مجھ سے بچھڑ کے تو بھی تو روئے گا عمر بھر
یہ سوچ لے کہ میں بھی تری خواہشوں میں ہوں
تم کیا جانو اپنے آپ سے کتنا میں شرمندہ ہوں
چھوٹ گیا ہے ساتھ تمہارا اور ابھی تک زندہ ہوں
اپنی حالت کا خود احساس نہیں ہے مجھ کو
میں نے اوروں سے سنا ہے کہ پریشان ہوں میں
کبھی خود پہ کبھی حالات پہ رونا آیا
بات نکلی تو ہر اک بات پہ رونا آیا
اب تو خوشی کا غم ہے نہ غم کی خوشی مجھے
بے حس بنا چکی ہے بہت زندگی مجھے
شکیل بدایونی
درد جب جسم میں سرطان کی صورت پھیلا
تب کھلا ترک - تعلق کی اذیت کیا ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
اسے تو صرف بچھڑنے کا دُکھ ہے اورمجھے
یہ غم بھی ہے وہ مجھے یاد کر کے روئے گا

پوری آواز سے اک روز پکاروں تجھ کو
اور پھر میری زباں پر ترا تالا لگ جائے
گفتار میں وہ اپنی بے باک ہو گیا ہے
جیسے کہ ہر کمی سے وہ پاک ہو گیا ہے
آنکھوں کی پتلیوں میں ٹھہرا وہی ہے منظر
جس سے کہ دل ہمارا صد چاک ہو گیا ہے
رکھنا پڑے گا پھر بھی ہم کو بھرم وفا کا
مانا کہ جلتے جلتے دل خاک ہو گیا ہے
رکھوں میں کیسے آخر زخموں پہ اپنے مرہم
ہر غم میرے بدن کی پوشاک ہوگیا ہے
کہنے کو ہم سے بچھڑا اک شخص فوزیہ،پر
ماحول کیوں یہ سارا نمناک ہو گیا ہے
فوزیہ مغل
میں مرا آخری سہارا تھا
خوب رویا میں یاد کرکے مجھے
عزیر حجازی
جان لیوا ہے مسافت میں اکیلا پن بھی
صرف موسم نہیں، رستے بھی خراب آتے ہیں
سلیم کوثر
عید کا دن ہے سو کمرے میں پڑا ہوں اسلمؔ
اپنے دروازے کو باہر سے مقفل کر کے
اسلم کولسری
آج روٹھے ہوئے ساجن کو بہت یاد کیا
اپنے اجڑے ہوئے گلشن کو بہت یاد کیا
جب کبھی گردشِ تقدیر نے گھیرا ہے ہمیں
گیسوئے یار کی الجھن کو بہت یاد کیا
شمع کی جوت پہ جلتے ہوئے پروانوں نے
اک ترے شعلہ دامن کو بہت یاد کیا
جس کے ماتھے پہ نئی صبح کا جھومر ہو گا
ہم نے اس وقت کی دلہن کو بہت یاد کیا
آج ٹوٹے ہوئے سپنوں کی بہت یاد آئی ہے
آج بیتے ہوئے ساون کو بہت یاد کیا
ہم سرِ طور بھی مایوس تجلی ہی رہے
اس درِ یار کی چلمن کو بہت یاد کیا
مطمئن ہو ہی گئے دام و قفس میں ساغر
ہم اسیروں نے نشیمن کو بہت یاد کیا
ساغرصدیقی


اک چبھن ہے کہ جو بے چین کیے رہتی ہے
ایسا لگتا ہے کہ کچھ ٹوٹ گیا ہے مجھ میں
سَکُوت لہجہ ، اَدُھوری آنکھیں ، جَمود سوچِیں تِیرا تَصّور
اَلفاظ بِکھرے ، مِزاج مَدھّم ، ناراض مَوجِیں تِیرا تَصّور
عَذاب لَمحے ، خِراج آھیں ، بَرات خوشیاں ، جِہات بَرہم
تَمّنا رُخصَت ، دَفن اُمیدیں ، بـے رَنگ سَوچِیں تِیرا تَصّور
جَوان رَنجِش و دَرد تازہ ، اُدھار سانسِیں ، جُھلستا آنگن
وِیران دَامن ، اُجاڑ پہلو ، وُہ تِیری کَھوجِیں تِیرا تَصّور
سَوال عادت ، جَواب حِکمت ، عِلاج دَرشن ، مریض عُجلت
جَمال مَقّصُود ، حسن مَفقُود ، نِگاھیں پُوچھیں تِیرا تَصّور
اَنجان راھیں ، فَریب بانہیں ، نَقاب چِہرے ، سَرد نِگاھیں
ہَمدرد بارش ، ھے دِلکی خواھش ، پلٹ کے لَوٹے تِیرا تصور
اَصنام پَتھر ، قُلوب پَتھر ، اَنّائیں پَتھر ، اِنسان پَتھر
سَکُون دِلبر ، نرم کلامی ، گَداز سوچِیں تِیرا تَصّور
تجھ کو میری نہ مجھے تیری خبر جائے گی
عید اب کے بھی دبے پاؤں گزر جائے گی
"ظفر اقبال"
دردِ مَحبَّت کی لذت اب سہی نہیں جاتی
کوئی اس مرض کا بھی تو طبیب نکلے
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain