کوئی چھوڑ کر جا رہا ہے صاحب
بتاو راستہ دوں یا واسطہ؟؟؟؟
اتنی شدت سے رگ جاں میں تم اترے ہو
تم کو اب بھولوں تو مجھے جاں سے جانا ہوگا
کاش کہ تو بھی آ کر کہے
میں بھی تنہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تیرے بنا
تیری قسم
سارے امراض میرے اب کے شفا پائینگے
میں تیری یاد کو لقمان بنا بیٹھا ہوں
اتھرو تارا ہو سکدا اے
دکھ دا چارا ہو سکدا اے
اکو واری فرض تے نئی نا
عشق دوبارہ ہو سکدا اے
کدی کدائیں جان دا دشمن
جان تو پیارا ہو سکدا اے
اجے توں رشتے توڑ نہ سارے
اجے گزارا ہو سکدا اے
ککھوں ہولا جانڑ نہ سانوں
ککھ وی پہارا ہو سکدا اے
پچھلے کھاتے کھول نہ سارے
ہور کھلارا ہو سکدا اے
میں نے پوچھا کیا اظہار نہیں ہو سکتا
دل پکارا خبردار نہیں ہو سکتا
جس سے پوچھیں یہی کہتا ہے تیرے بارے میں
خوبصورت ہے وفادار نہیں ہو سکتا
ایک محبت تو کئی بار بھی ہوسکتی ہے
مگر ایک ہی شخص کئی بار نہیں ہو سکتا
تسبیح پھیری پر دل نہ پھریا
کی لینا ای تسبیح ہتھ پھڑ کے
چلے کٹے پر رب نہ ملیا
کی لینا ای چلیاں وچ وڑھ کے
جاگ بنا دودھ نئی جمدا
بلھیاء
بہاویں لال ہووے کڑ کڑ کے
یاد ماہی دی سینے لا کے رو واں درداں ماری
کلیاں چھڈ کے ٹر گیو سانوں مار کے ہجر دی ماری
رب جانڑے کہٹرے دیس گیو سانوں مار کے عشق کٹاری
اک واری جے آنڑ ملیں تاں میں شکر کراں لکھ واری
اگاں ہجر تیرے نے لایاں
میتھوں نہ کٹیاں جانڑ جدائیاں
ساون لایاں جھڑیاں وے ماہیا
جانڑ وی دے چھڈ اڑیاں وے ماہیا
اس جہاں میں ہیں دو جہاں
ان دو جہاں کے ہے درمیاں
بس فاصلہ اک سانس کا
جو چل رہی تو یہ جہاں
جو رک گئی تو وہ جہاں
محبتیں ادھوری ہیں
نشے ضروری ہیں
رات یوں دل میں تیری کھوئی ہوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے
جیسے صحرائوں میں ہولے سے چلے باد نسیم ۔۔جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجائے
کتنے بدل گئے ہیں وہ حالات کی طرح
جب بھی ملے ہیں پہلی ملاقات کی طرح
تیری جفا کہوں کہ عنایت کہوں اسے
غم بھی ملا مجھے کسی سوغات کی طرح
دل میں غموں کی آگ بھڑکنے لگی تو ہم
روئے ہیں پھوٹ پھوٹ کے برسات کی طرح
ہم کیا کسی کے حسن کا صدقہ اتارتے
اک زندگی ملی ہے وہ خیرات کی طرح
بجھی ہوئی شمع کا دھواں ہوں اور اپنے مرکز کو جا رہا ہوں
روز محشر حساب ہوسن تے سوہنے چہرے خراب ہوسن
بے وفاواں دی منڈی لگسی تے پہلی صف وچ جناب ہوسن
مجھے بھی یاد رکھنا جب لکھو تاریخ وفا
غالب
کہ میں نے بھی لٹایا ہے کسی کی محبت میں سکون اپنا
کون چاہے گا تمھیں ہماری مانند
کون رکھتا ہے میری جاں ہماری آنکھیں
تم فرشتوں کی بات کرتے ہو
ہم ترستے ہیں آدمی کے لیۓ
دل لگایا تھا دل لگی کے لیۓ
بن گیا روگ زندگی کے لیۓ
تیرا ہاتھ کل تک میرے ہاتھ میں تھا
تیرا دل دھڑکتا تھا دل میں ہمارے
یہ مخمور آنکھیں جو بدلی ہوٸ ہیں
کبھی ہم نے انکے تھے صدقے اتارے
کبھی کبھی یہ مجھے ستاۓ کبھی کبھی یہ رلاۓ
مرحلہ دشوار آیا تو ظرف سب کے کھل گۓ
لوگ جیسے لگ رہے تھے ایک بھی ویسا نہ تھا
مجھ سے بہتر کی تلاش میں
مجھے بھی کھو دیا اس نے
جو لوگ رفاقت میں دغا دیتے ہیں
کم ظرف ہیں نسلوں کا پتہ دیتے ہیں
سب میرے بغیر مطمٸن ہیں
میں سب کے بغیر جی رہا ہوں
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain