرفراز فرمادیا۔
یہ ایک ہتھیار تھا جس میں پتھررکھ کر، دشمن پر مارے جاتے تھے ) ، جالوت پر آپؑ کی نظر پڑی تو آپؑ نے اپنی گوپھن میں پتھررکھے اور بسم اللہ پڑھ کر جالوت کے اوپر پھینکے ،یہ پتھر جاکر جالوت کی ناک اور کھوپڑی پر لگے اور اس کے بھیجے کو پاش پاش کرکے سر پیچھے سے نکل کراس کے سپاہیوں کو لگے جس سے بہت سے سپاہی ہلاک ہوگئے۔ جالوت کے مرتے ہی اس کے لشکرکی ہمت ٹوٹ گئی اور اس کے لشکر میں بھگڈر مچ گئی۔ حضرت داﺅد علیہ السلام جالوت کی لاش کو گھسیٹتے ہوئے لائے اور اپنے بادشاہ حضرت طالوت کے سامنے ڈال دیا اس پر حضرت طالوت اور بنی اسرائیل بے حد خوش ہوئے۔ جالوت کے قتل ہوجانے کے بعد اس کا لشکر بھاگ نکلا اور حضرت طالوت کو فتح مبین حاصل ہوئی۔
کہنے لگے کہ ہم جالوت اور اس کے لشکر سے لڑنے کی ہمت نہیں رکھتے۔ صرف چار ہزار سپاہی حقیقی فرمانبردار نکلے۔ انھوں نے اللہ کے حضور گڑگڑا کر دعائیں کیں کہ اے اللہ لڑائی کے وقت ہمارے قدم جمادے اور بھاگنے سے ہمیں بچالے اور ہمیں دشمنوں پرغالب فرما۔ ان کی دعائیں قبول ہوئیں اور اللہ نے انھیں فتح سے ہمکنار کیا۔
جالوت بہت ہی قد آور اور نہایت طاقتور بادشاہ تھا ۔ دونوں فوجیں میدان جنگ میں لڑائی کے لئے صف آرائی کرچکیں تو حضرت طالوت نے اپنے لشکر میں اعلان کردیا کہ جو شخص جالوت کو قتل کرے گا میں اپنی شاہزادی کا نکاح اس کے ساتھ کردوں گا اور اپنی آدھی سلطنت بھی اس کو عطا کردوں گا۔ جب جنگ شروع ہوئی تو حضرت داﺅد علیہ السلام اپنی گوپھن لے کر آگے بڑھے۔
مگر ان میں کچھ لوگ پختہ ایمان والے بھی تھے جنھوں نے اس نہر کا پانی نہیں پیا ، اور اگر پیا بھی تو ایک آدھ گھونٹ ، لیکن جنھوں نے پیٹ پھر کر پانی پیا تھا ان کی پیاس تو بجھ گئی لیکن وہ جنگ کرنے کے قابل نہیں رہے ،لشکر کی اسّی ہزار کی تعداد میں سے چھیتر ہزار لوگوں نے پیٹ بھر کر پانی پی لیا ، انکی نافرمانی کا یہ اثر ہو ا کہ ان کی ہمت پست ہوگئی اور انھوں نے نہایت بزدلانہ پن سے جہاد سے انکار کردیا اور دشمن کی زیادتی نے انھیں خوفزدہ کردیا۔
راستے میں حضرت طالوت نے اپنے لشکر سے کہا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں ایک نہر سے ساتھ آزمانے والا ہے ۔ اس نہر کا نام نہر الشریعہ تھا جو اردن اور فلسطین کے درمیان واقع تھی۔ حضرت طالوت نے اپنے لشکر کو ہوشیار کردیا کہ کو ئی بھی اس نہر کا پانی نہ پیئے۔ ہاں اگر کسی نے ایک آدھ گھونٹ پی لیا تو کوئی حرج نہیں۔ لیکن لشکر جب اس نہر کے قریب پہنچا تو پیاس کی شدت سے لشکر کے لوگ نہر پر جھک پڑے اور پیٹ بھر کر پانی پی لیا۔
چنانچہ تھوڑی ہی دیر میں فرشتے آسمان اور زمین کے درمیان اس تابوت کو اٹھائے ہوئے سب لوگوں کے سامنے آئے اور حضرت طالوت کے سامنے لا کر رکھ دیا۔ اس تابوت کو دیکھ کر انہیں طالوت کی بادشاہت کا یقین ہوگیااور تمام بنی اسرائیل نے حضرت طالوت کی بادشاہی کو تسلیم کر لیا۔جب حضرت طالوت بنی اسرائیل کے بادشاہ بن گئے تو آپ نے بنی اسرائیل کو جہاد کے لئے تیار کیا اور ایک کافر بادشاہ جالوت سے جنگ کرنے کے لئے اپنی فوج کو لے کر میدان جنگ میں نکلے ۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا جس کا ترجمہ یہ ہے کہ:” *اور ان سے ان کے نبی نے فرمایا کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے طالوت کو تمہار ا بادشاہ بناکر بھیجا ہے ، بولے کہ ہم پر اسے بادشاہی کیوں کر ہوگی، اور ہم اس سے زیادہ سلطنت کے مستحق ہیں اور اسے مال میں بھی وسعت نہیں دی گئی ہے۔ فرمایا کہ اسے اللہ نے تم پر چن لیا ہے اور اس کو علم اور جسم میں کشادگی زیادہ دی ہے اور اللہ اپنا ملک جس کو چاہے عطا فرمادے اور اللہ وسعت والا علم والا ہے اور ان سے ان کے نبی نے فرمایا کہ اس بادشاہی کی نشانی یہ ہے کہ آئے تمہارے پاس وہ تابوت جس میں تمہارے رب کی طرف سے دلوں کا چین ہے اور حضرت موسیٰ ؑ و ہارونؑ کے ترکہ کی بچی ہوئی چیزیں ہیں جس کو فرشتے اٹھا کر لائیں گے ، بے شک اس میں تمہارے بہت بڑی نشانی ہے۔ اگر تم ایمان رکھتے ہو۔ (سورة البقرہ آیت 24
ایک غریب اور مفلس انسان بھلا تخت شاہی کے لائق کیونکر ہوسکتا ہے۔
بنی اسرائیل کے ان اعتراض کا جواب دیتے حضرت شموئیل علیہ السلام نے یہ تقریر فرمائی کہ ”اس کا تعین میری طرف سے نہیں ہے بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کا حکم ہے جس نے اسے بادشاہت کے لئے چن لیاہے ۔ پھر ظاہراََ بھی وہ تم میں بڑا عالم ہے اورقوی و طاقتور ، شکیل و جمیل، شعاع و بہادر اور لڑائی کے فنون سے پوری طرح واقف کار ہے۔ اللہ اپنا ملک جسے چاہے دے اور اللہ وسعتِ علم والا ہے ۔ اس کی بادشاہی کی نشانی یہ ہے کہ آئے تمہارے پاس وہ تابوت جس میں تمہارے رب کی طرف سے دلوں کا چین ہے۔
ایک غریب اور مفلس انسان بھلا تخت شاہی کے لائق کیونکر ہوسکتا ہے۔
بنی اسرائیل کے ان اعتراض کا جواب دیتے حضرت شموئیل علیہ السلام نے یہ تقریر فرمائی کہ ”اس کا تعین میری طرف سے نہیں ہے بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کا حکم ہے جس نے اسے بادشاہت کے لئے چن لیاہے ۔ پھر ظاہراََ بھی وہ تم میں بڑا عالم ہے اورقوی و طاقتور ، شکیل و جمیل، شعاع و بہادر اور لڑائی کے فنون سے پوری طرح واقف کار ہے۔ اللہ اپنا ملک جسے چاہے دے اور اللہ وسعتِ علم والا ہے ۔ اس کی بادشاہی کی نشانی یہ ہے کہ آئے تمہارے پاس وہ تابوت جس میں تمہارے رب کی طرف سے دلوں کا چین ہے۔
حضرت شموئیل علیہ السلام جب نبوت سے سرفراز کیئے گئے تو ان کے زمانے میں کوئی بادشاہ نہیں تھا ، بنی اسرائیل کی قوم نے آپؑ سے درخواست کی کہ آپ ؑ کسی کو ہمارا بادشاہ بنادیجئے۔آپ ؑ نے حکم خداوندی کے مطابق حضرت طالوت کو بادشاہ بنادیاجو بنی اسرائیل میں سب سے زیادہ طاقتور اور سب سے بڑے عالم تھے، لیکن بہت ہی غریب اور مفلس تھے۔ بکریوں کی چرواہی کرکے زندگی بسر کرتے تھے۔ اس پر بنی اسرائیل کو اعتراض ہوا کہ طالوت کا تعلق شاہی خاندان سے نہیں ہے لہٰذا یہ کیسے ہمارا بادشاہ ہوسکتا ہے اس سے زیادہ تو بادشاہت کے حق دار ہم لوگ ہیں کیونکہ ہم لوگ شاہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔
بنی اسرائیل میں جب کوئی اختلاف پیدا ہوتا تو یہ لوگ اسی صندوق سے فیصلہ کراتے تھے ، صندوق سے فیصلہ کی آوازسنی جاتی تھی۔ الغرض یہ صندوق جوتاریخ میں تابوتِ سکینہ کے نام سے مشہور ہے بنی اسرائیل میں اللہ کی رحمت و برکت اور فتح کے نزول کا نہایت مقدس اور بہترین ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔ مگر جب بنی اسرائیل طرح طرح کے گناہوں میں مبتلا ہوگئے اور ان کی سرکشی اور بداعمالیاں اپنے عروج پر پہنچ گئیں تو ان پر اللہ کا غضب نازل ہوا، کفار کی قوم عمالقہ نے ایک بہت بڑے لشکر کے ساتھ ان لوگوں پر حملہ کردیا، ان کافروں نے بنی اسرائیل کا قتل عام کرکے ان کی عمارتوں کو توڑپھوڑ کر سارے شہر کو تہس نہس کر ڈالا اور اس مقدس صندوق کو بھی اٹھا کر لے گئے۔
تابوت سکینہ کیا ہے اور کہاں ہے ؟*
تابوتِ سکینہ ایک صندوق کا نام ہے جو شمشاد کی لکڑی کا بنا ہوا تھا۔اس صندوق میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا اور ان کی جوتیاں، حضرت ہارون علیہ السلام کا عمامہ، حضرت سلمان علیہ السلام کی انگوٹھی، توراة کی تختیوں کے چند ٹکڑے، کچھ من و سلویٰ اور انبیاءعلیہ السلام کی صورتوں کے حلیئے وغیرہ موجود تھے۔بنی اسرائیل میںیہ صندوق بڑا ہی مقدس اور بابرکت سمجھا جاتاتھا۔یہ لوگ جب کفار سے جہاد کرتے اور کفار کے لشکروں کی کثرت اور شان و شوکت دیکھ کر سہم جاتے تو وہ اس صندوق کو اپنے لشکر کے ساتھ رکھ لیتے تھے۔ اس صندوق سے رحمتوں اور برکتوں کا ایسا ظہور ہوتا کہ ان کے دلوں میں سکون و اطمینان پیدا ہوجاتا اور ان کے لرزتے ہوئے دل پتھروں کی چٹانوں سے زیادہ مضبوط ہوجاتے۔ آسمان سے فتح و نصرت نازل ہوتی اور یہ جنگ میں فتح یاب ہوجاتے تھے۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain