نہ جانے کیا کہہ دیا موت نے چپکے سے کان میں کہ خاموش هوگئے
تہجد کی نماز ایسی عبادت هے جس سے اللہ اور بندے کا کا تقلق گہرا هوجاتا هے
کیا عجب فلسفہ هے اس زندگی کا نہ کوئی غم آخری غم هے نہ کوئی خوشی اخری خوشی هے نہ هی همشہ کے لیے کوئی خوشی هوتی هے نہ هی کوئی غم همشہ کے لیے هوتا هے
جب کوئی اچانک سے اپنا دنیا سے چلا جائے تب انسان پتا چلتا هے موت کج نہی دیکهتی نہ عمر نہ یہ کے پیچهے کون روئے گا ان کا کیا هوگا
آج هم دین سے دور هیں دنیاکے قریب اللہ کو مانتے هیں مگر اللہ کی نہیں مانتے دوهوکا فریب عام هے لیکن اتنا کسی کو یاد نہیں کے دنیا فانی هے موت بهی آنی هے کیا اگلی سانس بهی لے سکو گے یہ معلوم نہی مگر افسوس سب غافل ہیں
کتنا عجبب حال هےهماری قوم قوم کا کرونا سے ڈرتے هیں لیکن نہ کسی شرابی نے ڈر سے شراب چهوڑی هے نہ هی گناه کرنے والے نے ڈر سے گناه چهوڑا کیا یہ هی ڈر هے
Mn ny suna tha k jin apnu ko apny hathu sy dufna dia jye sabr a jata h but ye ab jhoot lag rha h jub humy sabr nhi ata
تیری دو پل کی محبت بنے همیں عمر بهر کا رونا دے دیا @
ثناء جٹ
خرید تو لیتے هم اپنا یار دل کے تو بہت نواب تهے هم کیا کرتے مقدر کے بہت غریب نکلے هم @
ثناء جٹ
تم بهولو تو تمیں آنچ نہ آئے هم بهولے تو ہمیں اگلی سانس نہ آئے @
انہی میں سے ایک ٹولی نے یہ قرآن سنا اور یہ بات سمجھ لی کہ نبی ؐ کی بعثت کا یہ واقعہ ہی ہم پر آسمان کی بندش کا سبب ہے اور جنوں کی یہ ٹولی آپؐ پر ایمان لے آئی اور جا کر اپنی قوم کو بھی بتلایا۔ (صحیح مسلم کتاب الصلوٰۃ) مکہ مکرمہ میں حرم کے قریب) جہاں یہ وقوعہ پیش آیا وہاں اب مسجدِجن بنا دی گئی ہے۔ بعض دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بعد آپؐ جنوں کی دعوت پر ان کے ہاں تشریف بھی لے گئے اور انہیں جاکر اللہ کا پیغام سنایا اور متعدد مرتبہ جنوں کا وفد آپؐ کی خدمت میں بھی حاضر ہوا۔ (ابن کثیر) جن و شیاطین کا ذکر قرآن حکیم میں 120سے بھی زائد مقامات پر آیا ہےend
آیات1تا15)
یہ واقعہ مکہ کے قریب وادی نخلہ میں پیش آیا جہاں آپؐ صحابہ کرام ؓ کو فجر کی نماز پڑھا رہے تھے۔ جِنوں کو تجسس تھا کہ آسمان پر ہم پر بہت زیادہ سختی کردی گئی ہے اور اب ہمارا وہاں جانا تقریباً ناممکن بنا دیا گیا ہے، کوئی بہت اہم واقعہ رونما ہوا ہے جس کی بنا پر ایسا ہوا ہے۔ چناںچہ مشرق و مغرب کے مختلف اطراف میں جنوں کی ٹولیاں واقعے کا سراغ لگا نے کے لیے پھیل گئیں۔ cuntinu
اور یہ کہ ہم نیکوکار ہیں اور بعض اس کے برعکس بھی ہیں۔ ہم مختلف طریقوں سے بٹے ہوئے ہیں اور ہم نے سمجھ لیا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کو ہرگز عاجز نہیں کرسکتے اور نہ ہم بھاگ کر اسے ہرا سکتے ہیں۔ ہم تو ہدایت کی بات سنتے ہی اس پر ایمان لاچکے اور جو بھی اپنے رب پر ایمان لائے گا اسے نہ کسی ظلم کا اندیشہ ہے نہ ظلم و ستم کا ہاں ہم میں بعض تو مسلمان ہیں اور بعض بے انصاف ہیں پس جو فرماںبردار ہوگئے انہوں نے تو راہ راست کا قصد کیا اور جو ظالم ہیں وہ جہنم کا ایندھن بن گئے۔‘‘ (سورۂ الجن cuntinu
اور بیشک ہمارے رب کی شان بڑی بلند ہے ناں اس نے کسی کو اپنی بیوی بنایا ہے نہ بیٹا اور یہ کہ ہم میں کا بیوقوف اللہ کے بارے میں خلاف حق باتیں کرتا تھا اور ہم تو یہی سمجھتے رہے کہ ناممکن ہے کہ انسان اور جنات اللہ پر جھوٹی تہمتیں لگائیں۔
بات یہ ہے کہ چند انسان بعض جنات سے پناہ طلب کیا کرتے تھے جس سے جنات اپنی سر کشی میں بڑھ گئے اور (انسانوں) نے بھی تم جنوں کی طرح گمان کرلیا تھا کہ اللہ کسی کو نہ بھیجے گا اور ہم نے آسمان کو ٹٹول کر دیکھا تو اسے سخت چوکی داروں اور سخت شعلوں سے پُر پایا۔ اس سے پہلے ہم باتیں سننے کے لیے آسمان پر جگہ جگہ بیٹھ جایا کرتے تھے اب جو بھی کان لگاتا ہے وہ ایک شعلے کو اپنی تاک میں پاتا ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ زمین والوں کے ساتھ کسی برائی کا ارادہ کیا گیا ہے یا ان کے رب کا ارادہ ان کے ساتھ بھلائی کا ہے cuntinu
جنات میں جہاں بدطینت قسم کا گروہ تھا وہاں اچھے نیک اور بزرگ قسم کے گروہ بھی تھے۔ وہ اپنی ذات سے کسی کو نقصان نہیں پہنچاتے۔ ان میں ہدایت حاصل کرنے کا عزم اور ولولہ تھا جس کی اولین مثال حضرت سلیمان ؑ کی ہے جن کے تابع فرمان رہ کر وہ مشکل سے مشکل امور سرانجام دیتے رہتے تھے۔ دوسری مثال آنحضور ؐ کے دورنبوت کی ہے جب ایک مرتبہ ان جنات نے آنحضور ؐ سے قرآن حکیم سنا تھا۔ اس گروہ نے جہاں آپؐ کی زیارت کا شرف حاصل کیا وہاں اپنی سماعت کو بھی منور کیا اور پھر اپنے قبیلے یا خاندان میں جاکر بڑی حیرت و استعجاب کے ساتھ یہ واقعہ سنایا۔ ترجمہ ’’آپ کہہ د یں کہ مجھے وحی کی گئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے قرآن سنا اور کہا کہ ہم نے عجب قرآن سنا ہے جو راہ راست کی طرف راہ نمائی کرتا ہے۔ ہم اس پر ایما ن لاچکے ہم ہرگز کسی کو بھی اپنے رب کا شریک نہیں بنائیں گے cuntinu
رجیم کے معنی سنگسار کرنے کے ہیں۔ شیطان کو رجیم اس لیے بھی کہا گیا ہے کہ جب یہ آسمانوں پر جانے کی کوشش کرتا ہے تو اس پر شہاب ثاقب برسائے جاتے ہیں۔ اس سے کچھ شیاطین تو اسی وقت جل مرتے ہیں اور جو بچ کر آتے ہیں وہ نجومیوں اور کاہنوں سے مل کر شرارت کرتے ہیں۔ (تفصیل کے لیے صحیح بخاری وتفسیر سورہ الحجر دیکھیے) ستارے آسمان دنیا کی زینت ہیں جہاں رات میں وہ مسافروں کی اور اوقات کی راہ نمائی کرتے ہیں۔ اسی طرح جن و شیاطین کو سبق سکھانے کے لیے گرز کا کام بھی دیتے ہیںcuntinu
ں کہ تجھ سے اور تیرے تمام ماننے والوں سے میں جہنم کو بھر دوں گا۔‘‘ (سورہ ص ٓ آیات 72تا85)
یہ جن و شیاطین صرف روئے زمین پر ہی اپنے مذموم عزائم پر عمل کرسکتے ہیں۔ آسمان دنیا پر ان کا داخلہ ممنوع ہے۔ اگر وہ ملائکہ اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ہونے والی گفت و شنید کی ٹوہ میں جائیں گے تو ان پر ستاروں کی مار لگائی جاتی ہے اور وہ زمین کی طرف چیختے چلاتے واپس آجاتے ہیں۔ ایک اور مقام پر ارشاد ہے ترجمہ:’’یقیناً ہم نے آسمان میں برج بنائے ہیں اور دیکھنے والوں کے لیے اسے سجادیا ہے اور اسے ہر شیطان مردود سے محفوظ رکھا ہے۔ ہاں مگر جو چوری چھے سننے کی کوشش کرے اس کے پیچھے دہکتا ہوا شعلہ لگتا ہے۔‘‘ (سورہ الحجر آیات 16تا18) اس آیۂ مبارکہ میں دو الفاظ رجیم اور مردود آئے ہیں۔
چناںچہ تمام فرشتوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے (نہ کیا) اس نے تکبر کیا اور وہ تھا کافروں میں سے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے ابلیس! اسے سجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے پیدا کیا کیا تو کچھ غرور میں آگیا ہے یا تو بڑے درجے والوں میں سے ہے۔
اس نے جو اب دیا کہ میں اس سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے بنایا ہے اور اسے مٹی سے ارشاد ہوا کہ تو یہاں سے نکل جا تو مردود ہوا اور تجھ پر قیامت کے دن تک لعنت و پھٹکار ہے۔ کہنے لگا میرے رب مجھے لوگوں کے اٹھ کھڑے ہونے کے دن (قیامت ) تک کی مہلت دے ۔ فرمایا تو مہلت والوں میں سے ہے متعین وقت کے دن تک کہنے لگا پھر تو تیری عزت کی قسم میں ان سب کو یقیناً بہکا دوں گا۔ بجز تیرے ان بندوں کے جو چیدہ اور پسندیدہ ہوں فرمایا سچ تو یہ ہے اور میں سچ ہی کہا کرتا ہوںcuntinu
اور اپنے مادے کی خاصیت کی بنا پر ایسا ہونا بھی چاہیے، کیوںکہ آگ کا خاصہ یہی ہے کہ وہ سر اٹھائے اور سوزش اور جلن کو نتیجے میں دکھلائے۔
جنات میں نیک اور بد دونوں اقسام ہوتی ہیں۔ بزرگ بھی ہوتے ہیں اور بدنفس بھی۔ یہ مختلف روپ دھار کر روئے زمین پر وارد ہوتے ہیں۔ انہیں میں سے ایک جن کا نام ابلیس ہے جو انسان کی دشمنی میں اندھا ہوگیا ہے اور اس نے نسل آدم کو بہکانے کے لیے قیامت تک کی مہلت لے لی ہے۔ یہ وہی ابلیس ہے جس نے اللہ کے حکم سے سرتابی کی تھی اور حضرت آدم ؑ کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا تھا اس کا ذکر قرآن حکیم میں اس طرح کیا گیا ہے ترجمہ:’’جب کہ آپ کے رب نے فرشتوں سے ارشاد فرمایا کہ میں مٹی سے انسان کو پیدا کرنے والا ہوں سو جب میں اسے ٹھیک ٹھاک کرلوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم سب اس کے سامنے سجدے میں گر پڑنا۔ cuntinu
اہل عرب دورِجاہلیت میں بڑے تو ہم پرست تھے 360 بتوں کی تو وہ پوجا اور پرستش کرتے ہی تھے اور اس میں شدت کا یہ عالم تھا کہ ہر خاندان اور قبیلے کا ایک الگ الگ بت ہوا کرتا تھا کوئی ایک قبیلہ دوسرے کے بت کی پوجا کا مکلف نہ تھا۔ چناںچہ اسی دور میں جب عرب قوم کے لوگ کسی سفر پر روانہ ہوتے تو راستے میں کوئی وادی یا خوف ناک بیابان آجاتا تو وہاں سے گزرتے وقت یہ الفاظ ادا کرکے گزرتے ’’میں اس وادی کے سردار اور اس کی قوم کے بیوقوفوں سے پناہ چاہتا ہوں۔‘‘ ان کے خیال سے بیابانوں پر جنات کا تسلط تھا اور جنوں کے سردار کی اس لیے پناہ طلب کرتے تھے کہ اس کے ماتحت بسنے والے جن کچھ اذیت نہ پہنچائیں۔ مطلب یہ کہ اس قسم کے رسوم اور اقوال سے انسانوں نے ان جنات کو اور بھی زیادہ مغرور بنادیا تھا۔ اس کے علاوہ اس مخلوق میں سرکشی ونافرمانی کا بھی مادہ موجود ہے cuntinu
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain