بُرا نہ مانیے، آج دنیا کی سب سے بڑی منافق قوم پاکستان میں بستی ہے۔
ڈاکٹر اسرار احمد صاحب~
"مجھے مت بتانا"
مجھے مت بتانا
کہ تم نے مجھے چھوڑنے کا ارادہ کیا تھا
تو کیوں اور کس وجہ سے
ابھی تو تمہارے بچھڑنے کا دکھ بھی نہیں کم ہوا
ابھی تو میں
باتوں کے وعدوں کے شہر طلسمات میں
آنکھ پر خوش گمانی کی پٹی لیے
تم کو پیڑوں کے پیچھے درختوں کے جھنڈ
اور دیوار کی پشت پر ڈھونڈنے میں مگن ہوں
کہیں پر تمہاری صدا اور کہیں پر تمہاری مہک
مجھ پہ ہنسنے میں مصروف ہے
ابھی تک تمہاری ہنسی سے نبرد آزما ہوں
اور اس جنگ میں میرا ہتھیار
اپنی وفا پر بھروسہ ہے اور کچھ نہیں
اسے کند کرنے کی کوشش نہ کرنا
مجھے مت بتانا
پروین شاکر~
دھڑکنِ دل کا شور ہے۔
زندگی، اے زندگی
کتنے سائے محوِ رقص
تیرے در کے پردہ گُل فام پر
کتنے سائے، کتنے عکس
کتنے پیکر محوِ رقص
اور اک تو کہنیاں ٹیکے خم ایام پر
ہونٹ رکھ کر جام پر
سن رہی ہے ناچتی صدیوں کا آہنگِ قدم
جاوداں خوشیوں کی بجتی گتکڑی کے زیر و بم
آنچلوں کی جھم جھماہٹ، پائلوں کی چھم چھمم
اِس طرف، باہر، سرِ کوئے عدم
ایک طوفاں، ایک سیلِ بے اماں
ڈوبنے کو ہیں مرے شام و سحر کی کشتیاں
اے نگارِ دلستاں
اپنی نٹ کھٹ انکھڑیوں سے میری جانب جھانک بھی
زندگی، اے زندگی
مجید امجد~
"زندگی، اے زندگی"
خرقہ پوش و پا بہ گِل
میں کھڑا ہوں، تیرے در پر، زندگی
ملتجی و مضمحل
خرقہ پوش و پابہ گل
اے جہانِ خار و خس کی روشنی
زندگی، اے زندگی
میں ترے در پر چمکتی چلمنوں کی اوٹ سے
سن رہا ہوں قہقہوں کے دھیمے دھیمے زمزمے
کھنکھناتی پیالیوں کے شور میں ڈوبے ہوئے
گرم، گہری، گفتگو کے سلسلے
منقل آتش بجاں کے متصل
اور اِدھر، باہر گلی میں، خرقہ پوش و پابہ گِل
میں کہ اک لمحے کا دل
جس کی ہر دھڑکن میں گونجے دو جہاں کی تیرگی
(جاری ہے)
ﮐﮩﺎﮞ ہے ﺗﻮ ﮐﮧ ﺗﺠﮭﮯ ﺣﺎﻝِ ﺩﻟﺒﺮﺍﮞ ﻟﮑﮭﻮﮞ۔
🖤
تُو آشنائے شدتِ غم ہو تو کچھ کہوں
کِتنا بڑا عذاب ہے جینا ترے بغیر
باقی احمد پوری~
ہر ظلم تیرا یاد ہے___میں گجنی تو نہیں ہوں
🌚
🖤کچی مٹی کی خوشبو
اس قدر پیار سے اے جان جہاں رکھا ہے
دل کے رخسار پہ اس وقت تری یاد نے ہات
یوں گماں ہوتا ہے گرچہ ہے ابھی صبح فراق
ڈھل گیا ہجر کا دن آ بھی گئی وصل کی رات
فیض احمد فیض~
اٹھ رہی ہے کہیں قربت سے تری سانس کی آنچ
اپنی خوشبو میں سلگتی ہوئی مدھم مدھم
دور افق پار چمکتی ہوئی قطرہ قطرہ
گر رہی ہے تری دل دار نظر کی شبنم
دشت تنہائی میں اے جان جہاں لرزاں ہیں
تیری آواز کے سائے ترے ہونٹوں کے سراب
دشت تنہائی میں دوری کے خس و خاک تلے
کھل رہے ہیں ترے پہلو کے سمن اور گلاب
لوگوں کو ایسی نمازیں حاصل ہوگئی ہیں جن کے ساتھ کبر اور حسد جمع ہوسکتا ہے۔ لوگوں کو ایسے روزے معلوم ہوگئے ہیں جو جھوٹ ، ظلم اور دوسروں کے حقوق کھانے سے فاسد نہیں ہوتے۔ لوگوں کو ایسا دین ہاتھ آگیا ہے جو صرف بحث و مباحثہ کرنے کے لئے ہے نہ کہ عمل کرنے کے لئے۔
مولانا وحید الدین خاں~
جب تُمہارا نفس اور شیطان تمہیں وسوسے دِلوائے کہ ؛ تُمہاری دُعائوں کا کوئی فائدہ نہیں ہونے والا تو خود سے وہی کہو جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا تھا کہ ؛ میں صرف اپنے پروردگار کو پُکارتا رہوں گا ، مُجھے یقین ہے کہ ؛ میں اپنے پروردگار سے مانگ کر کبھی محروم نہ رہوں گا!۔
( سورة مریم ۴۸ )
چاند ایسا حسین، کہ چُھونے کو دل چاہے۔
مرے اندر سمندر کی سی گہرائی ہے
دریاؤں سی شورش ہے
یہ صحراؤں سی پہنائی ہے
طوفانوں سی طاقت ہے
اسی کو شانت رکھنے کے لیے ہر دم
میں کمرے میں پڑا دیوار تکتا ہوں
مجھے جس شے سے بھی تحریک ملتی ہو
میں اس سے دور رہتا ہوں
مگر برسوں ریاضت بعی مرے کچھ کام نہ آئی
وه کیسی جادوئی آنکھیں ہیں کہ سینہ دہکتا ہے
میں چاہے برف کی قاشیں نگل جاؤں
مجھے راحت نہیں ملتی
سرمد سروش~
"آتش کا پرکالہ"
یہ کیسی لادوا سوزش ہے سینے میں
زباں پر برف کی قاشوں کو پگهلاؤں
بھلے مینتهول مائع کی بھری شیشی غٹک جاؤں
مجھے راحت نہیں ملتی
مرے دل کی جگہ آتش کا پرکالہ دهڑکتا ہے
ہر اک شریان سے پگھلا ہوا لاوا گزرتا ہے
عجب وحشت کا عالم ہے
کہیں میں کچھ بھیانک ہی نہ کر جاؤں
جبلی خوف بھی میری نگہبانی نہیں کرتا
تمہیں کہ دو کہ ایسے میں مجھے کیا روک پاۓ گا
۔ ۔ ۔
یہ جو آئینہ ہے ___ دیکھوں تو خلا دِکھتا ہے
رات ٹوٹ پڑتی ہے جب سکوت زنداں پر
تم مرے خیالوں میں چھپ کے گنگناتے ہو
احمد ندیم قاسمی~
بے دلی کیا یوں ہی دن گزر جائیں گے
صرف زندہ رہے ہم تو مر جائیں گے
رقص ہے رنگ پر رنگ ہم رقص ہیں
سب بچھڑ جائیں گے سب بکھر جائیں گے
یہ خراباتیان خرد باختہ
صبح ہوتے ہی سب کام پر جائیں گے
کتنی دل کش ہو تم کتنا دلجو ہوں میں
کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے
ہے غنیمت کہ اسرار ہستی سے ہم
بے خبر آئے ہیں بے خبر جائیں گے
جون ایلیا~
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain