*مہینہ کی پہلی تاریخ آ رہی ہے۔*
زیادہ تر گھروں میں مہینے کی شروع کی تاریخوں میں پورے ماہ کا سودا سلف اور راشن لیا جاتاہے
*۔آپ سب سے درخواست ہے پاکستانی مصنوعات خریدیں
*یہ ٹوٹا پھوٹا جیسا بھی ہے آپ کا اپنا وطن ہے اللہ کی دی ہوئی نعمت عظیمہ ہے*
اس سے محبت کا ثبوت دیں اس کی خاطر اور مسلمان بھائیوں کی خاطر جو جگہ جگہ ظلم کا شکار ہے یہ یہودیوں کا بائیکاٹ کر دیں
*یہ بائیکاٹ آپ کا اخلاص ہے چھوڑ دیجئے تمام غیر ملکی چیزیں*
*کوالٹی پر کمپرومائز کر لیں* مسلمانوں کے خون پر نہیں
اللہ تعالی ہمارا اور پوری امت مسلمہ کا حامی و ناصر ہو آمین یا رب العالمین
نوٹ !
*اس تحریر کو کاپی کریں اور اپنی اپنی وال اور وٹس ایپ گروپس میں شئیر کریں*
جزاکم اللہ خیرا
*الوداع اکتوبر🍁*
اگلے سال میں پتہ نہیں کہاں ہوں،کس جگہ ہوں، دنیا میں ہوں گی بھی یا نہیں ہوں گی!!
لیکن اکتوبر کا انتظار ضرور رہے گا ہر سال کی طرح۔۔کیونکہ اکتوبر ایسا مہینہ ہے جسے بھلایا جائے بھی تو بھلانا ناممکن ہے میرے لیے۔۔۔۔۔۔🥀
اکتوبر یعنی بدلتا ہوا موسم،بدلتا ہوا سال،بدلتے ہوئے لوگ،بدلتا ہوا وقت،بدلتی ہوئی زندگی،سردی کی پہلی دستک،گرتے پتے🍂،اداسی میں ڈوبی شامیں🌚 ،اور اس سب میں ٹھہری ہوئی میری ذات!!!🥺 🪷
_اور پتہ نہیں اگلے اکتوبر میں "میں" ہوں گی بھی یا نہیں!!🥲_
حق کھا کر خوشی محسوس کرتے ہیں اور فرقوں کے خرافات میں الجھے ہوئے ہیں۔
فلسطینوں کے لئے سوائے دعا اور احتجاج کے ہم کیا کرسکتے ہیں؟
کیا ہم اپنے عقائد کے اتنے مضبوط ہیں کہ ڈالر کہ بہکاوے میں نہ آئیں؟
کیا ہم یہودیوں کے مقابلے میں نکلنے والے خراسان مجاہدین کی لسٹ میں آتے ہیں یا بس سوشل میڈیا کے تماشائی ہیں؟
اگر آج دجال ظاہر ہوجائے اور توبہ کا دروازہ بند ہوجائے تو ہماری آخرت کے لئے کیا تیاری ہے؟
سوچ کر جواب ضرور دیجئے گا۔
والسلام۔
اپنی مرضی کے ڈاکٹر، انجینئر بچے پیدا کرنا، نائن ڈی ٹیکنالوجی کی مدد سے ایک جگہ ہوتے ہوئے کئی جگہ موجود رہنا، اپنی مرضی کے موسم بنانا، جب چاہو بارش برسا دینا، چند دنوں میں پوری دنیا گھوم لینا یہ سب دجالی نشانیاں ہیں جو آج کے دور میں کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ ہمارے اسلام میں بتائی گئی قیامت کی نشانیوں کی انہوں نے اتنے اچھے سے تیاری کرلی ہے کہ غرقد کے درخت لگا دیے۔ جو انہیں پناہ دیں گے۔ باب لد جس جگہ احادیث کے مطابق دجال کا حضرت عیسی ع کے ہاتھوں قتل ہونے کا ذکر موجود ہے اس جگہ وہ دجال کے فرار کے لئے ایئر پورٹ بنا چکے ہیں۔
یہ سب تو قربت قیامت کی نشانیاں ہیں اور ہیکل سلیمانی نے بھی بن کر رہنا ہے۔ پھر اصل جنگ کیا ہے؟
اصل جنگ عقائد کی ہے۔ ہم اپنے عقائد میں اس قدر کمزور ہوچکے ہیں کہ نماز پڑھیں یا نہ پڑھیں ہمیں فرق نہیں پڑتا۔ اپنے بہن بھائیوں کا حق
پوری دنیا میں کووڈ پھیلا کر مختلف جانوروں کے ساتھ انہیں بھی ٹیسٹ کیا گیا اور ان پر اس بیماری کا کوئی اثر نہ ہوا۔
Red heifer found
Mastery of Red heifer
یہ گوگل میں سرچ کرکے آپ اس متعلق تفصیل سے پڑھ سکتے ہیں۔
الغرض قرب قیامت اور دجال کے ظہور والی تمام تر تیاریاں وہ مکمل کرچکے ہیں۔
اپنی مرضی کے ڈاکٹر، انجینئر بچے پیدا کرنا، نائن ڈی
کیونکہ ان کے عقیدے کے مطابق وہ ناپاک ہیں اور جب تک پاک نہیں ہوجاتے ہیکل سلیمانی تعمیر نہیں کرسکتے۔ اور پاک ہونے کے لئے سرخ گائے کی قربانی دینا ہوگی۔
وہ گائے جس کی نشانیاں قرآن پاک میں بیان کی گئیں۔ جو اسوقت بھی انہیں ڈھونڈنے میں مشکل ہوئی تھی۔ اب بھی ایک سو سال تک وہ ویسی گائے کی تلاش کرتے رہے۔ ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے بچے پیدا کرنے کا کامیاب تجربہ کیا انہوں نے۔ پھر اس تجربے کی بدولت ویسی نشانیوں والی گائے پیدا کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ناکام رہے۔ دوہزار انیس میں ایک امریکی ریاست سے پانچ عدد ویسی گائیں انہیں مل گئیں۔ جن کے جسم پر سرخ رنگ کے علاوہ اور کوئی بال نہیں تھا۔ انہیں کبھی کام کے لئے استعمال نہیں کیا گیا تھا۔ اگلی نشانی کہ ان پر کسی بیماری کا اثر نہیں ہونا چاہیے، پوری دنیا میں کووڈ
معافی کا اعلان کیا گیا۔ یوں سیاسی اور اقتصادی مفاد پرستی نے دو ہزار سالوں سے ایک دوسرے کے ازلی و جانی دشمنوں کو ایک صف پر لا کھڑا کیا۔ اور قرآن کی بات بھی سچ ہوگئی کہ
یہود و نصری ایک دوسرے کے دوست ہیں۔
یہودیوں کے عقائد کے مطابق وہ ہیکل سلیمانی کی حفاظت نہیں کرپائے تو خود کو قصوروار کہتے ہیں۔ خود کو سزا دینے کے لئے زنجیروں اور چمڑے سے پیٹتے ہیں۔ اور دیوار گریہ کے پاس آہ و زاری کرتے ہیں۔
وہ ایمان رکھتے ہیں تیسری بار انہیں پوری دنیا پر حکمرانی حاصل ہوگی۔ اس کے لئے انہیں مسجد اقصی کو گرانا ہوگا۔ جس کی تیارہ وہ کرچکے ہیں۔ کب سے مسجد اقصی کے نیچے بارودی سرنگیں بچھا دی گئی ہیں۔ اس کے بعد ہیکل سلیمانی تعمیر کرکے تابوت سکینہ وہاں رکھنا ہے۔ تابوت سکینہ بھی وہ دوبارہ حاصل کرچکے ہیں۔
لیکن مسئلہ تھا سرخ گائے۔۔۔ کیونکہ ان کے عقیدے کے مطابق وہ نا
اس دوران میں انہیں یہ اندازہ ہوچکا تھا کہ انہیں اب خود اپنی پہچان بنانی ہے۔ اور بائبل میں موجود یہودیوں کے آخری عروج سے قبل والی کئی نشانیاں بھی ظاہر ہوچکی تھیں۔ اور وہ یہ تسلیم کرچکے تھے کہ انکا آخری مسیحا اب دجال ہوگا جس کی بدولت پوری دنیا میں انکا دوبارہ بول بالا ہوگا۔
انہوں نے برطانیہ سے ساز باز کرکے خود کو الگ ریاست تسلیم کروالیا۔ یوں اسرائیل باقاعدہ ایک ملک کی صورت میں دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ پھر آہستہ آہستہ انہوں نے فلسطین اور دیگر مصری علاقوں پر بھی قبضہ کرلیا۔ عرب ممالک اسرائیل کے خلاف جنگ پر آئے لیکن اس وقت تک یہ خود کو اتنا مضبوط کرچکے تھے عرب ممالک کو اس ایک چھوٹے سے ملک سے منہ کی کھانی پڑی۔ عسائیوں نے بھی دیکھ لیا کہ اب ان سے لڑ کر کچھ وصول نہیں ہونا تو باقاعدہ گرجا گھروں میں پادریوں نے تقریبات منعقد کیں اور یہودیوں کے لئے معا
اسی احاطے میں موجود تھی تو زائرین کی حثیت سے انہیں بھی وہاں آنے کی اجازت دے دی گئی۔
خلافت عباسیہ تک یروشلم ایک مسلم شہر رہا۔
اس کے بعد عسائیوں نے دوبارہ یروشلم پر حملہ کرکے اس پر قبضہ کرلیا۔ صلاح الدین ایوبی نے عیسائیوں کے خلاف پچاس سے زائد جنگیں کرکے بیت المقدس دوبارہ حاصل کیا۔ اور پھر سات سو سالوں تک یہ خلافت عثمانیہ کے زیر سلطنت رہا۔ یہودیوں کو بھی دیوار گریہ تک اپنے مذہبی اقدامات کی آزادی رہی۔ اور یہودی آہستہ آہستہ پھر یروشلم میں آباد ہونا شروع ہوگئے۔ اس دوران میں کئی بار انہوں نے خلافت عثمانیہ کے سلطان کو پیسوں کے عوض یروشلم انہیں سونپنے کا لالچ دیا لیکن ناکام رہے۔
اور پھر دوسری جنگ عظیم میں عیسائی سپاہی ہٹلر نے چن چن کر یہودیوں مارا۔ قریبا ساٹھ لاکھ کے قریب یہودیوں کا قتل عام کیا گیا اور یہ دربدر بھاگنے پر مجبور ہوگئے۔ اس
بیت المقدس کی جانب منہ کرکے نماز ادا کرنے کا حکم ہوا۔ کیونکہ یہودی اسی طرف منہ کرکے عبادت کیا کرتے تھے۔
سترہ ماہ بعد ہماری عبادت کا رخ بیت المقدس سے بیت اللہ کی جانب موڑ دیا گیا۔ کیونکہ مسلمانوں کا شروع سے قبلہ اول وہی رہا۔ جسے پہلے حضرت آدم اور پھر حضرت ابراہیم نے تعمیر کیا۔
حضرت عمر رض کے دور حکومت میں اسرائیل یعنی یروشلم پر عیسائیوں کا قبضہ تھا۔ بیت المقدس کے ہی احاطے میں انہوں نے گرجا گھر تعمیر کیا ہوا تھا۔ اور عین تابوت سکینہ والی جگہ وہ گند پھینکا کرتے تھے یہودیوں کی نفرت میں۔ یروشلم کی فتح کے وقت جب حضرت عمر وہاں گئے تو عیسائیوں پر برہم ہوئے۔ وہاں صفائی کروا کر مسجد تعمیر کروائی، اور قرآن میں موجود معراج والے واقعے کی نسبت سے اس مسجد کو اقصی کا نام دیا۔
یہودیوں کی دیوار گریہ بھی اسی احاطے میں موجود تھی تو زائرین کی حثیت سے ا
اس وعدہ کا ذکر سورہ البقرہ میں بھی موجود ہے کہ
"اے بنی اسرائیل، ان نعمتوں کو یاد کرو جو تم پر کی گئیں، اور اپنا وعدہ پورا کرو (ایمان لاو) تاکہ ہم بھی اپنا وعدہ پورا کریں۔"
قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ ہیکل سلیمانی کی تین دفعہ تعمیر ہوگی۔ جوکہ دو دفعہ ہوچکی ہے۔
یہودی اپنے مسیحا اور آخری نبی کے انتظار میں تھے کہ ٹائیٹس کے حملے کے پانچ سو سال بعد نبی آخرالزمان کی ولادت ہوئی۔ یہاں یہودیوں کو یہ جھٹکا لگا کہ سارے نبی حضرت اسحاق کی نسل سے ہیں تو آخری نبی حضرت اسماعیل کی نسل سے کیونکر آگئے۔۔۔ اور انہوں نے ایمان لانے سے انکار کردیا۔
مسلمانوں کے لئے بھی وہ انبیاء کی ہی نشانی تھی اسی لئے ہیکل سلیمانی کو بیت المقدس کا نام دیا گیا۔
اسلام کے آغاز میں یہودیوں کو قائل کروانے کی خاطر ہی بیت المقدس کی جانب منہ کرکے نماز ادا کرنے کا
جنہیں نعوذبااللہ یہودیوں نے دجال، ناجائز اور کیا کیا لقب دیئے۔ یہاں سے یہودیوں میں سے دو الگ قومیں ہوگئیں ایک یہودی اور دوسرے عیسائی۔
یہودیوں نے سازش کرکے حصرت عیسی علیہ السلام کو صلیب پر چڑھانا چاہا اور اللہ تعالی نے انہیں اپنے پاس اٹھالیا۔
اس کے بعد یہودیوں اور عیسائیوں میں کئی چھوٹی موٹی جنگیں ہوئیں۔ پھر عیسائی رومی بادشاہ ٹائیٹس نے اس شدت سے یروشلم پر حملہ کیا کہ اس پورے علاقے کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ ہیکل سلیمانی کو گرادیا۔ جس کی صرف ایک دیوار اس وقت اپنی اصلی حالت میں موجود ہے جسے دیوار گریہ کہاجاتا ہے۔ جہاں یہودی جاکر تورات کی تلاوت کرتے ہیں اور گریہ و زارہ کرتے ہیں۔ تابوت سکینہ بھی نہ جانے کہاں غائب ہوگیا۔
ٹائٹس کے حملے کے بعد یہودی آخری نبی کے انتظار میں تھے۔ کیونکہ اللہ پاک کا ان سے وعدہ تھا کہ انہیں پھر عروج بخشا جائے گا
لقب دیئے۔ یہاں سے یہودیوں میں سے دو الگ قومیں ہوگئیں ایک یہودی اور دوسرے عیسائی۔
یہودیوں نے سازش کرکے حصرت عیسی علیہ السلام کو صلیب پر چڑھانا چاہا اور اللہ تعالی نے انہیں اپنے پاس اٹھالیا۔
اس کے بعد یہودیوں اور عیسائیوں میں کئی چھوٹی موٹی جنگیں ہوئیں۔ پھر عیسائی رومی بادشاہ ٹائیٹس نے اس شدت سے یروشلم پر حملہ کیا کہ اس پورے علاقے کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ ہیکل سلیمانی کو گرادیا۔ جس کی صرف ایک دیوار اس وقت اپنی اصلی حالت میں موجود ہے جسے دیوار گریہ کہاجاتا ہے۔ جہاں یہودی جاکر تورات کی تلاوت کرتے ہیں اور گریہ و زارہ کرتے ہیں۔ تابوت سکینہ بھی نہ جانے کہاں غائب ہوگیا۔
ٹائٹس کے حملے کے بعد یہودی آخری نبی کے انتظار میں تھے۔ کیونکہ اللہ پاک کا ان سے وعدہ تھا کہ انہیں پھر عروج بخشا جائے گا۔
اس وعدہ کا ذکر سورہ البقرہ میں بھی موجود
صندوق کی حفاظت کے لئے ایک ہیکل تعمیر کروانا شروع کیا جو کہ انکی زندگی میں مکمل نہ ہوسکا۔ ان کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام نے جنوں کی مدد سے اس کو مکمل کروایا اور اسی دوران میں آپکی بھی وفات ہوگئی۔
اسی وجہ سے اسے ہیکل سلیمانی کہا جاتا ہے۔
بعد ازاں بابل کے باشاہ بخت نصر نے اسرائیل پر حملہ کیا اور ہیکل سلیمانی کو بھی گرا دیا۔ اور تابوت سکینہ بھی اپنے ساتھ لے گیا۔
سیپرس دی گریٹ نے دوبارہ یہ شہر حاصل کیا۔ یہودیوں کو دوبارہ یہاں آباد کیا اور تابوت سکینہ کو بھی واپس لایا گیا۔ ہیکل سلیمانی ایک دفعہ پھر تعمیر کیا گیا۔
پھر وقت گزرا اور حضرت عیسی علیہ السلام کی آمد ہوئی۔ جنہیں نعوذبااللہ یہودیوں نے دجال، ناجائز اور کیا کیا
نے اللہ کے حکم سے زندہ ہوکر اپنے قاتل کا بتایا۔ اس گائے کی نشانیاں اللہ تعالی نے قرآن پاک میں بیان فرمائیں۔ جوکہ ایک سرخ مائل رنگت کی گائے تھی اور ایسی گائے آج بھی یہودیوں کے نزدیک مقدس مانی جاتی ہے۔
حضرت موسی علیہ السلام کے بعد دیگر نبی آئے۔ اس دوران میں حضرت موسی علیہ السلام اور ان کے دور کی کچھ باقیات، تورات، من و سلوی کا کچھ حصہ بنی اسرائیل نے ایک صندوق میں محفوظ کرلیا۔ یہ اللہ کی طرف حضرت آدم کو دیا گیا ایک خاص صندوق تھا جو نسل در نسل نبیوں کے پاس رہا۔ جسے قرآن میں تابوت سکینہ کے نام پکارا گیا ہے۔ اور یہ یہودیوں کو اپنی جان سے ذیادہ عزیز ہے۔
حضرت داؤد نے جب جالوت کو ہرا کر اس سے تابوت سکینہ حاصل کیا تو یوں بنی اسرائیل نے انہیں نبی تسلیم کرلیا۔ اور حضرت داؤد علیہ السلام اس صندوق کی حفاظت کے لئے ایک ہیکل تعمیر کروانا شروع کیا
حضرت یوسف علیہ السلام بارہ بھائی تھے اسی لئے اللہ تعالی نے ان کے لئے بارہ چشمے جاری کیے۔ اور یوں اس سرزمین کا نام حضرت یعقوب کے لقب سے اسرائیل پڑگیا۔ جسے آج یروشلم بھی کہا جاتا ہے۔
آپ کی نسل سے کم و بیش ستر ہزار انبیائے کرام آئے۔
حضرت یوسف کے بھائی یہودا کی نسل آگے بڑھی تو اس میں سے آنے والے تمام بنی اسرائیلی یہودی کہلائے۔
وقت گزرتا گیا اور حضرت موسی علیہ السلام کا دور آیا۔ جب فرعون نے مصر کی زمین آپ پر تنگ کی تو بنو اسرائیل کے ساتھ آپکو مصر سے نکلنا پڑا۔
اس دوران بنی اسرائیل پر اللہ تعالی کی بہت سے کرم نوازیاں بھی ہوئیں، جس میں من و سلوی، چشموں کی بہتات، مچھلیوں کے شکار کا ذکر قرآن پاک سے بھی ملتا ہے۔ اور وہیں ہمیں ایک گائے کا ذکر بھی ملتا ہے، جس کے لوتھڑے سے مردے نے اللہ کے حکم سے زندہ ہوکر اپنے قاتل کا بتایا۔ اس گائے کی نشانیاں
اصل جنگ کیا ہے؟
بیت المقدس تین مذاہب کی مقدس جگہ
مسلمانوں کا قبلہ اول
عیسائیوں کے لئے یسوع کی جائے ولادت
یہودیوں کے لئے ہیکل سلیمانی
شروع کرتے ہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے۔ جن کے دو بیٹے تھے اسماعیل اور اسحاق۔
اسحاق علیہ السلام کے بیٹے تھے حضرت یعقوب۔
یہیں سے کہانی شروع ہوتی ہے اسرائیل کی۔ اسرائیل یعنی اللہ کا بندہ۔ اور یہ لقب حضرت یعقوب علیہ السلام کو دیا گیا۔
حضرت یوسف علیہ السلام نے جب کفیل مصر بنے تو آپ کو حکم ہوا کہ اپنے تمام خاندان یعنی آل یعقوب کو مصر بلایا جائے۔ اور مصر کی سرزمین کا ایک مخصوص حصہ ان کے لئے مختص کیا گیا۔ اور اللہ کی طرف سے کہا گیا کہ اے آل یعقوب اس سرزمین میں تمھارے لئے برکتیں ہیں۔
حضرت یوسف علیہ السلام بارہ بھائی تھے اسی لئے اللہ تعالی نے ان کے لئے بارہ چشمے جاری
🔴معرکہ ايريز، نیتن یاہو کے لیے ایک نیا سرپرائز:
▪️ نیتن یاہو کے ٹینک اور فوجی، دو دن سے شمالی غزی کی سرحدی لائن پر حرکت کر رہے تھے۔ ان کی بزدلی انہیں پیش قدمی اور داخل ہونے سے روک رہی تھی۔ اس کے باوجود کہ انہیں فضائی، زمینی اور سمندری بمباری کے ساتھ تعاون حاصل تھا اور وہ مسلسل اندر جانے کی کوشش کر رہے تھے۔
▪️ القسام بریگیڈ نے نیتن یاہو کی فوج کو ایک نیا سبق اور نیا جھٹکا دینے کا فیصلہ کیا۔ آج دوپہر دو بجے، دن کی روشنی میں انہوں نے صف بندی کر آپریشن کیا۔
▪️ قلعہ بند ایریز کے علاقہ میں درجنوں ٹینک اور بکتر بند گاڑیوں کے درمیان یہ آپریشن ہوا اور کئی ٹینکوں کو تباہ کر دیا گیا۔ ان میں سوار تقریبا تمام افراد ہلاک یا زخمی ہوئے ہیں۔ ان کی سپلائی لائن منقطع کر دی اور ان پر مارٹر گولے برسائے۔ یہ لڑائی تقریباً 4 گھنٹے تک جاری رہی۔
▪️ نیتن یا
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain