جب شعبان کی پندرھویں شب ہو تورات کو قیام کرو اور دن کو روزہ رکھو کیونکہ غروب آفتاب کے وقت سے ہی اللہ تعالیٰ کی رحمت آسمان دنیا پر نازل ہوجاتی ہے اور اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ہے کوئی مغفرت کا طلب کرنے والا کہ میں اسے بخش دوں ۔ ہے کوئی رزق مانگنے والا کہ میں اس کو رزق دوں۔ ہے کوئی مصیبت زدہ کہ میں اسے مصیبت سے نجات دوں۔ یہ اعلان طلوع فجر تک ہوتا رہتا ہے۔ (سنن ابنِ ماجہ ص 100، شعب الایمان للبیہقی ج ۳ ص 378، مشکوٰۃ ج 1 ص 278) post 14
''جب شعبان کی پندرہویں شب آتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان ہوتا ہے، ہے کوئی مغفرت کا طالب کہ اس کے گناہ بخش دوں ، ہے کوئی مجھ سے مانگنے والا کہ اسے عطا کروں ۔ اس وقت اللہ تعالیٰ سے جو مانگا جائے وہ ملتا ہے۔ وہ سب کی دعا قبول فرماتا ہے سوائے بدکار عورت اور مشرک کے''۔ (شعب الایمان للبیہقی ج۳ ص 373) حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: post 13
رحمت کی رات: شبِ برأت ، فرشتوں کو بعض امور دئیے جانے اورمسلمانوں کی مغفرت کی رات ہے۔ اس کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ یہ رب کریم کی رحمتوں کے نزول کی اور دعاؤں کے قبول ہونے کی رات ہے۔ اسی حوالے سے چند احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں: حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہےost 12
حضرتِ ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ''شعبان کی پندرہویں شب میں اللہ تعالیٰ آسمانِ دنیا پر (اپنی شان کے مطابق) جلوہ گر ہوتا ہے اور اس شب میں ہر کسی کی مغفرت فرما دیتا ہے سوائے مشرک اور بغض رکھنے والے کے''۔ (شعب الایمان للبیہقی جلد 3 ص 380) post 11
میں نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے یہ خیال ہوا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی دوسری اہلیہ کے پاس تشریف لے گئے ہیں۔ آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب آسمانِ دنیا پر (اپنی شان کے مطابق) جلوہ گر ہوتا ہے اور قبیلہ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے۔ (جامع ترمذی جلد 1 ص 156، سنن ابن ماجہ ص 100، مسند احمد جلد 6 ص 238) post 10
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں : ایک رات میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے پاس نہ پایا تو میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلاش میں نکلی میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنت البقیع میں تشریف فرما ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تمہیں یہ خوف ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہارے ساتھ زیادتی کریں گے۔ post 9
مغفرت کی رات: شبِ برأت کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس شب میں اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے بے شمار لوگوں کی بخشش فرما دیتا ہے۔ اسی حوالے سے چند احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں: Post 8
چونکہ یہ رات گذشتہ سال کے تمام اعمال بارگاہِ الہٰی میں پیش ہونے اورآئندہ سال ملنے والی زندگی اوررزق وغیرہ کے حساب کتاب کی رات ہے اس لیے اس رات میں عبادت الہٰی میں مشغول رہنا رب کریم کی رحمتوں کے مستحق ہونے کا باعث ہے اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہی تعلیم ہے۔.post 7
حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تم جانتی ہو کہ شعبان کی پندرہویں شب میں کیا ہوتا ہے؟ میں نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ فرمائیے۔ ارشاد ہوا: آئندہ سال میں جتنے بھی پیدا ہونے والے پیدا ہوتے ہیں وہ سب اس شب میں لکھ دئیے جاتے ہیں اور جتنے لوگ آئندہ سال مرنے والے ہوتے ہیں وہ بھی اس رات میں لکھ دئیے جاتے ہیں اوراس رات میں لوگوں کا مقررہ رزق اتارا جاتاہے۔(مشکوٰۃ المصابیح ، جلد 1 ص 277)post 6
یہاں ایک شبہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ امور تو پہلے ہی سے لوح محفوظ میں تحریر ہیں پھر اس شب میں ان کے لکھے جانے کا کیا مطلب ہے؟ جواب یہ ہے کہ یہ امور بلاشبہ لوح محفوظ میں اللہ پاک علم اللہ السابق کے تحت تحریر ہیں لیکن اس شب میں مذکورہ امورکی فہرست لوح محفوظ سے نقل کرکے ان فرشتوں کے سپرد کی جاتی ہے جن کے ذمہ یہ امور ہیں۔ post 5
علامہ قرطبی مالکی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ایک قول یہ ہے کہ ان امور کے لوحِ محفوظ سے نقل کرنے کا آغاز شبِ برأت سے ہوتا ہے اور اختتام لیلۃ القدر میں ہوتا ہے۔ (الجامع الاحکام القرآن، تفسیر قرطبی، ج 16، ص 128) post 4
ان آیات کی تفسیر میں حضرتِ عکرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اوربعض دیگر مفسرین نے بیان کیا ہے کہ ''لیلۃ مبارکۃ'' سے پندرہ شعبان کی رات مراد ہے ۔ اس رات میں زندہ رہنے والے ، فوت ہونے والے اور حج کرنے والے سب کے ناموں کی فہرست تیار کی جاتی ہے اور جس کی تعمیل میں ذرا بھی کمی بیشہ نہیں ہوتی ۔ اس روایت کو ابن جریر، ابن منذر اور ابنِ ابی حاتم نے بھی لکھا ہے۔ اکثر علماء کی رائے یہ ہے کہ مذکورہ فہرست کی تیاری کا کام لیلۃ القدرمیں مکمل ہوتا ہے۔ اگرچہ اس کی ابتداء پندرہویں شعبان کی شب سے ہوتی ہے۔ (ماثبت من السنہ ، شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ ، ص 194) post 3
تقسیمِ امور کی رات: ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''قسم ہے اس روشن کتاب کی بے شک ہم نے اسے برکت والی رات میں اتارا، بے شک ہم ڈر سنانے والے ہیں اس میں بانٹ دیا جاتا ہے ہر حکمت والا کام''۔ (سورۃ الدخان 2-4) ''اس رات سے مراد شبِ قدر ہے یا شبِ برأت''۔ (خزائن العرفان ، مولانا نعیم الدین مرادآبادی ، حاشیہ ذیل آیات مذکورہ) post 2
15 شعبان المعظم شب برأت کی حقیقت و فضیلت شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جس طرح مسلمانوں کے لیے زمین میں دو عیدیں ہیں اسی طرح فرشتوں کی آسمان میں دو عیدیں ہیں۔ ایک شبِ برأت اور دوسری شبِ قدر۔ جس طرح مومنوں کی عیدیں عید الفطر اور عید الاضحٰی ہیں، فرشتوں کی عیدیں شبِ برأت اورشبِ قدرہیں ۔ فرشتوں کی عیدیں رات کو اس لیے ہیں کہ وہ رات کو سوتے نہیں بلکہ ہمہ وقت مشغول عبادت و اطاعت ہوتے ہیں۔ جب کہ آدمی رات کو سوتے ہیں اس لیے ان کی عیدیں دن کو ہیں ۔ (غنیۃ الطالبین ، شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ ، ص 449) post 1
*ہماری بری عادات میں سے ایک یہ بری عادت بھی ہے کہ ہم اپنے مطلب کی بات دماغ میں بیٹھا لینے کے بعد دماغ کو تالا لگا کر چابی نگل لیتے ہیں اور کچھ بھی سمجھنے سے انکاری ہوجاتے ہیں ۔* *پھر چاہے وہ سمجھنا ہمارے لئے کتنا ہی ضروری کیوں نہ ہو، ہم نہیں سمجھتے کہ کہیں کسی کی بات مان لینے میں ' انا ' کو شکست نہ ہوجائے، کیونکہ ہماری '' انا '' بعض اوقات ہمارے ایمان سے بھی اوپر ہوجایا کرتی ہے ۔*.