حدیث ۲۸
صحیح مسلم میں انس و ابوہریرہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنھماسے مروی، کہ رسول ﷲ صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلَّم نے فرمایا: ’’دو شخص گالی گلوج کرنے والے انھوں نے جو کچھ کہا سب کا وبال اس کے ذمہ ہے جس نے شروع کیا ہے، جب تک مظلوم تجاوز نہ کرے۔
‘‘ (’’صحیح مسلم‘‘، کتاب البر والصلۃ۔۔۔إلخ، بابالنھی عن السباب، الحدیث:۶۸۔(۲۵۸۷)، ص۱۳۹۶۔) یعنی جتنا پہلے نے کہا، اس سے زیادہ نہ کہے۔
حدیث ۲۷
بخاری و مسلم و احمد و ترمذی و نسائی و ابن ماجہ عبد اﷲ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے راوی، کہ رسول اﷲ صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلَّم نے فرمایا: ’’مسلم سے گالی گلوج کرنا فسق ہے اور اس سے قتال کفر ہے۔
‘‘ (’’صحیح البخاري‘‘، کتاب الأدب، باب ما ینھی من السباب واللعن، الحدیث:۶۰۴۴، ج۴، ص۱۱۱۔)
حدیث ۲۶
صحیح بخاری و مسلم میں ابوذر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے، کہ رسول ﷲ صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلَّم نے فرمایا:
’’جو شخص کسی کو کافر کہہ کر بلائے یا دشمنِ خدا کہے اور وہ ایسا نہیں ہے تو اسی کہنے والے پر لوٹے گا۔
‘‘ (’’صحیح مسلم ‘‘، کتاب الایمان، باب بیان حال ایمان من قال لاخیہ المسلم: یاکافر، الحدیث:۱۱۲۔(۶۱)، ص۵۱۔)
حدیث ۲۵
صحیح بخاری میں ابوذر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے مروی، کہ رسول اﷲ صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلَّم نے فرمایا: ’’جو شخص دوسرے کو فسق اور کفر کی تہمت لگائے اور وہ ایسا نہ ہو تو اس کہنے والے پر لوٹتا ہے۔
‘‘ (’’صحیح البخاري‘‘، کتاب الأدب، باب ما ینھی من السباب واللعن، الحدیث:۶۰۴۵، ج۴، ص۱۱۱۔)
حدیث ۲۴
صحیح بخاری و مسلم میں ابن عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنھما سے مروی، کہ رسول اﷲ صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلَّم نے فرمایا: ’’جو شخص اپنے بھائی کو کافر کہے تو اس کلمہ کے ساتھ دونوں میں سے ایک لوٹے گا۔‘‘ (’’صحیح البخاري‘‘، کتاب الأدب، باب من أکفر أخاہ بغیر تأویل فھوکما قال، الحدیث:۶۱۰۴، ج۴، ص۱۲۷۔و’’صحیح مسلم‘‘، کتاب الإیمان، باب بیان حال إیمان من قال لأخیہ المسلم یا کافر، الحدیث:۱۱۱۔(۶۰)، ص۵۱۔) یعنی یہ کلمہ دونوں میں سے ایک پر پڑے گا۔
حدیث ۲۳
طبرانی نے ثابت بن ضحاک انصاری رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے روایت کی، کہ رسول ﷲ صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلَّم نے فرمایا: ’’مومن پر لعنت کرنا اس کے قتل کی مثل ہے اور جو شخص مومن مرد یا عورت پر کفر کی تہمت لگائے تویہ اس کے قتل کی مثل ہے۔‘‘ (’’المعجم الکبیر‘‘، الحدیث:۱۳۳۰، ج۲، ص۷۳۔)
حدیث ۲۲:
صحیح مسلم میں جابر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے، کہ ایک شخص نے اپنی سواری کے جانور پر لعنت کی، رسول ﷲ صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلَّم نے فرمایا: ’’اس سے اتر جاؤ ہمارے ساتھ میں ملعون چیز کو لے کر نہ چلو، اپنے اوپر اور اپنی اولاد و اموال پر بددعا نہ کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ بددعا اس ساعت میں ہو جس میں جو دعا خدا سے کی جائے قبول ہوتی ہے۔‘‘ (’’صحیح مسلم‘‘، کتاب الزھد، باب حدیث جابر الطویل۔۔۔إلخ، الحدیث:۳۔(۳۰۰۹)، ص۱۶۰۴۔)
حدیث ۲۱: ترمذی نے اُبیّ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے روایت کی، کہ رسول اﷲ صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلَّم نے فرمایا: ’’ہوا کو گالی نہ دو اور جب دیکھو کہ تمھیں بری لگتی ہے تویہ کہو کہ الٰہی! میں اس کی خیر کا سوال کرتا ہوں اور جو کچھ اس میں خیر ہے اور جس خیر کا اسے حکم ہوا اور میں اس کے شر سے پناہ مانگتا ہوں اور جو کچھ اس میں شر ہے اوراس کے شرسے جس کا اسے حکم ہوا۔‘‘(’’سنن الترمذي‘‘، کتاب الفتن باب ماجاء في النھی عن سب الریاح، الحدیث:۲۲۵۹، ج۴، ص۱۱۱۔)
حدیث ۲۰:ترمذی و ابو داود نے ابن عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنھما سے روایت کی، کہ ایک شخص کی چادر کو ہوا کے تیز جھونکے لگے، اس نے ہوا پر لعنت کی۔ رسول اﷲ صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلَّم نے فرمایا: ’’ہوا پر لعنت نہ کرو کہ وہ خدا کی طرف سے مامور ہے اور جو شخص ایسی چیز پر لعنت کرتا ہے جو لعنت کی اہل نہ ہو تو لعنت اُسی پر لوٹ آتی ہے۔‘‘ (المرجع السابق، الحدیث:۴۹۰۸، ج۴، ص۳۶۲۔)
حدیث ۱۹: ابو داود نے ابودرداء رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے روایت کی، کہتے ہیں میں نے رسول اﷲ صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلَّم کو یہ فرماتے سنا کہ ’’جب بندہ کسی چیز پر لعنت کرتا ہے تو وہ لعنت آسمان کو جاتی ہے، آسمان کے دروازے بند کردئیے جاتے ہیں پھر زمین پر اتاری جاتی ہے، اس کے دروازے بھی بند کردیے جاتے ہیں پھر دہنے بائیں جاتی ہے، جب کہیں راستہ نہیں پاتی تو اس کی طرف آتی ہے جس پر لعنت بھیجی گئی، اگر اسے اس کا اہل پاتی ہے تو اس پر پڑتی ہے، ورنہ بھیجنے والے پر آجاتی ہے۔‘‘ (’’سنن أبي داود‘‘، کتاب الأدب، باب في اللعن، الحدیث:۴۹۰۵، ج۴، ص۳۶۱۔)
حدیث ۱۸: ترمذی و ابو داود نے سمرہ بن جندب رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے روایت کی، کہ رسول ﷲ صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلَّم نے فرمایا: ’’ﷲ (عزوجل) کی لعنت و غضب اور جہنم کے ساتھ آپس میں لعنت نہ کرو۔‘‘ (… ’’سنن الترمذي‘‘، کتاب البر والصلۃ، باب ماجاء في اللعنۃ، الحدیث:۱۹۸۳، ج۳، ص۳۹۳۔ و’’مشکاۃ المصابیح‘‘، کتاب الآداب، باب حفظ اللسان۔۔۔إلخ، الحدیث:۴۸۴۹، ج۳، ص۴۳۔ )
حدیث ۱۶: ترمذی نے ابن عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنھما سے روایت کی، کہ رسول اﷲ صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلَّم نے فرمایا: ’’مومن کو یہ نہ چاہیے کہ لعنت کرنے والا ہو۔‘‘ (المرجع السابق، باب ماجاء في اللعن والطعن، الحدیث:۲۰۲۶، ج۳، ص۴۱۰۔)
حدیث ۱۷: صحیح مسلم میں ابو درداء رضی اللّٰہ تعالٰی عنہسے روایت ہے، کہتے ہیں میں نے رسول اﷲ صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلَّم کوفرماتے سنا ہے کہ ’’جو لوگ لعنت کرتے ہیں ، وہ قیامت کے دن نہ گواہ ہوں گے، نہ کسی کے سفارشی۔‘‘ (’’صحیح مسلم‘‘، کتاب البر۔۔۔إلخ، باب النھی عن لعن الدواب وغیرھا، الحدیث:۸۶۔(۲۵۹۸)، ص۱۴۰۰۔)
حدیث ۱۶: ترمذی نے ابن عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنھما سے روایت کی، کہ رسول اﷲ صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلَّم نے فرمایا: ’’مومن کو یہ نہ چاہیے کہ لعنت کرنے والا ہو۔‘‘ (المرجع السابق، باب ماجاء في اللعن والطعن، الحدیث:۲۰۲۶، ج۳، ص۴۱۰۔)
حدیث ۱۵: ترمذی نے عبد اﷲ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے روایت کی، کہ رسول اﷲ صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلَّم نے فرمایا کہ ’’مومن نہ طعن کرنے والا ہوتا ہے، نہ لعنت کرنے والا، نہ فحش بکنے والا بے ہودہ ہوتا ہے۔‘‘ (’’سنن الترمذي‘‘، کتاب البر والصلۃ، باب ماجاء في اللعنۃ، الحدیث:۱۹۸۴، ج۳، ص۳۹۳۔)
حدیث ۱۴: امام احمد و بیہقی نے عبادہ بن صامت رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے روایت کی، کہ نبی کریم صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلَّم نے فرمایا: ’’میرےلیے چھ چیزوں کے ضامن ہوجاؤ میں تمھارے لیے جنت کا ذمہ دار ہوتا ہوں ۔ (۱) جب بات کرو سچ بولو اور (۲) جب وعدہ کرو اسے پورا کرو اور(۳) جب تمھارے پاس امانت رکھی جائے اسے ادا کرو اور(۴) اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرواور (۵) اپنی نگاہیں نیچی رکھو اور (۶) اپنے ہاتھوں کو روکو۔‘‘ (’’المسند‘‘ للإمام أحمد بن حنبل، حدیث عبادۃ بن الصامت الحدیث: ۲۲۸۲۱، ج۸، ص۴۱۲۔) یعنی ہاتھ سے کسی کو ایذا نہ پہنچاؤ۔
حدیث ۱۳:امام مالک نے اسلم سے روایت کی، کہ ایک دن حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کے پاس گئے اور حضرت صدیق اکبر(رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ) اپنی زبان پکڑ کر کھینچ رہے تھے۔ حضرت عمر(رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ) نے عرض کی، کیا بات ہے اﷲ(عزوجل) آپ کی مغفرت کرے، حضرت صدیق (رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ) نے فرمایا: اس نے مجھے مہالک (1) میں ڈالا ہے ۔(’’الموطأ‘‘ للإمام مالک، کتاب الکلام، باب ماجاء فیما یخاف من اللسان، الحدیث:۱۹۰۶، ج۲، ص۴۶۶۔
حدیث ۱۲: بیہقی نے انس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے روایت کی، کہ رسول اﷲ صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلَّم نے فرمایا: ’’اے ابوذر! کیا میں تم کو ایسی دو باتیں نہ بتادوں جو پیٹھ پر ہلکی ہیں اور میزان میں بھاری ہیں ؟ انھوں نے کہا، ہاں ۔ ارشاد فرمایا: زیادہ خاموش رہنا اور خوبی اخلاق، قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تمام مخلوقات نے ان کی مثل پر عمل نہیں کیا۔‘‘ (’’شعب الإیمان‘‘، باب في حسن الخلق، الحدیث:۸۰۰۶، ج۶، ص۲۳۹۔)
یعنی ان کی مثل کوئی چیز نہیں جس پر عمل کیا جائے۔
حدیث ۱۲: بیہقی نے انس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے روایت کی، کہ رسول اﷲ صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلَّم نے فرمایا: ’’اے ابوذر! کیا میں تم کو ایسی دو باتیں نہ بتادوں جو پیٹھ پر ہلکی ہیں اور میزان میں بھاری ہیں ؟ انھوں نے کہا، ہاں ۔ ارشاد فرمایا: زیادہ خاموش رہنا اور خوبی اخلاق، قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تمام مخلوقات نے ان کی مثل پر عمل نہیں کیا۔‘‘ (’’شعب الإیمان‘‘، باب في حسن الخلق، الحدیث:۸۰۰۶، ج۶، ص۲۳۹۔)
یعنی ان کی مثل کوئی چیز نہیں جس پر عمل کیا جائے۔
بقیہ حدیث 11
میں نے کہا اور وصیت کیجیے، فرمایا کہ اﷲ (عزوجل) کے بارے میں ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈرو۔ میں نے کہا اور وصیت کیجیے، فرمایا: تم کو دوسرے لوگوں سے روکے وہ چیز جو تم اپنے نفس سے جانتے ہو۔‘‘ (المرجع السابق، فصل في فضل السکوت عما لایعنیہ، الحدیث:۴۹۴۲، ج۴، ص۲۴۲۔) یعنی جو اپنے عیوب کی طرف نظر رکھے گا دوسروں کے عیوب میں نہ پڑے گا اور کام کی بات یہ ہے کہ اپنے عیب پر نظر کی جائے تاکہ اسکے زائل کرنے کی کوشش کی جائے۔
حدیث ۱۱: بیہقی نے ابوذر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے روایت کی، کہتے ہیں کہ میں نے عرض کی، یارسول ﷲ! (صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم) مجھے وصیت فرمائیے، ارشاد فرمایا: میں تم کو تقویٰ کی وصیت کرتا ہوں کہ اس سے تمھارے سب کام آراستہ ہوجائیں گے۔ میں نے عرض کی اور وصیت فرمائیے، فرمایا: کہ تلاوت قرآن اور ذکر ﷲ کو لازم کرلو، کہ اس کی وجہ سے تمہارا ذکر آسمان میں ہوگا اور زمین میں تمھارے لیے نور ہوگا۔ میں نے کہا اور وصیت فرمائیے، ارشاد فرمایا: زیادتی خاموشی کو لازم کرلو، کہ اس سے شیطان دفع ہوگا اور تمھیں دین کے کاموں میں مدد دے گی۔ میں نے عرض کی اور وصیت کیجیے، فرمایاکہ زیادہ ہنسنے سے بچو کہ یہ دل کو مُردہ کردیتا ہے اور چہرہ کے نور کو دور کرتا ہے۔ میں نے کہا اور وصیت کیجیے۔ فرمایا: حق بولو اگرچہ کڑوا ہو۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain