"اللّہ پاک آپکی ہر جائز خواہش پوری کرے آمین ۔"♥️🙂




بقیہ سابقہ پوسٹ۔ ۔ ۔ ۔
۳؎ اﷲ تعالٰی کے بینک ہیں جہاں جمع کرنے سے بے شمار نفع ملتا ہے۔سبحان الله ! کیسی نفیس تعلیم ہے۔دینے سے مراد راہِ خدا میں دینا ہے خواہ بال بچوں کو دے یا عزیزوں یا غریبوں کو بشرطیکہ یہ دینا ناموری کے لیے نہ ہو الله رسول کی خوشنودی کے لیے ہو۔
۴؎ھو ذاھب میں ھو ضمیر بندے کی طرف لوٹتی ہے۔ذاھب سے مراد مرنے والا یعنی ان تین مالوں کے سوا اور مالوں کا یہ حال ہے کہ بندہ مرجاتا ہے اور وہ مال دوسروں کے لیے رہ جاتا ہے جیسے زمین باغات،مکانات،نقدی،بنک بیلنس وغیرہ۔اس فرمان عالی کا مقصد یہ ہے کہ مال میں سے اﷲ رسول کا حصہ ضرور نکالتا رہے،یہ مقصد نہیں کہ مکان جائیداد بنائے ہی نہیں،اپنے بچوں کو فقیر کرکے چھوڑے یا یہ مقصد ہے کہ مال کی محبت دل میں نہ ہو دل خاص الله رسول کے لیے ہو۔
مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:7 حدیث :5166
شرح حدیث
۱؎ یعنی فخر و تکبر کے انداز میں لوگوں سے کہتا رہتا ہے کہ یہ میرا مکان ہے،یہ میری جائیداد ہے،یہ میرا کنواں ہے،یہ میرا فلاں مال ہے یہ برا ہے۔ انسان کو چاہیے کہ یقین رکھے کہ میں اور میرا مال سب الله تعالٰی کی ملک ہے میرے پاس چند روزہ ہے عارضی ہے۔خیال رہے کہ جسے انسان اپنا مال کہے اس کا مال یعنی انجام نرا وبال ہے اور جو مال ذریعہ عبادت ہے وہ ذریعہ آمال ہے جس سے بہت امیدیں وابستہ ہیں۔
۲؎ یعنی جو مال انسان کے کام آویں وہ صرف تین ہیں ان کے علاوہ سب دوسروں کے کام آتے ہیں۔خیال رہے کہ انّمالہ میںما مو صولہ ہے اورلہاس کا صلہ اور من مالہ میںمن بعضیت کا ہے یعنی اس کے مال میں سے وہ جو اسے مفید ہو صرف تین ہیں۔
بقیہ اگلی پوسٹ میں ۔ ۔ ۔
سلسلہ فیضان حدیث
حدیث
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى اللَّه عليه وسلم-: "يَقُولُ الْعَبْدُ: مَالِي مَالِي، وَإِنَّ مَا لَهُ مِنْ مَالِهِ ثَلَاثٌ: مَا أَكَلَ فَأَفْنَى، أَوْ لَبِسَ فَأَبْلَى، أَوْ أَعْطَى فَاقْتَنَى،وَمَا سِوَى ذَلِكَ فَهُوَ ذَاهِبٌ وَتَارِكُهُ لِلنَّاسِ". رَوَاهُ مُسْلِمٌ.
ترجمہ
روایت ہے حضرت ابوہریرہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کہ بندہ کہتا ہے میرا مال میرا مال ۱؎ حالانکہ اس کے مال صرف تین ہیں۲؎ جو کھا کر ختم کردے یا پہن کر گلا دےیا دے تو جمع کردے ۳؎ جو ان کے علاوہ ہے وہ تو جانے والا ہے اور وہ اسے لوگوں کے لیے چھوڑنے والا ہے ۴؎ (مسلم)
شرح حدیث اگلی میں۔ ۔ ۔
السلام علیکم
صبح بخیر
الٰہی میرے دل کو نفاق سے اور میرے عمل کو دکھلاوے سے اور میری زبان کو جھوٹ سے اور میری آنکھ کو بددیانتی سے پاک رکھ کیونکہ تو جانتا ہے خیانت والی آنکھ کو اور اس کو جسے سینے چھپاتے ہیں
آمین

صحابہ و تابعین ناپسند کرتے تھے کہ انسان اپنے بچے کو ایسے چیز دے کر باہر بھیجے جسے مسکین دیکھے تو اپنے گھر والوں کے سامنے روئے اور یتیم دیکھے تو اپنے گھر والوں کے سامنے روئے۔
(مصنف ابن أبي شيبة : 36669)
سلسلہ فیضان حدیث
حدیث
وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى اللَّه عليه وسلم-: "قَدْ أَفْلَحَ مَنْ أَسْلَمَ وَرُزِقَ كَفَافًا، وَقَنَّعَهُ اللَّهُ بِمَا آتَاهُ". رَوَاهُ مُسْلِمٌ
ترجمہ
روایت ہے حضرت عبدالله ابن عمرو سے فرماتے ہیں فرمایا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کہ وہ کامیا ب ہوگیا جو مسلمان ہوا اور بقدر کفایت رزق دیا گیا اور الله نے اسے دیئے ہوئے پر قناعت دی ۱؎ (مسلم)
شرح حدیث
۱؎ یعنی جسے ایمان و تقویٰ بقدر ضرورت مال اور تھوڑے مال پر صبر یہ چار نعمتیں مل گئیں اس پر الله کا بڑا ہی کرم و فضل ہوگیا،وہ کامیاب رہا اور دنیا سے کامیاب گیا۔
)مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:7 حدیث نمبر:5165 )
السلام علیکم
صبح بخیر
اے اللّٰه میں تجھ سے تندرستی،پاک دامنی،امانت داری اور اچھے اخلاق اور تقدیر پر رضا مانگتا ہوں
آمین

مفتی احمد یار خان نعیمی کی تڑپ😭
حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
حضور انور ﷺ کا سپاہی بننا ملائکہ کے لئے فخر ہے ،جنگ بدر میں پانچ ہزار فرشتے اترے یہ سب حضور ﷺ کے سپاہی تھے، الله کے لیے مجھے تو حضورﷺ اپنے در کا جھاڑو والا بنا کر رکھ لیں۔
(مرآة المناجيح 283/5)


مَلأَ من حُسنهِ عَيني فمَا نَظرت
من بعدِ رُؤيتهِ يومًا إلى أَحد
آپ کے حسن سے میری آنکھیں معمور ہوچکی ہیں
آپ کو دیکھنے کے بعد میں نے کسی کی طرف نظر ہی نہیں اٹھائی
#مرشد
کریم اپنے کرم کا صدقہ لَٸِیم بے قدر کو نہ شرما
😭😭😭
تو اور رضا سے حساب لینا رضا بھی کوٸی حساب میں ہے
شرح حدیث
۱؎ یہاں آل محمد صلی الله علیہ وسلم سے مراد حضور صلی الله علیہ وسلم کے خاص امتی ہیں جو قیامت تک ہوتے رہیں گے لہذا حضور صلی الله علیہ وسلم کی دعا ان کے حق میں قبول ہوئی،یہ نہیں کہاجاسکتا بہت سید بڑے امیر ہوتے ہیں۔جمیع آل محمد نہیں فرمایا دیکھو شرح مرقاۃ اس حدیث کی۔کفاف بنا ہےکف سے بمعنی روکنا،اس سے مراد وہ مال ہے جو انسان کو سوال کرنے سے بچائے،بھیک سے روک لے یعنی بقدر ضرورت مالی ضرورت ہر شخص کی مختلف ہے لہذاکفاف بھی ہر شخص کا علیحدہ۔اس فرمان عالی میں امت کو تعلیم ہے کہ بقدر ضرورت مال پر قناعت کریں زیادتی کی ہوس میں ذلیل و خوار نہ ہو۔(اشعہ)
مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:7 حدیث نمبر:5164
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain