ذہنی آزمائش میں ایک سیگمنٹ ہے
مکمل کیجئے چلیں جس میں *ایک لفظ کے الفاظ مثلا حکیم لفظ ہے اس حروف ۔۔
ی ک م ح "" اس طرح لکھے ہوتے ہیں اور پہچاننا ہوتا ہے کہ لفظ کیا ہے چلیں پھر پہچانیں
د ن ی ق م ع د ہ ا
یہ نام ہے اور قران پاک سے اس کا خاص تعلق ہے پہچانیے کیا؟؟؟





حدیث ۱۳: میرے بعد میں امرا ہوں گے جن کی بعض باتیں اچھی ہوں گی اور بعض بری، جس نے بری بات سے کراہت کی وہ بری ہے اور جس نے انکار کیا وہ سلامت رہا، لیکن جو راضی ہوا اور پیروی کی وہ ہلاک ہوا۔ (4) (مسلم، ابو داود)
حدیث ۱۴: مجھ سے پہلے جس نبی کو خدا نے کسی امت میں مبعوث کیا، اس کے لیے اُمت سے حواریین اور اصحاب ہوئے جو نبی کی سنت لیتے اور اس کے حکم کی پیروی کرتے پھر اون کے بعد ناخلف لوگ پیدا ہوئے کہ کہتے وہ جو کرتے نہیں اور کرتے وہ جس کا دوسروں کو حکم نہ دیتے، جس نے ہاتھ کے ساتھ ان سے جہاد کیا وہ مومن ہے اور جس نے زبان سے جہاد کیا وہ مومن ہے اور جس نے دل سے جہاد کیا وہ مومن ہے اور اس کے بعد رائی کے دانہ کے برابر ایمان نہیں ۔ (5) (مسلم)
حدیث ۱۱: میں نے شب معراج میں دیکھا کہ کچھ لوگوں کے ہونٹ آگ کی قینچیوں سے کاٹے جاتے ہیں ۔ میں نے پوچھا، جبرئیل! یہ کون لوگ ہیں ؟ کہا، یہ آپ کی اُمت کے واعظ ہیں ، جو لوگوں کو اچھی بات کا حکم کرتے تھے اور اپنے کو بھولے ہوئے تھے۔ (2) (شرح سنہ)
حدیث ۱۲: بادشاہ ظالم کے پاس حق بات بولنا، افضل جہاد ہے۔ (3) (ابن ماجہ)
حدیث ۱۰: بنی اسرائیل نے جب گناہ کیے ان کے علما نے منع کیا مگر وہ باز نہ آئے پھر علما ان کی مجلسوں میں بیٹھنے لگے اور انکے ساتھ کھانے پینے لگے، خدا نے علما کے دل بھی انھیں جیسے کردیے اور داود و عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کی زبان سے ان سب پر لعنت کی۔ یہ اس وجہ سے کہ انھوں نے نافرمانی کی اور حد سے تجاوز کرتے تھے۔ اس کے بعد حضور (صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم) نے فرمایا: ’’خدا کی قسم! تم یا تو اچھی بات کا حکم کرو گے اور بری بات سے روکو گے اور ظالم کے ہاتھ پکڑلو گے اور ان کو حق پر روکو گے اور حق پر ٹھہراؤ گے یا اﷲتعالیٰ تم سب کے دل ایک طرح کے کر دے گا پھر تم سب پر لعنت کردے گا،جس طرح ان سب پر لعنت کی
’’سنن الترمذي‘‘،کتاب تفسیر القرآن،[باب] و من سورۃ المائدۃ،الحدیث:۳۰۵۹،،ج۴،ص۳۶۔
و’’سنن أبي داود‘‘،کتاب الملاحم،باب الأمر
حدیث ۸: لوگوں کی ہیبت حق بولنے سے نہ روکے جب معلوم ہو تو کہدے۔ (4) (ترمذی)
حدیث ۹: چند مخصوص لوگو ں کے عمل کی وجہ سے اﷲ تعالیٰسب لوگوں کو عذاب نہیں کرے گا مگر جبکہ وہاں بری بات کی جائے اور وہ لوگ منع کرنے پر قادر ہوں اور منع نہ کریں تو اب عام و خاص سب کو عذاب ہوگا۔ (5) (شرح سنہ)
’’سنن ا لترمذي‘‘،کتاب ا لفتن، باب ما أخبر النبی صلی ا للّٰہ علیہ وسلم أصحابہ بما ھوکائن إلی یوم القیامۃ،ا لحدیث:۲۱۹۸،ج۴،ص۸۱۔
5… ’’شرح السنۃ‘‘،کتاب الرقاق،باب الأمر بالمعروف والنھی عن المنکر،الحدیث:۴۰۵۰،ج۷،ص۳۵۸۔
حدیث ۷: اچھی بات کا حکم کرو اور بری بات سے منع کرو یہاں تک کہ جب تم یہ دیکھو کہ بخل کی اطاعت کی جاتی ہے اور خواہش نفسانی کی پیروی کی جاتی ہے اور دنیا کو دین پر ترجیح دی جاتی ہے اور ہر شخص اپنی رائے پر گھمنڈ کرتا ہے اور ایسا امر دیکھو کہ تمھیں اس سے چارہ نہ ہو تو اپنے نفس کو لازم کرلو یعنی خود کو بری چیزوں سے بچاؤ اور عوام کے معاملہ کو چھوڑو (یعنی ایسے وقت میں امر بالمعروف ونہی عن المنکر ضروری نہیں ) ۔تمھارے آگے صبر کے دن آئیں گے جن میں صبر کرنا ایسا ہے جیسے مٹھی میں انگارا لینا، عمل کرنے والے کے لیے اوس زمانہ میں پچاس شخص عمل کرنے والوں کا اجر ہے۔ لوگوں نے عرض کی، یارسول اﷲ! (صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم) ان میں سے پچاس کا اجر اس ایک کو ملے گا۔ فرمایاکہ ’’تم میں سے پچاس کی برابر اجر ملے گا۔‘‘ ایضا
حدیث ۶: جس قوم میں گناہ ہوتے ہوں اور وہ لوگ بدلنے پر قادر ہوں پھر نہ بدلیں تو قریب ہے کہ اﷲ تعالیٰ سب پر عذاب بھیجے
سنن أبي داود‘‘،کتاب الملاحم،باب الأمر والنھی،الحدیث:۴۳۳۸،ج۴،ص۱۶۳۔3… المرجع السابق،الحدیث:۴۳۴۱،ج۴،ص۱۶۴
حدیث ۵: حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: اے لوگو! تم اس آیت کو پڑھتے ہو:
{ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْكُمْ اَنْفُسَكُمْۚ-لَا یَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَیْتُمْؕ- } (5)
’’اے ایمان والو! اپنے نفس کو لازم پکڑ لو، گمراہ تم کو ضرر نہ پہنچائے گا، جب کہ تم خود ہدایت پر ہو۔‘‘
(یعنی تم اس آیت سے یہ سمجھتے ہو گے کہ جب ہم خود ہدایت پر ہیں تو گمراہ کی گمراہی ہمارے لیے مضر نہیں ہم کو منع کرنے کی ضرورت نہیں ) میں نے رسول اﷲ صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلَّم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ لوگ اگر بری بات دیکھیں اور اس کو نہبدلیں تو قریب ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان پر ایسا عذاب بھیجے گا جو سب کو گھیر لے گا۔ (1) (ابن ماجہ، ترمذی
1… ’’سنن ابن ماجہ‘‘،کتاب الفتن،باب الأمر
حدیث ۴: جب زمین میں گناہ کیا جائے تو جو وہاں موجود ہے مگر اسے برا جانتا ہے، وہ اس کی مثل ہے جو وہاں نہیں ہے اور جو وہاں نہیں ہے مگر اس پر راضی ہے، وہ اس کی مثل ہے جو وہاں حاضر ہے۔ (4) (ابو داود)
’سنن أبي داود‘‘،کتاب الملاحم،باب الأمر والنھی،الحدیث:۴۳۴۵،۴۳۴۶،ج۴،ص۱۶۶۔5
حدیث ۳: ’’قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میری جان ہے! یا تو اچھی بات کا حکم کرو گے اور بری بات سے منع کرو گے یا اﷲتعالیٰ تم پر جلد اپنا عذاب بھیجے گا، پھر دعا کرو گے اور تمھاری دعا قبول نہ ہوگی۔‘‘( سنن الترمذي‘‘،کتاب الفتن،باب ماجاء في الأمر بالمعروف۔۔۔إلخ،الحدیث:۲۱۷۶،ج۴،ص۶۹۔(
اوپر والوں نے دیکھا تو پوچھا کیا بات ہے کہ تختہ توڑ رہے ہو؟اس نے کہا میں پانی لینے جاتا ہوں تو تم کو تکلیف ہوتی ہے اور پانی لینا مجھے ضروری ہے۔ (لہٰذا میں تختہ توڑ کر یہیں سے پانی لے لوں گا اور تم لوگوں کو تکلیف نہ دوں گا) پس اس صورت میں اگر اوپر والوں نے اس کا ہاتھ پکڑلیا اور کھودنے سے روک دیا تو اسے بھی نجات دیں گے اور اپنے کو بھی اور اگر چھوڑ دیا تو اسے بھی ہلاک کیا اور اپنے کو بھی۔ (’’صحیح البخاري‘‘،کتاب الشھادات،باب القرعۃ في المشکلات۔۔۔إلخ،الحدیث:۲۶۸۶،ج۲،ص۲۰۸۔)
حدیث ۲: حدوداﷲ میں مداہنت کرنے والا (یعنی خلافِ شرع چیز دیکھے اور باوجود قدرت منع نہ کرے اس کی) اور حدوداﷲ میں واقع ہونے والے کی مثال یہ ہے کہ ایک قوم نے جہاز کے بارے میں قرعہ ڈالا، بعض اوپر کے حصہ میں رہے بعض نیچے کے حصہ میں ، نیچے والے پانی لینے اوپر جاتے اور پانی لے کر ان کے پاس سے گزرتے ان کو تکلیف ہوتی (انھوں نے اس کی شکایت کی) نیچے والے نے کلہاڑی لے کر نیچے کا تختہ کاٹنا شروع کیا۔
۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حدیث ۱: تم میں جو شخص بری بات دیکھے اسے اپنے ہاتھ سے بدل دے اور اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو زبان سےبدلے اور اس کی بھی استطاعت نہ ہو تو دل سے یعنی اسے دل سے برا جانے اور یہ کمزور ایمان والا ہے۔ (1) (مسلم)
1… ’’صحیح مسلم‘‘،کتاب الایمان،باب بیان کون النھی عن المنکر من الإیمان۔۔۔إلخ،الحدیث:۷۸۔(۳۹)،ص۴۴۔
{ كُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِؕ-} (4)
’’تم بہتر ہو ان سب اُمتوں میں جو لوگوں میں ظاہر ہوئیں ، بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اﷲ (عزوجل) پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘
اور قرآن میں ہے: { یٰبُنَیَّ اَقِمِ الصَّلٰوةَ وَ اْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ انْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ اصْبِرْ عَلٰى مَاۤ اَصَابَكَؕ-اِنَّ ذٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِۚ(۱۷)} (5)
’’(لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا) اے میرے بیٹے! نماز قائم رکھ اور اچھی بات کا حکم دے اور بری بات سے منع کر اور جو افتاد تجھ پر پڑے اس پر صبر کر، بے شک یہ ہمت کے کام ہیں ۔‘‘
تفسیر صراط الجنان
{وَ لْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ یَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَیْرِ: اور تم میں سے ایک گروہ ایسا ہونا چاہئے جو بھلائی کی طرف بلائیں۔} آیتِ مبارکہ میں فرمایا گیا کہ چونکہ یہ تو ممکن نہیں ہے کہ تمام کے تمام مسلمان ایک ہی کام میں لگ جائیں لیکن اتنا ضرور ہونا چاہیے کہ مسلمانوں کا ایک گروہ ایسا ہو جو لوگوں کو بھلائی کی طرف بلائے، انہیں نیکی کی دعوت دے، اچھی بات کا حکم کرے اور بری بات سے منع کرے۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain