Damadam.pk
sanaasif's posts | Damadam

sanaasif's posts:

sanaasif
 

نہ جانے کیا کہہ دیا موت نے چپکے سے کان میں کہ خاموش هوگئے

sanaasif
 

تہجد کی نماز ایسی عبادت هے جس سے اللہ اور بندے کا کا تقلق گہرا هوجاتا هے

sanaasif
 

کیا عجب فلسفہ هے اس زندگی کا نہ کوئی غم آخری غم هے نہ کوئی خوشی اخری خوشی هے نہ هی همشہ کے لیے کوئی خوشی هوتی هے نہ هی کوئی غم همشہ کے لیے هوتا هے

sanaasif
 

جب کوئی اچانک سے اپنا دنیا سے چلا جائے تب انسان پتا چلتا هے موت کج نہی دیکهتی نہ عمر نہ یہ کے پیچهے کون روئے گا ان کا کیا هوگا

sanaasif
 

آج هم دین سے دور هیں دنیاکے قریب اللہ کو مانتے هیں مگر اللہ کی نہیں مانتے دوهوکا فریب عام هے لیکن اتنا کسی کو یاد نہیں کے دنیا فانی هے موت بهی آنی هے کیا اگلی سانس بهی لے سکو گے یہ معلوم نہی مگر افسوس سب غافل ہیں

sanaasif
 

کتنا عجبب حال هےهماری قوم قوم کا کرونا سے ڈرتے هیں لیکن نہ کسی شرابی نے ڈر سے شراب چهوڑی هے نہ هی گناه کرنے والے نے ڈر سے گناه چهوڑا کیا یہ هی ڈر هے

sanaasif
 

Mn ny suna tha k jin apnu ko apny hathu sy dufna dia jye sabr a jata h but ye ab jhoot lag rha h jub humy sabr nhi ata

sanaasif
 

تیری دو پل کی محبت بنے همیں عمر بهر کا رونا دے دیا @
ثناء جٹ

sanaasif
 

خرید تو لیتے هم اپنا یار دل کے تو بہت نواب تهے هم کیا کرتے مقدر کے بہت غریب نکلے هم @
ثناء جٹ

sanaasif
 

تم بهولو تو تمیں آنچ نہ آئے هم بهولے تو ہمیں اگلی سانس نہ آئے @

sanaasif
 

انہی میں سے ایک ٹولی نے یہ قرآن سنا اور یہ بات سمجھ لی کہ نبی ؐ کی بعثت کا یہ واقعہ ہی ہم پر آسمان کی بندش کا سبب ہے اور جنوں کی یہ ٹولی آپؐ پر ایمان لے آئی اور جا کر اپنی قوم کو بھی بتلایا۔ (صحیح مسلم کتاب الصلوٰۃ) مکہ مکرمہ میں حرم کے قریب) جہاں یہ وقوعہ پیش آیا وہاں اب مسجدِجن بنا دی گئی ہے۔ بعض دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بعد آپؐ جنوں کی دعوت پر ان کے ہاں تشریف بھی لے گئے اور انہیں جاکر اللہ کا پیغام سنایا اور متعدد مرتبہ جنوں کا وفد آپؐ کی خدمت میں بھی حاضر ہوا۔ (ابن کثیر) جن و شیاطین کا ذکر قرآن حکیم میں 120سے بھی زائد مقامات پر آیا ہےend

sanaasif
 

آیات1تا15)
یہ واقعہ مکہ کے قریب وادی نخلہ میں پیش آیا جہاں آپؐ صحابہ کرام ؓ کو فجر کی نماز پڑھا رہے تھے۔ جِنوں کو تجسس تھا کہ آسمان پر ہم پر بہت زیادہ سختی کردی گئی ہے اور اب ہمارا وہاں جانا تقریباً ناممکن بنا دیا گیا ہے، کوئی بہت اہم واقعہ رونما ہوا ہے جس کی بنا پر ایسا ہوا ہے۔ چناںچہ مشرق و مغرب کے مختلف اطراف میں جنوں کی ٹولیاں واقعے کا سراغ لگا نے کے لیے پھیل گئیں۔ cuntinu

sanaasif
 

اور یہ کہ ہم نیکوکار ہیں اور بعض اس کے برعکس بھی ہیں۔ ہم مختلف طریقوں سے بٹے ہوئے ہیں اور ہم نے سمجھ لیا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کو ہرگز عاجز نہیں کرسکتے اور نہ ہم بھاگ کر اسے ہرا سکتے ہیں۔ ہم تو ہدایت کی بات سنتے ہی اس پر ایمان لاچکے اور جو بھی اپنے رب پر ایمان لائے گا اسے نہ کسی ظلم کا اندیشہ ہے نہ ظلم و ستم کا ہاں ہم میں بعض تو مسلمان ہیں اور بعض بے انصاف ہیں پس جو فرماںبردار ہوگئے انہوں نے تو راہ راست کا قصد کیا اور جو ظالم ہیں وہ جہنم کا ایندھن بن گئے۔‘‘ (سورۂ الجن cuntinu

sanaasif
 

اور بیشک ہمارے رب کی شان بڑی بلند ہے ناں اس نے کسی کو اپنی بیوی بنایا ہے نہ بیٹا اور یہ کہ ہم میں کا بیوقوف اللہ کے بارے میں خلاف حق باتیں کرتا تھا اور ہم تو یہی سمجھتے رہے کہ ناممکن ہے کہ انسان اور جنات اللہ پر جھوٹی تہمتیں لگائیں۔
بات یہ ہے کہ چند انسان بعض جنات سے پناہ طلب کیا کرتے تھے جس سے جنات اپنی سر کشی میں بڑھ گئے اور (انسانوں) نے بھی تم جنوں کی طرح گمان کرلیا تھا کہ اللہ کسی کو نہ بھیجے گا اور ہم نے آسمان کو ٹٹول کر دیکھا تو اسے سخت چوکی داروں اور سخت شعلوں سے پُر پایا۔ اس سے پہلے ہم باتیں سننے کے لیے آسمان پر جگہ جگہ بیٹھ جایا کرتے تھے اب جو بھی کان لگاتا ہے وہ ایک شعلے کو اپنی تاک میں پاتا ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ زمین والوں کے ساتھ کسی برائی کا ارادہ کیا گیا ہے یا ان کے رب کا ارادہ ان کے ساتھ بھلائی کا ہے cuntinu

sanaasif
 

جنات میں جہاں بدطینت قسم کا گروہ تھا وہاں اچھے نیک اور بزرگ قسم کے گروہ بھی تھے۔ وہ اپنی ذات سے کسی کو نقصان نہیں پہنچاتے۔ ان میں ہدایت حاصل کرنے کا عزم اور ولولہ تھا جس کی اولین مثال حضرت سلیمان ؑ کی ہے جن کے تابع فرمان رہ کر وہ مشکل سے مشکل امور سرانجام دیتے رہتے تھے۔ دوسری مثال آنحضور ؐ کے دورنبوت کی ہے جب ایک مرتبہ ان جنات نے آنحضور ؐ سے قرآن حکیم سنا تھا۔ اس گروہ نے جہاں آپؐ کی زیارت کا شرف حاصل کیا وہاں اپنی سماعت کو بھی منور کیا اور پھر اپنے قبیلے یا خاندان میں جاکر بڑی حیرت و استعجاب کے ساتھ یہ واقعہ سنایا۔ ترجمہ ’’آپ کہہ د یں کہ مجھے وحی کی گئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے قرآن سنا اور کہا کہ ہم نے عجب قرآن سنا ہے جو راہ راست کی طرف راہ نمائی کرتا ہے۔ ہم اس پر ایما ن لاچکے ہم ہرگز کسی کو بھی اپنے رب کا شریک نہیں بنائیں گے cuntinu

sanaasif
 

رجیم کے معنی سنگسار کرنے کے ہیں۔ شیطان کو رجیم اس لیے بھی کہا گیا ہے کہ جب یہ آسمانوں پر جانے کی کوشش کرتا ہے تو اس پر شہاب ثاقب برسائے جاتے ہیں۔ اس سے کچھ شیاطین تو اسی وقت جل مرتے ہیں اور جو بچ کر آتے ہیں وہ نجومیوں اور کاہنوں سے مل کر شرارت کرتے ہیں۔ (تفصیل کے لیے صحیح بخاری وتفسیر سورہ الحجر دیکھیے) ستارے آسمان دنیا کی زینت ہیں جہاں رات میں وہ مسافروں کی اور اوقات کی راہ نمائی کرتے ہیں۔ اسی طرح جن و شیاطین کو سبق سکھانے کے لیے گرز کا کام بھی دیتے ہیںcuntinu

sanaasif
 

ں کہ تجھ سے اور تیرے تمام ماننے والوں سے میں جہنم کو بھر دوں گا۔‘‘ (سورہ ص ٓ آیات 72تا85)
یہ جن و شیاطین صرف روئے زمین پر ہی اپنے مذموم عزائم پر عمل کرسکتے ہیں۔ آسمان دنیا پر ان کا داخلہ ممنوع ہے۔ اگر وہ ملائکہ اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ہونے والی گفت و شنید کی ٹوہ میں جائیں گے تو ان پر ستاروں کی مار لگائی جاتی ہے اور وہ زمین کی طرف چیختے چلاتے واپس آجاتے ہیں۔ ایک اور مقام پر ارشاد ہے ترجمہ:’’یقیناً ہم نے آسمان میں برج بنائے ہیں اور دیکھنے والوں کے لیے اسے سجادیا ہے اور اسے ہر شیطان مردود سے محفوظ رکھا ہے۔ ہاں مگر جو چوری چھے سننے کی کوشش کرے اس کے پیچھے دہکتا ہوا شعلہ لگتا ہے۔‘‘ (سورہ الحجر آیات 16تا18) اس آیۂ مبارکہ میں دو الفاظ رجیم اور مردود آئے ہیں۔

sanaasif
 

چناںچہ تمام فرشتوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے (نہ کیا) اس نے تکبر کیا اور وہ تھا کافروں میں سے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے ابلیس! اسے سجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے پیدا کیا کیا تو کچھ غرور میں آگیا ہے یا تو بڑے درجے والوں میں سے ہے۔
اس نے جو اب دیا کہ میں اس سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے بنایا ہے اور اسے مٹی سے ارشاد ہوا کہ تو یہاں سے نکل جا تو مردود ہوا اور تجھ پر قیامت کے دن تک لعنت و پھٹکار ہے۔ کہنے لگا میرے رب مجھے لوگوں کے اٹھ کھڑے ہونے کے دن (قیامت ) تک کی مہلت دے ۔ فرمایا تو مہلت والوں میں سے ہے متعین وقت کے دن تک کہنے لگا پھر تو تیری عزت کی قسم میں ان سب کو یقیناً بہکا دوں گا۔ بجز تیرے ان بندوں کے جو چیدہ اور پسندیدہ ہوں فرمایا سچ تو یہ ہے اور میں سچ ہی کہا کرتا ہوںcuntinu

sanaasif
 

اور اپنے مادے کی خاصیت کی بنا پر ایسا ہونا بھی چاہیے، کیوںکہ آگ کا خاصہ یہی ہے کہ وہ سر اٹھائے اور سوزش اور جلن کو نتیجے میں دکھلائے۔
جنات میں نیک اور بد دونوں اقسام ہوتی ہیں۔ بزرگ بھی ہوتے ہیں اور بدنفس بھی۔ یہ مختلف روپ دھار کر روئے زمین پر وارد ہوتے ہیں۔ انہیں میں سے ایک جن کا نام ابلیس ہے جو انسان کی دشمنی میں اندھا ہوگیا ہے اور اس نے نسل آدم کو بہکانے کے لیے قیامت تک کی مہلت لے لی ہے۔ یہ وہی ابلیس ہے جس نے اللہ کے حکم سے سرتابی کی تھی اور حضرت آدم ؑ کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا تھا اس کا ذکر قرآن حکیم میں اس طرح کیا گیا ہے ترجمہ:’’جب کہ آپ کے رب نے فرشتوں سے ارشاد فرمایا کہ میں مٹی سے انسان کو پیدا کرنے والا ہوں سو جب میں اسے ٹھیک ٹھاک کرلوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم سب اس کے سامنے سجدے میں گر پڑنا۔ cuntinu

sanaasif
 

اہل عرب دورِجاہلیت میں بڑے تو ہم پرست تھے 360 بتوں کی تو وہ پوجا اور پرستش کرتے ہی تھے اور اس میں شدت کا یہ عالم تھا کہ ہر خاندان اور قبیلے کا ایک الگ الگ بت ہوا کرتا تھا کوئی ایک قبیلہ دوسرے کے بت کی پوجا کا مکلف نہ تھا۔ چناںچہ اسی دور میں جب عرب قوم کے لوگ کسی سفر پر روانہ ہوتے تو راستے میں کوئی وادی یا خوف ناک بیابان آجاتا تو وہاں سے گزرتے وقت یہ الفاظ ادا کرکے گزرتے ’’میں اس وادی کے سردار اور اس کی قوم کے بیوقوفوں سے پناہ چاہتا ہوں۔‘‘ ان کے خیال سے بیابانوں پر جنات کا تسلط تھا اور جنوں کے سردار کی اس لیے پناہ طلب کرتے تھے کہ اس کے ماتحت بسنے والے جن کچھ اذیت نہ پہنچائیں۔ مطلب یہ کہ اس قسم کے رسوم اور اقوال سے انسانوں نے ان جنات کو اور بھی زیادہ مغرور بنادیا تھا۔ اس کے علاوہ اس مخلوق میں سرکشی ونافرمانی کا بھی مادہ موجود ہے cuntinu