ہر ایک چہرے پہ دل کو گُمان اس کا تھا
بسا نہ کوئی یہ خالی مکان اس کا تھا
میں بے جہت ہی رہا اور بے مقام سا وہ
ستارہ میرا سمندر نشان اس کا تھا
میں اُس طلسم سے باہر کہاں تلک جاتا
فضا کھلی تھی مگر آسمان اس کا تھا
سلیقہ عشق میں جاں اپنی پیش کرنے کا
جنہیں بھی آیا تھا ان کو ہی دھیان اس کا تھا
پھر اس کے بعد کوئی بات بھی ضروری نہ تھی
مرے خلاف سہی وہ بیان اس کا تھا
ہوا نے اب کے جلائے چراغ رستے میں
کہ میری راہ میں عادل مکان اس کا تھا
لوگ کچھ مطمئن بھی تھے پھر بھی
جس کو دیکھا عذاب میں دیکھا
ہجر کی رات سو گئے تھے عدمؔ
صبح محشر کو خواب میں دیکھا
بولے کوئی ہنس کر تو چھڑک دیتے ہیں جاں بھی
لیکن کوئی روٹھے تو منایا نہیں جاتا
جس تار کو چھیڑیں وہی فریاد بہ لب ہے
اب ہم سے عدمؔ ساز بجایا نہیں جاتا
وفا کی کون سی منزل پہ اس نے چھوڑا تھا
کہ وہ تو یاد ہمیں بھول کر بھی آتا ہے
اپنی گلی میں مجھ کو نہ کر دفن بعد قتل
میرے پتے سے خلق کو کیوں تیرا گھر ملے
تڑپنے کو میرے سمجھ جاؤ گے تم
جس روز کسی سے محبت کرو گے
اُس کو جو پوچھنا ہے تو بس اتنا ہی جان لو
بہت خاص بہت خاص بہت خاص ہے کوئی
ہم نے محبتوں کے نشے میں اُسے خدا بنا ڈالا
ہوش تب آیا جب اُس نے کہا کہ خدا کسی ایک کا نہیں ہوتا😳
ہدایت اور الله کی محبّت دو ایسی چیزیں ہیں جو انسان کو مانگے بگیر نہیں ملتی
تم کو چاہا تو خطا کیا ہے بتا دو مجھ کو
دوسرا کوئی تو اپنا سا دکھا دو مجھ کو
دل میں سو شکوۂ غم پوچھنے والا ایسا
کیا کہوں حشر کے دن یہ تو بتا دو مجھ کو
مجھ کو ملتا ہی نہیں مہر و محبت کا نشان
تم نے دیکھا ہو کسی میں تو بتا دو مجھ کو
ہمدموں اُن سے میںکہہ جاؤں گا حالت دل کی
دو گھڑی کے لیئے دیوانہ بنا دو مجھ کو
بیمروت دل بیتاب سے ہو جاتا ہے
شیوۂ خاص تم اپنا ہی سکھا دو مجھ کو
تم بھی راضی ہو تمہاری بھی خوشی ہے کہ نہیں
جیتے جی داغ یہ کہتا ہے مِٹا دو مجھ کو
موسم کو بھی میری خبر ہو شاید
میری طرح وہ بھی آج ٹوٹ کے برسا
بارش کی بوندیں ہی اسے میری یاد دلا دیں
بارش میں کبھی ہم بھی ساتھ چلے تھے
جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی
کھلتے ہیں غلاموں پر اسرار شہنشاہی
عطارؔ ہو رومیؔ ہو رازیؔ ہو غزالیؔ ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحرگاہی
نومید نہ ہو ان سے اے رہبر فرزانہ
کم کوش تو ہیں لیکن بے ذوق نہیں راہی
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
دارا و سکندر سے وہ مرد فقیر اولیٰ
ہو جس کی فقیری میں بوئے اسد اللہٰی
آئین جواں مرداں حق گوئی و بیباکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
جھے معلوم کیا وہ رازداں تیرا ہے یا میرا
محمد بھی ترا جبریل بھی قرآن بھی تیرا
مگر یہ حرف شیریں ترجماں تیرا ہے یا میرا
اسی کوکب کی تابانی سے ہے تیرا جہاں روشن
زوال آدم خاکی زیاں تیرا ہے یا میرا
ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
ہو دیکھنا تو دیدۂ دل وا کرے کوئی
منصور کو ہوا لب گویا پیام موت
اب کیا کسی کے عشق کا دعویٰ کرے کوئی
ہو دید کا جو شوق تو آنکھوں کو بند کر
ہے دیکھنا یہی کہ نہ دیکھا کرے کوئی
میں انتہائے عشق ہوں، تو انتہائے حسن
دیکھے مجھے کہ تجھ کو تماشا کرے کوئی
عذر آفرین جرم محبت ہے حسن دوست
محشر میں عذرِ تازہ نہ پیدا کرے کوئی
چھپتی نہیں ہے یہ نگہ شوق ہم نشیں!
پھر اور کس طرح انھیں دیکھا کر ے کوئی
اڑ بیٹھے کیا سمجھ کے بھلا طور پر کلیم
طاقت ہو دید کی تو تقاضا کرے کوئی
نظارے کو یہ جنبش مژگاں بھی بار ہے
نرگس کی آنکھ سے تجھے دیکھا کرے کوئی
کھل جائیں ، کیا مزے ہیں تمنائے شوق میں
دو چار دن جو میری تمنا کرے کوئی
نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی
مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی
تمھارے پیامی نے سب راز کھولا
خطا اس میں بندے کی سرکار کیا تھی
بھری بزم میں اپنے عاشق کو تاڑا
تری آنکھ مستی میں ہشیار کیا تھی!
تامّل تو تھا ان کو آنے میں قاصد
مگر یہ بتا طرز انکار کیا تھی
کھنچے خود بخود جانبِ طور موسٰی
کشش تیری اے شوق دیدار کیا تھی!
کہیں ذکر رہتا ہے اقبال تیرا
فسوں تھا کوئی ، تیری گفتار کیا تھی
دور حاضر ہے حقیقت میں وہی عہد قدیم
اہل سجادہ ہیں یا اہل سیاست ہیں امام
اس میں پیری کی کرامت ہے نہ میری کا ہے زور
سیکڑوں صدیوں سے خوگر ہیں غلامی کے عوام
خواجگی میں کوئی مشکل نہیں رہتی باقی
پختہ ہو جاتے ہیں جب خوئے غلامی میں غلام
آتي ہے دم صبح صدا عرش بريں سے
کھويا گيا کس طرح ترا جوہر ادراک!
کس طرح ہوا کند ترا نشتر تحقيق
ہوتے نہيں کيوں تجھ سے ستاروں کے جگر چاک
تو ظاہر و باطن کي خلافت کا سزاوار
کيا شعلہ بھي ہوتا ہے غلام خس و خاشاک
مہر و مہ و انجم نہيں محکوم ترے کيوں
کيوں تري نگاہوں سے لرزتے نہيں افلاک
اب تک ہے رواں گرچہ لہو تيري رگوں ميں
نے گرمي افکار، نہ انديشہ بے باک
روشن تو وہ ہوتي ہے، جہاں بيں نہيں ہوتي
جس آنکھ کے پردوں ميں نہيں ہے نگہ پاک
باقي نہ رہي تيري وہ آئينہ ضميري
اے کشتۂ سلطاني و ملائي و پيري
فراغت دے اسے کار جہاں سے
کہ چھوٹے ہر نفس کے امتحاں سے
ہوا پيري سے شيطاں کہنہ انديش
گناہ تازہ تر لائے کہاں سے
رندوں کو بھي معلوم ہيں صوفي کے کمالات
ہر چند کہ مشہور نہيں ان کے کرامات
خود گيري و خودداري و گلبانگ 'انا الحق'
آزاد ہو سالک تو ہيں يہ اس کے مقامات
محکوم ہو سالک تو يہي اس کا 'ہمہ اوست'
خود مردہ و خود مرقد و خود مرگ مفاجات
نشاں يہي ہے زمانے ميں زندہ قوموں کا
کہ صبح و شام بدلتي ہيں ان کي تقديريں
کمال صدق و مروت ہے زندگي ان کي
معاف کرتي ہے فطرت بھي ان کي تقصيريں
قلندرانہ ادائيں، سکندرانہ جلال
يہ امتيں ہيں جہاں ميں برہنہ شمشيريں
خودي سے مرد خود آگاہ کا جمال و جلال
کہ يہ کتاب ہے، باقي تمام تفسيريں
شکوہ عيد کا منکر نہيں ہوں ميں، ليکن
قبول حق ہيں فقط مرد حر کي تکبيريں
حکيم ميري نواؤں کا راز کيا جانے
ورائے عقل ہيں اہل جنوں کي تدبيريں
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain