حسیں خیال جو پاؤں کو گدگدانے لگے وُہ نیند میں بھی مرے شعر گنگنانے لگے میں اَپنی غزلوں کی رَعنائیوں سے جلنے لگا مری کتاب وُہ آغوش میں سلانے لگے جو خط میں لکھا کہ اَب نیند تک نہیں آتی وُہ تکیہ بھینچ کے بانہوں میں مسکرانے لگے ’’ نہیں ‘‘ پہ حُسن کی رِہ رِہ کے پیار آیا مجھے وُہ بازُؤوں میں مرے ’’ نیم ‘‘ کسمسانے لگے لبوں سے بال برابر ، لبوں کو روک لیا حیا سے جنگ میں دو ہونٹ کپکپانے لگے وُہ اِس مُراقبے سے تھی مری دُعا میں مگن کہ لوگ قدموں میں اُس کے دِئیے جلانے لگے زَمانے بھر میں لُٹا کر بھی ہم غنی ہیں قیسؔ ہمارے ہاتھ محبت کے وُہ خزانے لگے شہزادقیسؔ
. ایک وہ اتنا خوبرو توبہ اُس پہ چُھونے کی آرزو توبہ ! ہاتھ کانپیں گے روح مچلے گی جب وہ آئے گا روبرو توبہ ! چاند تاروں سے رات سجتی ہوئی تیری آواز اور تُو توبہ ! لب نہیں اُس کی آنکھ بولتی ہے ایسا اندازِ گفتگو توبہ !