Damadam.pk
sanaasif's posts | Damadam

sanaasif's posts:

sanaasif
 

ہر ایک چہرے پہ دل کو گُمان اس کا تھا 
بسا نہ کوئی یہ خالی مکان اس کا تھا 
میں بے جہت ہی رہا اور بے مقام سا وہ 
ستارہ میرا سمندر نشان اس کا تھا 
میں اُس طلسم سے باہر کہاں تلک جاتا 
فضا کھلی تھی مگر آسمان اس کا تھا 
سلیقہ عشق میں جاں اپنی پیش کرنے کا 
جنہیں بھی آیا تھا ان کو ہی دھیان اس کا تھا 
پھر اس کے بعد کوئی بات بھی ضروری نہ تھی 
مرے خلاف سہی وہ بیان اس کا تھا 
ہوا نے اب کے جلائے چراغ رستے میں 
کہ میری راہ میں عادل مکان اس کا تھا

sanaasif
 

لوگ کچھ مطمئن بھی تھے پھر بھی
جس کو دیکھا عذاب میں دیکھا
ہجر کی رات سو گئے تھے عدمؔ
صبح محشر کو خواب میں دیکھا

sanaasif
 

بولے کوئی ہنس کر تو چھڑک دیتے ہیں جاں بھی
لیکن کوئی روٹھے تو منایا نہیں جاتا
جس تار کو چھیڑیں وہی فریاد بہ لب ہے
اب ہم سے عدمؔ ساز بجایا نہیں جاتا

sanaasif
 

وفا کی کون سی منزل پہ اس نے چھوڑا تھا
کہ وہ تو یاد ہمیں بھول کر بھی آتا ہے

sanaasif
 

اپنی گلی میں مجھ کو نہ کر دفن بعد قتل‪
‬میرے پتے سے خلق کو کیوں تیرا گھر ملے

sanaasif
 

تڑپنے کو میرے سمجھ جاؤ گے تم
جس روز کسی سے محبت کرو گے

sanaasif
 

اُس کو جو پوچھنا ہے تو بس اتنا ہی جان لو 
بہت خاص بہت خاص بہت خاص ہے کوئی

sanaasif
 

ہم نے محبتوں کے نشے میں اُسے خدا بنا ڈالا‪
‬ہوش تب آیا جب اُس نے کہا کہ خدا کسی ایک کا نہیں ہوتا😳

sanaasif
 

ہدایت اور الله کی محبّت دو ایسی چیزیں ہیں جو انسان کو مانگے بگیر نہیں ملتی

sanaasif
 

تم کو چاہا تو خطا کیا ہے بتا دو مجھ کو 
دوسرا کوئی تو اپنا سا دکھا دو مجھ کو 
دل میں سو شکوۂ غم پوچھنے والا ایسا 
کیا کہوں حشر کے دن یہ تو بتا دو مجھ کو 
مجھ کو ملتا ہی نہیں مہر و محبت کا نشان 
تم نے دیکھا ہو کسی میں تو بتا دو مجھ کو 
ہمدموں اُن سے میںکہہ جاؤں گا حالت دل کی 
دو گھڑی کے لیئے دیوانہ بنا دو مجھ کو 
بیمروت دل بیتاب سے ہو جاتا ہے 
شیوۂ خاص تم اپنا ہی سکھا دو مجھ کو 
تم بھی راضی ہو تمہاری بھی خوشی ہے کہ نہیں 
جیتے جی داغ یہ کہتا ہے مِٹا دو مجھ کو

sanaasif
 

موسم کو بھی میری خبر ہو شاید
میری طرح وہ بھی آج ٹوٹ کے برسا
بارش کی بوندیں ہی اسے میری یاد دلا دیں
بارش میں کبھی ہم بھی ساتھ چلے تھے

sanaasif
 

جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی‪
‬کھلتے ہیں غلاموں پر اسرار شہنشاہی‪
‬عطارؔ ہو رومیؔ ہو رازیؔ ہو غزالیؔ ہو‪
‬کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحرگاہی‪
‬نومید نہ ہو ان سے اے رہبر فرزانہ‪
‬کم کوش تو ہیں لیکن بے ذوق نہیں راہی‪
‬اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی‪
‬جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی‪
‬دارا و سکندر سے وہ مرد فقیر اولیٰ‪
‬ہو جس کی فقیری میں بوئے اسد اللہٰی‪
‬آئین جواں مرداں حق گوئی و بیباکی‪
‬اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی

sanaasif
 


‬جھے معلوم کیا وہ رازداں تیرا ہے یا میرا‪
‬محمد بھی ترا جبریل بھی قرآن بھی تیرا‪
‬مگر یہ حرف شیریں ترجماں تیرا ہے یا میرا‪
‬اسی کوکب کی تابانی سے ہے تیرا جہاں روشن‪
‬زوال آدم خاکی زیاں تیرا ہے یا میرا

sanaasif
 

ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
 ہو دیکھنا تو دیدۂ دل وا کرے کوئی
 منصور کو ہوا لب گویا پیام موت
 اب کیا کسی کے عشق کا دعویٰ کرے کوئی
 ہو دید کا جو شوق تو آنکھوں کو بند کر 
ہے دیکھنا یہی کہ نہ دیکھا کرے کوئی 
میں انتہائے عشق ہوں، تو انتہائے حسن 
دیکھے مجھے کہ تجھ کو تماشا کرے کوئی 
عذر آفرین جرم محبت ہے حسن دوست 
محشر میں عذرِ تازہ نہ پیدا کرے کوئی
 چھپتی نہیں ہے یہ نگہ شوق ہم نشیں!
 پھر اور کس طرح انھیں دیکھا کر ے کوئی
 اڑ بیٹھے کیا سمجھ کے بھلا طور پر کلیم
 طاقت ہو دید کی تو تقاضا کرے کوئی
 نظارے کو یہ جنبش مژگاں بھی بار ہے
 نرگس کی آنکھ سے تجھے دیکھا کرے کوئی
 کھل جائیں ، کیا مزے ہیں تمنائے شوق میں
دو چار دن جو میری تمنا کرے کوئی

sanaasif
 

نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی 
مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی 
تمھارے پیامی نے سب راز کھولا
 خطا اس میں بندے کی سرکار کیا تھی
 بھری بزم میں اپنے عاشق کو تاڑا
 تری آنکھ مستی میں ہشیار کیا تھی!
 تامّل تو تھا ان کو آنے میں قاصد
 مگر یہ بتا طرز انکار کیا تھی
 کھنچے خود بخود جانبِ طور موسٰی
 کشش تیری اے شوق دیدار کیا تھی!
 کہیں ذکر رہتا ہے اقبال تیرا 
فسوں تھا کوئی ، تیری گفتار کیا تھی

sanaasif
 

دور حاضر ہے حقیقت میں وہی عہد قدیم
اہل سجادہ ہیں یا اہل سیاست ہیں امام
اس میں پیری کی کرامت ہے نہ میری کا ہے زور
سیکڑوں صدیوں سے خوگر ہیں غلامی کے عوام
خواجگی میں کوئی مشکل نہیں رہتی باقی
پختہ ہو جاتے ہیں جب خوئے غلامی میں غلام

sanaasif
 

آتي ہے دم صبح صدا عرش بريں سے
 کھويا گيا کس طرح ترا جوہر ادراک!
 کس طرح ہوا کند ترا نشتر تحقيق
 ہوتے نہيں کيوں تجھ سے ستاروں کے جگر چاک
 تو ظاہر و باطن کي خلافت کا سزاوار
 کيا شعلہ بھي ہوتا ہے غلام خس و خاشاک 
مہر و مہ و انجم نہيں محکوم ترے کيوں
 کيوں تري نگاہوں سے لرزتے نہيں افلاک
 اب تک ہے رواں گرچہ لہو تيري رگوں ميں
 نے گرمي افکار، نہ انديشہ بے باک
 روشن تو وہ ہوتي ہے، جہاں بيں نہيں ہوتي 
جس آنکھ کے پردوں ميں نہيں ہے نگہ پاک
 باقي نہ رہي تيري وہ آئينہ ضميري 
اے کشتۂ سلطاني و ملائي و پيري

sanaasif
 

فراغت دے اسے کار جہاں سے
 کہ چھوٹے ہر نفس کے امتحاں سے
 ہوا پيري سے شيطاں کہنہ انديش 
گناہ تازہ تر لائے کہاں سے

sanaasif
 

رندوں کو بھي معلوم ہيں صوفي کے کمالات 
ہر چند کہ مشہور نہيں ان کے کرامات
 خود گيري و خودداري و گلبانگ 'انا الحق'
 آزاد ہو سالک تو ہيں يہ اس کے مقامات
 محکوم ہو سالک تو يہي اس کا 'ہمہ اوست'
خود مردہ و خود مرقد و خود مرگ مفاجات

sanaasif
 

نشاں يہي ہے زمانے ميں زندہ قوموں کا
 کہ صبح و شام بدلتي ہيں ان کي تقديريں
 کمال صدق و مروت ہے زندگي ان کي
 معاف کرتي ہے فطرت بھي ان کي تقصيريں 
قلندرانہ ادائيں، سکندرانہ جلال 
يہ امتيں ہيں جہاں ميں برہنہ شمشيريں
 خودي سے مرد خود آگاہ کا جمال و جلال
 کہ يہ کتاب ہے، باقي تمام تفسيريں
 شکوہ عيد کا منکر نہيں ہوں ميں، ليکن
 قبول حق ہيں فقط مرد حر کي تکبيريں
 حکيم ميري نواؤں کا راز کيا جانے
ورائے عقل ہيں اہل جنوں کي تدبيريں