حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ الله علیہ لکھتے ہیں: صوفیاء فرماتے ہیں: ہر چیز کو عقل سے پہچانو مگر جناب مصطفیٰ ﷺ کو عشق سے مانو عقل والا ابوجہل نہ پہچان سکا اور بے عقل اونٹ (حضور اقدس ﷺ کی شان)پہچان گئے۔ (مرآة المناجيح 120/5)
شرح حدیث: ۱؎ یعنی تندرستی اور عبادت کے لیے موقعہ مل جانا الله کی بڑی نعمتیں ہیں مگر تھوڑے لوگ ہی اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں اکثر لوگ انہیں دنیا کمانے میں صرف کرتے ہیں حالانکہ دنیا کی حقیقت یہ ہے کہ محنت سے جوڑنا،مشقت سے اس کی حفاظت کرنا،حسرت سے چھوڑنا۔خیال رہے کہ فراغت اور بیکاری میں فرق ہے۔فراغت اچھی چیز ہے،بیکاری بری چیز۔فرمایا نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے کہ جنتی لوگ کسی چیز پر حسرت نہ کریں گے سوائے ان ساعتوں کے جو انہوں نے دنیا میں الله کے ذکر کے بغیر صرف کردیں۔(مرقاۃ) مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:7 حدیث نمبر:5155
سلسلہ فیضان حدیث حدیث:4 حدیث عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى اللَّ ه عليه وسلم-: "نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِيهِمَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ: الصِّحَّةُ وَالْفَرَاغُ". رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ. ترجمہ: روایت ہے حضرت ابن عباس رضی الله عنھما سے فرماتے ہیں فرمایا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے دو۲ نعمتیں ہیں جن میں بہت لوگ گھاٹے میں ہیں تندرستی اور فراغت ۱؎ (بخاری) شرح حدیث اگلی پوسٹ میں ۔ ۔ ۔ ۔
❤السلام علیکم ❤ ❤صبح بخیر ❤ الٰہی مجھے اپنی محبت نصیب کر اور اس کی محبت بھی جس کی محبت تیرے ہاں نفع دے الٰہی مجھے جو تو میری پسندیدہ چیز دے تو اس میں مجھے اس کی قوت بخش جسے تو پسند فرماتا ہے الٰہی جو میری محبوب چیز تو مجھ سے دور رکھے تو اسے میرے لیے اپنی محبوب چیز میں فراغت بنادے آمین
فرمان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم* ہے " من لم يشكر الناس لم يشكر الله " . رواه أحمد والترمذي اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص لوگوں کا شاکر نہیں ہوتا وہ اللہ تعالیٰ کا بھی شکر ادا نہیں کرتا (احمد ترمذی) مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ عطایا کا بیان ۔ حدیث 241
حضرت عبداللہ بن عباس رضی ﷲ عنہما فرماتے ہیں: والدین کے سامنے کپڑوں کو بھی نہ جھاڑیں کہ انہیں مٹی سے تکلیف ہوگی۔ الله کریم ہمیں والدین کا فرمانبردار بنائے
سوال: *کھانے کو عیب لگانا کیسا؟* جواب: کھانے کو عیب نہ لگایا جاۓ مثلا تیکھا ہے، نمک زیادہ ہے، کچا رہ گیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ *پیارے آقا ﷺ کی عادت کریمہ یہی تھی کہ کھانا پسند آتا تو تناول فرما لیتے، ورنہ ہاتھ روک لیتے۔* 👈البتہ اگر عیب بیان کرنا ضرورت کے سبب ہو مثلا جس نے پکایا *اسے سمجھانا یا کہلوانا مقصد ہے تاکہ آئندہ خیال رکھے تو اس نیت سے عیب بتانے میں حرج نہیں۔* (ماخوذ از "ملفوظات امیرِ اہلِ سنّت" جلد:1 ص392)
بقیہ سابقہ پوسٹ۔ ۔ ۔ ۔ خلاصہ یہ ہے کہ اے گنہگار رب کی رحمت سے مایوس نہ ہو بلکہ توبہ کر لے وہ غفور رحیم ہےتجھ سے گناہ کا صدور تقاضائے حکمت الٰہی ہے تم سے کوئی گناہ نہ ہو یہ ناممکن ہے۔یہاں سے جانے سے مراد ہلاک کرنا نہیں ہے بلکہ انہیں آسمانوں پر پہنچا دینا،فرشتوں کے ساتھ رکھنا اور زمین پر دوسری قوم قابلِ گناہ کو بسانا مراد ہے حوالہ: مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:3 حدیث نمبر:2328
شرح حدیث: ۱؎ اس حدیث کا مقصد لوگوں کو گناہ پر دلیر کرنا نہیں بلکہ توبہ کی طرف مائل کرنا ہے یعنی اے انسانو! اگر تم بھی فرشتوں کی طرح سارے ہی معصوم بے گناہ ہوتے تو کوئی قوم ایسی پیدا کی جاتی جو غلطی و خطاء سے گناہ کرلیا کرتی پھر توبہ کرتی اسے رب تعالٰی معاف کرتا کیونکہ خلقت رب تعالٰی کی صفات کا مظہر ہے اور جیسے رب کی صفت رزاق ہے ایسے ہی اس کی صفت غفار بھی ہے۔رزاقیت کا ظہور رزق و مرزوق سے ہوتا ہے غفاریت کی جلوہ گری گناہ اور گنہگار سے ہوتی ہے۔جو یہ حدیث دیکھ کر گناہ پر دلیر ہو اور پھر گناہ کرے تو کافر ہوا اور یہاں ذکر گناہ کا ہے نہ کہ کفر کا۔ بقیہ اگلی پوسٹ میں ۔ ۔ ۔ ۔
روایت ہے حضرت ابوہریرہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسولﷲصلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر تم گناہ نہ کرو توﷲتمہیں لے جائے اور ایسی قوم لائے جو گناہ کریں پھر معافی مانگیں توﷲانہیں بخشے ۱؎ (مسلم) شرحِ حدیث اگلی پوسٹ پر۔ ۔ ۔
الٰہی میری خطائیں،میری نادانی اور میرے ہر کام میں حد سے بڑھ جانے کو بخش دے اور جو کچھ تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے اسے بخش دے الٰہی میری دانستہ اور نادانستہ اور ساری خطائیں اور برے ارادے جو میرے پاس ہیں بخش دے الٰہی وہ بخش دے جو میں نے آگے کیے اور جو پیچھے کیے جو چھپ کرکیے اور جو تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے تو ہی آگے بڑھانے والا ہے تو ہی پیچھے کردینے والا ہے اور تو ہر چیز پر قادر ہے ۔ الہی میری اس صبح کو اپنے قرب کا ذریعہ بنا مجھے اس دن تمام گناہوں سے محفوظ رکھ اس دن میرے لیے خیر کا معاملہ فرما صبح بخیر
میں درخت کے نیچے بیٹھا سوچ رہا تھا کہ سوشل میڈیا سے پہلے لوگوں کی محبت کیسی ہوگی؟پھر میری نظر ایک پرانے درخت کے موٹے سے تنے میں کرید کر لکھے ہوئے چند حروف پر پڑی جو تقریبا مٹ چکے تھے مگر یہ بتا رہے تھے کہ اظہار چاہے کتنا ہی با ضرر تھا مگر ان کی محبت ہمیشہ بے ضرر رہی
جب تھا تو بہت پُختہ تھا اِک شخص سے رشتہ ٹُوٹا ہے تو اب ٹُکڑے سنبھالے نہیں جاتے کچھ لوگوں کی ہر دور میں پڑتی ہے ضرورت کچھ لوگ کبھی دِل سے نِکالے نہیں جاتے muhafiz3
"اتنے میں وہ رفیقِ نبوت بھی آگیا" "جس کے بناۓ عشق و محبت ہےاُستوار" "بولے حضورﷺ فکرِعیال بھی چاہیے" کہنے لگا وہ عشق و محبت کا رازدار" "پروانے کو ہے چراغ بلبل کو پھول بس" "صدیق کے لیے ہے خدا کا رسول بس" ڈاکٹر اقبال