عید تو بچپن میں ہوا کرتی تھی عید کے کپڑوں کی اتنی خوشی ہوتی کہ بار بار انہیں ٹھیک کر کے رکھتے ساری رات اس خوشی میں نیند نہیں آتی تھی کہ صبح سب سے پہلے آٹھ کر عید کے کپڑے پہن کر امی ابو سے عید لینا اور پھر دوستوں جا کر اٹھانا ان کے ساتھ گلی کی نکر والی ایک دکان پے جا کر چاٹ لے کر کھانا دوستوں کے ساتھ مل کے مزے کرنا اور یہی سمجھتے تھے کہ جب بڑے ہوں گے تو اور زیادہ مزے کریں گے اچھا سا تیار ہو گئے لیکن جب بڑے ہوئے تو پتا چلا کہ مزے تو بچپن میں ہوتے تھے اگر کسی سے ناراض ہوتے تو بیس منٹ بعد دوبارہ سے ویسے ہی دوستی ہو جاتی اور اب تو بیس سال تک ناراضگی رہتی ہے اب تو عیدیں صرف نام کی رہ گئی ہے ساری رات اس ٹینشن میں نیند نہیں آتی کہ صبح سب کو مسکرا کر ملنا پڑے گا صبح اپنے چہرے پے جھوٹی مسکراہٹ سجھانی پڑے گی صاف کپڑے پہن کر تیار ہونا پڑے گا ہونٹوں پے
تم آ گئے ہو تو کیوں اِنتظارِ شام کریں کہو تو کیوں نہ ابھی سے کچھ اہتمام کریں خلوص و مہر و وفا لوگ کر چکے ہیں بہت مرے خیال میں اب اور کوئی کام کریں یہ خاص وعام کی بیکار گفتگو کب تک! قبوُل کیجیے، جو فیصلہ عوام کریں ہر آدمی نہیں شائستۂ رموزِ سُخن وہ کم سُخن ہو مخاطب تو ہم کلام کریں جُدا ہوئے ہیں بہت لوگ، ایک تم بھی سہی اب اِتنی بات پہ کیا زندگی حرام کریں خُدا اگر کبھی کچھ اِختیار دے ہم کو تو پہلے خاک نِشینوں کا انتظام کریں رہِ طلب میں جو گمنام مر گئے ناصر متاعِ درد انہی ساتھیوں کے نام کریں 💗💗