چو رختِ خویش بربستم ازیں خاک ہمہ گفتند باما آشنا بود ولیکن کس ندانست ایں مسافر چہ گفت و باکہ گفت و از کجا بود جب میں نے اس خاکی دنیا سے اپنا رخت سفر باندھا تو سب نے کہا کہ وہ ہمارا آشنا تھا لیکن کسی نے نہ جانا کہ اس مسافر نے کیا کہا اور کس سےکہا اورکہاں کا رہنے والا تھا
"WHEN PEOPLE ALLOW YOU TO KNOW ABOUT THEIR PAIN And TALK ABOUT IT, TAKE YOUR SHOES OFF. IT'S A HOLY PLACE. Be HUMBLE, BE KIND WHEN SOMEONE SHOWS You VULNERABILITY." ~COPIED~
اب کون منتظر ہے ہمارے لئے وہاں شام آگئی ہے لوٹ کے گھر جائیں ہم تو کیا دل کی خلش تو ساتھ رہے گی تمام عمر دریائے غم کے پار اتر جائیں ہم تو کیا منیر نیازی
شام ڈھلتی ہوئی سال کی آخری ملگجی زرد سی شام ڈھلتی ہوئی اِک اُداسی بھرے گیت کی سوگواری سی دُھن روح کے مندمل زخم چِھلتی ہوئی آنکھ جلتی ہوئی ساتھ رہنا نہیں ہوتا گر عمر بھر زندگی میں ہمیں لوگ ملتے ہیں کیوں جن کی قسمت کلائی نہ جُوڑا نہ دِل شاخ در شاخ وہ پھول کِھلتے ہیں کیوں زندگی کے کسی موڑ پر عمر بھر کی رفاقت کے وعدے کُچلتے ہوئے لوگ ڈرتے نہیں کوئی جاتے ہوؤں کو بتایا کرے روح کے زخم تاعُمر بھرتے نہیں کُہر آلود گہری اُداسی میں لپٹی ہوئی شام میں زخم آلود سینے کے اندر کہیں آگ جلتی ہوئی برف کی شال اوڑھے ٹھٹھرتا ہوا نارنجی سرد سورج سِمٹتا ہوا آنکھ کے اُس طرف دور سناٹوں میں برف کی ایک تہہ سی پگھلتی ہوئی سال کی آخری ملگجی زرد سی شام ڈھلتی ہوئی 5:44.. 31DECEMBERTWENTY21
مجھے ہر روز کہتی ہے بتاو کچھ نیا لکھا؟ میں جب بھی اس سے کہتا ہوں کہ ہاں اک نظم لکھی ہے مگر عنوان دینا ہے بہت بے چین ہوتی ہے وہ کہتی ہے سناو میں اسے اچھا سا اک عنوان دیتی ہوں وہ میری نظم سنتی ہے اور اس کی بولتی آنکھیں کسی مصرعہ، کسی تشبیہہ پر یوں مسکراتی ہیں مجھے لفظوں سے کرنیں پھوٹتی محسوس ہوتی ہیں وہ میری نظم کو اچھا سا اک عنوان دیتی ہے اور اس کے آخری مصرعہ کے نیچے اک ادائے بے نیازی سے وہ اپنا نام لکھتی ہے میں کہتا ہوں سنو! یہ نظم میری ہے تو پھر تم نے کیوں اپنے نام سے منسوب کرلی ہے مری یہ بات سن کر اس کی آنکھیں مسکراتی ہیں وہ کہتی ہے بڑا سادہ سا رشتہ ہے کہ جیسے تم مرے ہو،اس طرح یہ نظم میری ہے