Damadam.pk
muhafiz3's posts | Damadam

muhafiz3's posts:

muhafiz3
 

مسئلہ ۷
روزہ دار کے پیٹ میں کسی نے نیزہ یا تیر بھونک دیا، اگرچہ اس کی بھال یا پیکان (تیر یا نیزے کی نوک۔) پیٹ کے اندر رہ گئی یا اس کے پیٹ میں جھلّی تک زخم تھا، کسی نے کنکری ماری کہ اندر چلی گئی تو روزہ نہیں ٹوٹا اور اگر خود اس نے یہ سب کیا اور بھال یا پیکان یا کنکری اندر رہ گئی تو جاتا رہا۔ (3) (درمختار، ردالمحتار)

muhafiz3
 

مسئلہ ۶
غسل کیا اور پانی کی خنکی (ٹھنڈک) اندر محسوس ہوئی یا کُلّی کی اور پانی بالکل پھینک دیا صرف کچھ تری مونھ میں باقی رہ گئی، تھوک کے ساتھ اُسے نگل گیا یا دوا کوٹی اور حلق میں اُس کا مزہ محسوس ہوا یا ہڑ چوسی اور تھوک نگل گیا، مگر تھوک کے ساتھ ہڑ (ایک دوا) کا کوئی جُز حلق میں نہ پہنچا یا کان میں پانی چلا گیا یا تنکے سے کان کھجایا اور اُس پر کان کا میل لگ گیا پھر وہی میل لگا ہوا تنکا کان میں ڈالا، اگرچہ چند بار کیا ہو یا دانت یا مونھ میں خفیف چیز بے معلوم سی رہ گئی کہ لعاب کے ساتھ خود ہی اُتر جائے گی اور وہاُتر گئی یا دانتوں سے خون نکل کر حلق تک پہنچا، مگر حلق سے نیچے نہ اُترا تو ان سب صورتوں میں روزہ نہ گیا۔ (1) (درمختار، فتح القدیر

muhafiz3
 

مسئلہ ۵
بوسہ لیا مگر انزال نہ ہوا تو روزہ نہیں ٹوٹا۔ یوہیں عورت کی طرف بلکہ اس کی شرم گاہ کی طرف نظر کی مگر ہاتھ نہ لگایا اور انزال ہوگیا، اگرچہ بار بار نظر کرنے یا جماع وغیرہ کے خیال کرنے سے انزال ہوا، اگرچہ دیر تک خیال جمانے سے ایسا ہوا ہو ان سب صورتوں میں روزہ نہیں ٹوٹا۔ (5) (جوہرہ، درمختار)

muhafiz3
 

مسئلہ ۴
بھری سنگی لگوائی (3) یا تیل یا سُرمہ لگایا تو روزہ نہ گیا، اگرچہ تیل یا سُرمہ کا مزہ حلق میں محسوس ہوتا ہو بلکہ تھوک میں سرمہ کا رنگ بھی دکھائی دیتا ہو، جب بھی نہیں ٹوٹا۔ (4) (جوہرہ، ردالمحتار)
(3)
… جہاں سنگی لگانی ہوتی ہے پہلے اس جگہ کو تیز دھار آلے (استرے) وغیرہ سے زخم لگاتے ہیں ، پھر کسی جانور کے سینگ کا چوڑا حصہ زخم پر رکھ کر اس کا باریک حصہ اپنے منہ میں لے کر زور سے چوستے ہیں ، پھر اس سوراخ کو آٹے وغیرہ سے بند کردیتے ہیں ، پھر جب اکھیڑتے ہیں تو فاسد خون نکل جاتا ہے۔

muhafiz3
 

مسئلہ ۳
مکّھی یا دُھواں یا غبارحلق میں جانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ خواہ وہ غبار آٹے کا ہو کہ چکّی پیسنے یا چھاننے میں اڑتا ہے یا غلّہ کا غبار ہو یا ہوا سے خاک اُڑی یاجانوروں کے کُھر یا ٹاپ سے غبار اُڑ کر حلق میں پہنچا، اگرچہ روزہ دار ہونا یاد تھا اور اگر خود قصداً دھواں پہنچایا تو فاسد ہوگیا جبکہ روزہ دار ہونا یاد ہو، خواہ وہ کسی چیز کا دھواں ہو اور کسی طرح پہنچایا ہو، یہاں تک کہ اگر کی بتی وغیرہ خوشبو سُلگتی تھی، اُس نے مونھ قریب کر کے دھوئیں کو ناک سے کھینچا روزہ جاتا رہا۔ یوہیں حقّہ پینے سے بھی روزہ ٹوٹ جاتا ہے، اگر روزہ یاد ہو اور حقّہ پینے والا اگر پیے گا تو کفارہ بھی لازم آئے گا۔ (2) (درمختار، ردالمحتار وغیرہما)

muhafiz3
 

مسئلہ ۲
کسی روزہ دارکو ان افعال میں دیکھے تو یاد دلانا واجب ہے، یاد نہ دلایا تو گنہگار ہوا، مگر جب کہ وہ روزہ دار بہت کمزور ہو کہ یاد دلائے گا تو وہ کھانا چھوڑ دے گا اور کمزوری اتنی بڑھ جائے گی کہ روزہ رکھنا دشوار ہوگا اور کھا لے گا تو روزہ بھی اچھی طرح پورا کر لے گا اور دیگر عبادتیں بھی بخوبی ادا کر لے گا تو اس صورت میں یاد نہ دلانا بہتر ہے۔
بعض مشایخ نے کہا جوان کو دیکھے تو یاد دلادے اور بوڑھے کو دیکھے تو یاد نہ دلانے میں حرج نہیں ۔ مگر یہ حکم اکثر کے لحاظ سے ہے کہ جوان اکثر قوی ہوتے ہیں اور بوڑھے اکثر کمزور اور اصل حکم یہ ہے کہ جوانی اور بڑھاپے کو کوئی دخل نہیں ، بلکہ قوت و ضعف (کمزوری) کا لحاظ ہے، لہٰذا اگر جوان اس قدر کمزور ہو تو یاد نہ دلانے میں حرج نہیں اوربوڑھا قوی ہو تو یاد دلانا واجب۔ (1) (ردالمحتار)

muhafiz3
 

مسئلہ ۱
بھول کر کھایا یا پیا یا جماع کیا روزہ فاسد نہ ہوا۔ خواہ وہ روزہ فرض ہو یا نفل اورروزہ کی نیّت سے پہلے یہ چیزیں پائی گئیں یا بعد میں ، مگر جب یاد دلانے پر بھی یاد نہ آیا کہ روزہ دار ہے تو اب فاسد ہو جائے گا، بشرطیکہ یاد دلانے کے بعد یہ افعال واقع ہوئے ہوں مگراس صورت میں کفارہ لازم نہیں ۔ (5) (درمختار، ردالمحتار)

muhafiz3
 

تنبیہ: اس باب میں ان چیزوں کا بیان ہے، جن سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ رہا یہ امر کہ اُن سے روزہ مکروہ بھی ہوتا ہے یا نہیں اس سے اس باب کو تعلق نہیں ، نہ یہ کہ وہ فعل جائز ہے یا ناجائز۔

muhafiz3
 

حدیث ۳
ترمذی انس رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے راوی، کہ ایک شخص نے خدمت اقدس میں حاضر ہو کر عرض کی، میری آنکھ میں مرض ہے، کیا روزہ کی حالت میں سرمہ لگاؤں ؟ فرمایا: ’’ہاں ۔
‘‘( ’’جامع الترمذي‘‘، ابواب الصوم، باب ماجاء في الکحل للصائم، الحدیث: ۷۲۶، ج۲، ص۱۷۷)
حدیث ۴
ترمذی ابوسعید رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے راوی، کہ رسول ﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تین چیزیں روزہ نہیں توڑتیں ، پچھنا اور قے اور احتلام۔
‘‘( ’’جامع الترمذي‘‘، ابواب الصوم، باب۷۱۹، ج۲، ص۱۷۲)

muhafiz3
 

ان چیزوں کا بیان جن سے روزہ نہیں جاتا
حدیث ۱
صحیح بخاری و صحیح مسلم میں ابوہریرہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی، رسول ﷲ صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ’’جس روزہ دارنے بھول کر کھایا یا پیا، وہ اپنے روزہ کو پورا کرے کہ اُسے ﷲ (عزوجل) نے کھلایا اور پلایا۔‘‘
( ’’صحیح مسلم‘‘، کتاب الصیام، باب أکل الناسي وشربہ وجماعہ لایفطر، الحدیث: ۱۱۵۵، ص۵۸۲)
حدیث ۲
ابو داود و ترمذی و ابن ماجہ و دارمی ابوہریرہ رضی اللہتعالیٰ عنہ سے راوی، کہ رسول ﷲ صلی
ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس پر قے نے غلبہ کیا، اس پر قضا نہیں اور جس نے قصداً قے کی، اس پر روزہ کی قضا ہے۔
‘‘(’’جامع الترمذي‘‘، أبواب الصوم۔۔۔ إلخ، باب ماجاء فیمن استقاء عمدا، الحدیث: ۷۲۰، ج۲، ص۱۷۳)

muhafiz3
 

حدیث ۱۰
صحیحین میں ابوہریرہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی، رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ’’آدمی کے ہر نیک کام کا بدلہ دس ۱۰ سے سات سو ۷۰۰ تک دیا جاتا ہے، ﷲ تعالیٰ نے فرمایا: ’’مگر روزہ کہ وہ میرے لیے ہے اور اُس کی جزا میں دوں گا۔ بندہ اپنی خواہش اور کھانے کو میری وجہ سے ترک کرتاہے۔ روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں ، ایک افطار کے وقت اور ایک اپنے رب (عزوجل) سے ملنے کے وقت اور روزہ دار کے مونھ کی بُو ﷲ عزوجل کے نزدیک مُشک سے زیادہ پاکیزہ ہے اور روزہ سپر ہے اور جب کسی کے روزہ کا دن ہو تو نہ بے ہودہ بکے اور نہ چیخے پھر اگر اِس سے کوئی گالی گلوچ کرے یا لڑنے پر آمادہ ہو تو کہہ دے، میں روزہ دار ہوں ۔
‘‘ ( ’’مشکاۃ المصابیح‘‘، کتاب الصوم، الفصل الأول، الحدیث: ۱۹۵۹، ج۱، ص۵۴۱)

muhafiz3
 

حدیث ۹
امام احمد و حاکم اور طبرانی کبیر میں اور ابن ابی الدُنیا اور بیہقی شعب الایمان میں عبدﷲ بن عمرو رضی ﷲ تعالیٰ عنہما سے راوی، کہ رسول ﷲ صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ’’روزہ و قرآن بندہ کے لیے شفاعت کریں گے، روزہ کہے گا، اے رب (عزوجل) ! میں نے کھانے اور خواہشوں سے دن میں اسے روک دیا، میری شفاعت اُس کے حق میں قبول فرما۔ قرآن کہے گا، اے رب (عزوجل) ! میں نے اسے رات میں سونے سے باز رکھا، میری شفاعت اُس کے بارے میں قبول کر۔ دونوں کی شفاعتیں قبول ہوں گی۔
‘‘( ’’المسند‘‘ للإمام أحمد بن حنبل، مسند عبد اللّٰہ بن عمرو بن العاص، الحدیث: ۶۶۳۷، ج۲، ص۵۸۶)

muhafiz3
 

حدیث ۸
بخاری و مسلم میں ابوہریرہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی، حضورِ اقدس صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو ایمان کی وجہ سے اور ثواب کے لیے رمضان کا روزہ رکھے گا، اس کے اگلے گناہ بخش دیے جائیں گے اور جو ایمان کی وجہ سے اور ثواب کے لیے رمضان کی راتوں کا قیام کرے گا، اُس کے اگلے گناہ بخش دیے جائیں گے اور جو ایمان کی وجہ سے اور ثواب کے لیے شبِ قدر کا قیام کرے گا، اُس کے اگلے گناہ بخش دیے جائیں گے۔
‘‘( ’’صحیح البخاري‘‘، کتاب صلاۃ التراویح، باب فضل من قام رمضان، الحدیث: ۲۰۰۹، ج۱، ص۶۵۸۔ و ’’صحیح البخاري، کتاب فضل لیلۃ القدر، باب فضل لیلۃ القدر، الحدیث: ۲۰۱۴، ج۱، ص۶۶۰)

muhafiz3
 

حدیث ۷
صحیحین و ترمذی و نسائی و صحیح ابن خزیمہ میں سہل بن سعد رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی رسول ﷲ صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ’’جنت میں آٹھ دروازے ہیں ، ان میں ایک دروازہ کا نام ریّان ہے، اس دروازہ سے وہی جائیں گے جو روزے رکھتے ہیں ۔
‘‘( ’’صحیح البخاري‘‘، کتاب بدء الخلق، باب صفۃ أبواب الجنۃ، الحدیث: ۳۲۵۷، ج۲، ص۳۹۴)

muhafiz3
 

یہ وہ مہینہ ہے کہ اُس کا اوّل رحمتہے اور اس کا اوسط مغفرت ہے اور اس کا آخر جہنم سے آزادی ہے جو اپنے غلام پر اس مہینے میں تخفیف کرے یعنی کام میں کمی کرے، ﷲ تعالیٰ اُسے بخش دے گا اور جہنم سے آزاد فرما دے گا۔
‘‘(’’شعب الإیمان‘‘، باب في الصیام، فضائل شہر رمضان، الحدیث: ۳۶۰۸، ج۳، ص۳۰۵ و ’’صحیح ابن خزیمۃ‘‘، کتاب الصیام، باب فضائل شہر رمضان۔۔۔ إلخ، الحدیث: ۱۸۸۷، ج۳، ص۱۹۱)

muhafiz3
 

جو اس میں روزہ دار کو افطار کرائے، اُس کے گناہوں کے لیے مغفرت ہے اور اس کی گردن آگ سے آزاد کر دی جائے گی اور اس افطار کرانے والے کو ویسا ہی ثواب ملے گا جیسا روزہ رکھنے والے کو ملے گا بغیر اس کے کہ اُس کے اجر میں سے کچھ کم ہو۔‘‘ ہم نے عرض کی، یا رسول اﷲ (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) ! ہم میں کا ہر شخص وہ چیز نہیں پاتا، جس سے روزہ افطار کرائے؟ حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) نے فرمایا: ’’ﷲ تعالیٰ یہ ثواب اس شخص کو دے گا، جو ایک گھونٹ دودھ یا ایک خُرما یا ایک گھونٹ پانی سے روزہ افطار کرائے اور جس نے روزہ دار کو بھر پیٹ کھانا کھلایا، اُس کو ﷲ تعالیٰ میرے حوض سے پلائے گا کہ کبھی پیاسا نہ ہوگا یہاں تک کہ جنت میں داخل ہو جائے۔
(بقیہ حدیث اگلی پوسٹ میں)

muhafiz3
 

حدیث ۶
بیہقی شعب الایمان میں سلمان فارسی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے راوی، کہتے ہیں رسول ﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے شعبان کے آخر دن میں وعظ فرمایا۔ فرمایا: ’’اے لوگو! تمھارے پاس عظمت والا، برکت والا مہینہ آیا، وہ مہینہ جس میں ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اس کے روزے ﷲ تعالیٰ نے فرض کیے اور اس کی رات میں قیام (نماز پڑھنا) تطوع (یعنی سنت) جو اس میں نیکی کا کوئی کام کرے تو ایسا ہے جیسے اور کسی مہینے میں فرض ادا کیا اور اس میں جس نے فرض ادا کیا تو ایسا ہے جیسے اور دنوں میں ستّر ۷۰ فرض ادا کیے۔ یہ مہینہ صبر کا ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے اور یہ مہینہ مواسات (یعنی غمخواری اور بھلائی۔ ) کا ہے اور اس مہینے میں مومن کا رزق بڑھایا جاتا ہے،
(بقیہ حدیث اگلی پوسٹ میں)

muhafiz3
 

حدیث ۵
امام احمد ابوہریرہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے راوی، کہ حضورِ اقدس صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ’’رمضان کی آخر شب میں اِس اُمّت کی مغفرت ہوتی ہے۔ عرض کی گئی، کیا وہ شبِ قدر ہے؟ فرمایا: نہیں لیکن کام کرنے والے کو اس وقت مزدوری پوری دی جاتی ہے، جب کام پورا کرلے۔
‘‘( ’’المسند‘‘ للإمام أحمد بن حنبل، مسندأبي ہریرۃ، الحدیث: ۷۹۲۲، ج۳، ص۱۴۴)

muhafiz3
 

حدیث ۴
بیہقی شعب الایمان میں ابن عمر رضی ﷲ تعالیٰ عنہما سے راوی، کہ نبی صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جنت ابتدائے سال سے سال آئندہ تک رمضان کے لیے آراستہ کی جاتی ہے، جب رمضان کا پہلا دن آتاہے تو جنت کے پتّوں سے عرش کے نیچے ایک ہوا حور عین پرچلتی ہے، وہ کہتی ہیں ، اے رب! تُو اپنے بندوں سے ہمارے لیے ان کو شوہر بنا، جن سے ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور اُن کی آنکھیں ہم سے ٹھنڈی ہوں
۔‘‘( ’’شعب الإیمان‘‘، باب في الصیام، فضائل شہر رمضان، الحدیث: ۳۶۳۳، ج۳، ص۳۱۲ ۔ ۳۱۳)

muhafiz3
 

حدیث ۳
بیہقی ابن عباس رضی ﷲ تعالیٰ عنہما سے راوی، کہتے ہیں : جب رمضان کا مہینہ آتا رسول ﷲ صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سب قیدیوں کو رہا فرما دیتے اور ہر سائل کو عطا فرماتے۔
‘‘( ’’شعب الإیمان‘‘، باب في الصیام، فضائل شہر رمضان، الحدیث: ۳۶۲۹، ج۳، ص۳۱۱)