Damadam.pk
sanaasif's posts | Damadam

sanaasif's posts:

sanaasif
 

تو میں بھی خوش ہوں کوئی اس سے جا کے کہہ دینا
اگر وہ خوش ہے مجھے بے قرار کرتے ہوئے
تمہیں خبر ہی نہیں ہے کہ کوئی ٹوٹ گیا
محبتوں کو بہت پائیدار کرتے ہوئے
میں مسکراتا ہوا آئینے میں ابھروں گا
وہ رو پڑے گی اچانک سنگھار کرتے ہوئے
مجھے خبر تھی کہ اب لوٹ کر نہ آؤں گا
سو تجھ کو یاد کیا دل پہ وار کرتے ہوئے
یہ کہہ رہی تھی سمندر نہیں یہ آنکھیں ہیں
میں ان میں ڈوب گیا اعتبار کرتے ہوئے
بھنور جو مجھ میں پڑے ہیں وہ میں ہی جانتا ہوں
تمہارے ہجر کے دریا کو پار کرتے ہوئے
وصی شاہ

sanaasif
 

خاموشی رات کی دیکتھا ہوں اور تجھے سوچتا ہوں
مد ہوش اکثر ہوجاتا ہوں اور تجھے سوچتا ہوں
ہوش والوں میں جاتا ہوں تو الجھتی ہے طبعیت
سو با ہوش پڑا رہتا ہوں اور تجھے سوچتا ہوں
تو من میں میرے آ جا میں تجھ میں سما جاؤں
ادھورے خواب سمجھتا ہوں اورتجھے سوچتا ہوں
جمانے لگتی ہیں جب لہو میرا فر خت کی ہوائیں
تو شال قر بت کی اوڑھتا اور تجھے سوچتا ہو
وصی شاہ

sanaasif
 

تُو فیصلۂ ترکِ ملاقات میں گُم ہے
بندہ تری دیرینہ عنایات میں گُم ہے
ہم منزلِ بے نام کے راہی ہیں ازل سے
تُو تذکرہِ حسنِ مقامات میں گُم ہے
شادابئ گلشن کو بیاباں نہ بنا دے
وہ شعلۂ بے تاب، جو برسات میں گُم ہے
"ہے گردشِ دوراں کا عناں گیر قلندر"
گُم کردہ روایات، مگر زات میں گُم ہے
منزل ہے بہت دور مگر حسنِ تقرب
واصفؒ ترے قدموں کے نشانات میں گُم ہے
واصف علی واصف

sanaasif
 

جذبات زیرِ گردشِ حالات سو گئے
چھائی گھٹا تو رندِ خرابات سو گئے
منزل سے دور جاگتی سوچیں تھیں ذہن میں
منزل پہ آ گئے تو خیالات سو گئے
تاروں نے ہم کو دیکھ کے شبنم سے یہ کہا
یہ بدنصیب وقتِ مناجات سو گئے
کیا دلگداز موسمِ گل کا تھا انتظار
فصلِ بہار آئی تو نغمات سو گئے
آنکھوں میں ہم نے کاٹ دی شامِ غمِ فراق
آیا کوئی جو بہرِ ملاقات سو گئے
اک خواب کے سوا ہے یہ ہستی تمام خواب
آئی ہے جن کے ذہن میں یہ بات سو گئے
آیا جو وقت معرکہِ حق و کفر کا!
کیوں صاحبانِ کشف و کرامات سو گئے
واصف علی واصف

sanaasif
 

ہَر ذرّہ ہے اِک وُسعتِ صحرا میرے آگے
ہَر قَطرہ ہے اِک موجۂ دریا میرے آگے
اِک نعرہ لگا دُوں کبھی مَستی میں سرِ دار
کعبہ نہ بنے کیسے کلیسا میرے آگے
وہ خاک نشیں ہوں کہ میری زَد میں جہاں ہے
بَل کھاتی ہے کیا مَوجِ ثریّا میرے آگے
میں ہست میں ہوں نیست کا پیغامِ مجسم
اَنگُشت بَدَنداں ہے مسیحا میرے آگے
میں جوش میں آیا تو یہی قُلزمِ ہستی
یُوں سِمٹا کہ جیسے کوئی قطرہ میرے آگے
لے آیا ہوں اَفلاک سے مِلّت کا مُقدّر
کیا کیجئے مقدُور کا شکوہ میرے آگے
اُستادِ زماں فَخرِ بیاںؐ کی ہے توجّہ
غالبؔ کی زمیں کب ہوئی عَنقا میرے آگے
واصِفؔ ہے میرا نام مگر راز ہوں گہرا
ذرّے نے جِگر چِیر کے رکھا میرے آگے
واصف علی واصف

sanaasif
 

بے زباں کلیوں کا دل میلا کیا
اے ہوائے صبح تو نے کیا کیا
کی عطا ہر گل کو اک رنگیں قبا
بوئے گل کو شہر میں رسوا کیا
کیا تجھے وہ صبح کاذب یاد ہے
روشنی سے تو نے جب پردہ کیا
بے خیالی میں ستارے چن لیے
جگمگاتی رات کو اندھا کیا
جاتے جاتے شام یک دم ہنس پڑی
اک ستارہ دیر تک رویا کیا
روٹھ کر گھر سے گیا تو کتنی بار
کیا در و دیوار نے پیچھا کیا
اپنی عریانی چھپانے کے لیے
تو نے سارے شہر کو ننگا کیا
وزیر آغا

sanaasif
 

بادل چھٹے تو رات کا ہر زخم وا ہوا
آنسو رکے تو آنکھ میں محشر بپا ہوا
سوکھی زمیں پہ بکھری ہوئی چند پتیاں
کچھ تو بتا نگار چمن تجھ کو کیا ہوا
ایسے بڑھے کہ منزلیں رستے میں بچھ گئیں
ایسے گئے کہ پھر نہ کبھی لوٹنا ہوا
اے جستجو کہاں گئے وہ حوصلے ترے
کس دشت میں خراب ترا قافلہ ہوا
پہنچے پس خیال تو دیکھا کہ ریت پر
خیمہ تھا ایک پھول کی صورت کھلا ہوا
آئی شب سیہ تو دئیے جھلملا اٹھے
تھا روشنی میں شہر ہمارا بجھا ہوا
وزیر آغا

sanaasif
 

اڑی جو گرد تو اس خاک داں کو پہچانا
اور اس کے بعد دل بے نشاں کو پہچانا
جلا جو رزق تو ہم آسماں کو جان گئے
لگی جو پیاس تو تیر و کماں کو پہچانا
چلو یہ آنکھ کا جل تھل تو تم نے دیکھ لیا
مگر یہ کیا کہ نہ ابر رواں کو پہچانا
بہار آئی تو ہر سو تھیں کترنیں اس کی
بہار آئی تو ہم نے خزاں کو پہچانا
خود اپنے غم ہی سے کی پہلے دوستی ہم نے
اور اس کے بعد غم دوستاں کو پہچانا
سفر طویل سہی حاصل سفر یہ ہے
وہاں کو بھول گئے اور یہاں کو پہچانا
زمیں سے ہاتھ چھڑایا تو فاصلے جاگے
مگر نہ ہم نے کراں تا کراں کو پہچانا
عجب طرح سے گزاری ہے زندگی ہم نے
جہاں میں رہ کے نہ کار جہاں کو پہچانا
وزیر آغا

sanaasif
 

مثال عکس مرے آئنے میں ڈھلتا رہا
وہ خد و خال بھی اپنے مگر بدلتا رہا
میں پتھروں پہ گری اور خود سنبھل بھی گئی
وہ خامشی سے مرے ساتھ ساتھ چلتا رہا
اجالا ہوتے ہی کیسے اسے بجھاؤں گی
اگر چراغ مرا تا بہ صبح جلتا رہا
میں اس کے معنی و مقصد کے سنگ چنتی رہی
وہ ایک حرف جو احساس کو کچلتا رہا
زمیں خلوص کی مٹی سے بے نیاز رہی
رفاقتوں کا شجر واہموں پہ پلتا رہا
یاسمین حمید

sanaasif
 

عطائے ابر سے انکار کرنا چاہیئے تھا
میں صحرا تھی مجھے اقرار کرنا چاہیئے تھا
لہو کی آنچ دینی چاہیئے تھی فیصلے کو
اسے پھر نقش بر دیوار کرنا چاہیئے تھا
اگر لفظ و بیاں ساکت کھڑے تھے دوسری سمت
ہمیں کو رنج کا اظہار کرنا چاہیئے تھا
اگر اتنی مقدم تھی ضرورت روشنی کی
تو پھر سائے سے اپنے پیار کرنا چاہیئے تھا
سمندر ہو تو اس میں ڈوب جانا بھی روا ہے
مگر دریاؤں کو تو پار کرنا چاہیئے تھا
دل خوش فہم کو صبح سفر کی روشنی میں
شب غم کے لیے تیار کرنا چاہیئے تھا
شکست زندگی کا عکس بن کر رہ گیا ہے
وہی لمحہ جسے شہکار کرنا چاہیئے تھا
یاسمین حمید

sanaasif
 

اک بے پناہ رات کا تنہا جواب تھا
چھوٹا سا اک دیا جو سر احتساب تھا
رستہ مرا تضاد کی تصویر ہو گیا
دریا بھی بہہ رہا تھا جہاں پر سراب تھا
وہ وقت بھی عجیب تھا حیران کر گیا
واضح تھا زندگی کی طرح اور خواب تھا
پہلے پڑاؤ سے ہی اسے لوٹنا پڑا
لمبی مسافتوں سے جسے اجتناب تھا
پھر بے نمو زمین تھی اور خشک تھے شجر
بے ابر آسماں کا چلن کامیاب تھا
اک بے قیاس بات سے منسوب ہو گیا
پھیلا ہوا حروف میں جو اضطراب تھا
اپنی نگاہ پر بھی کروں اعتبار کیا
کس مان پر کہوں وہ مرا انتخاب تھا
یاسمین حمید

sanaasif
 

خامشی اچھی نہیں انکار ہونا چاہئے
یہ تماشا اب سر بازار ہونا چاہئے
خواب کی تعبیر پر اصرار ہے جن کو ابھی
پہلے ان کو خواب سے بیدار ہونا چاہئے
ڈوب کر مرنا بھی اسلوب محبت ہو تو ہو
وہ جو دریا ہے تو اس کو پار ہونا چاہئے
اب وہی کرنے لگے دیدار سے آگے کی بات
جو کبھی کہتے تھے بس دیدار ہونا چاہئے
بات پوری ہے ادھوری چاہئے اے جان جاں
کام آساں ہے اسے دشوار ہونا چاہئے
دوستی کے نام پر کیجے نہ کیونکر دشمنی
کچھ نہ کچھ آخر طریق کار ہونا چاہئے
جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اس پر ظفرؔ
آدمی کو صاحب کردار ہونا چاہئے
ظفر اقبال

sanaasif
 

ایسا وہ بے شمار و قطار انتظار تھا
پہلی ہی بار دوسری بار انتظار تھا
خاموشیٔ خزاں تھی چمن در چمن تمام
شاخ و شجر میں شور بہار انتظار تھا
دیکھا تو خلوت خس و خاشاک خواب میں
روشن کوئی چراغ شرار انتظار تھا
باہر بھی گرد امید کی اڑتی تھی دور دور
اندر بھی چاروں سمت غبار انتظار تھا
پھیلے ہوئے وہ گھاس کے تختے نہ تھے وہاں
دراصل ایک سلسلہ وار انتظار تھا
کوئی خبر تھی آمد و امکان صبح کی
اور اس کے ارد گرد حصار انتظار تھا
کس کے گمان میں تھے نئے موسموں کے رنگ
کس کا مرے سوا سروکار انتظار تھا
امڈا ہوا ہجوم تماشا تھا دائیں بائیں
تنہا تھیں آنکھیں اور ہزار انتظار تھا
چکر تھے پاؤں میں کوئی شام و سحر ظفرؔ
اوپر سے میرے سر پہ سوار انتظار تھا
ظفر اقبال

sanaasif
 

بس ایک بار کسی نے گلے لگایا تھا
پھر اس کے بعد نہ میں تھا نہ میرا سایا تھا
گلی میں لوگ بھی تھے میرے اس کے دشمن لوگ
وہ سب پہ ہنستا ہوا میرے دل میں آیا تھا
اس ایک دشت میں سو شہر ہو گئے آباد
جہاں کسی نے کبھی کارواں لٹایا تھا
وہ مجھ سے اپنا پتا پوچھنے کو آ نکلے
کہ جن سے میں نے خود اپنا سراغ پایا تھا
مرے وجود سے گلزار ہو کے نکلی ہے
وہ آگ جس نے ترا پیرہن جلایا تھا
مجھی کو طعنۂ غارت گری نہ دے پیارے
یہ نقش میں نے ترے ہاتھ سے مٹایا تھا
اسی نے روپ بدل کر جگا دیا آخر
جو زہر مجھ پہ کبھی نیند بن کے چھایا تھا
ظفرؔ کی خاک میں ہے کس کی حسرت تعمیر
خیال و خواب میں کس نے یہ گھر بنایا تھا
ظفر اقبال

sanaasif
 

اپنے انکار کے برعکس برابر کوئی تھا
دل میں اک خواب تھا اور خواب کے اندر کوئی تھا
ہم پسینے میں شرابور تھے اور دور کہیں
ایسے لگتا ہے کہیں تخت ہوا پر کوئی تھا
اس کے باغات پہ اترا ہوا تھا موسم رنگ
قابل دید ہر اک سمت سے منظر کوئی تھا
شک اگر تھا بھی تو مٹتا گیا ہوتے ہوتے
اور اب پختہ یقیں ہے کہ سراسر کوئی تھا
اس دل تنگ میں کیا اس کی رہائش ہوتی
یعنی اندر تو نہیں تھا مرے باہر کوئی تھا
شکل کچھ یاد ہے کچھ بھول چکی ہے اس کی
کوئی دن تھے کہ مکمل مجھے ازبر کوئی تھا
دائرے میں کبھی رکھا ہی نہیں اس نے قدم
اور محبت کے مضافات میں اکثر کوئی تھا
میں اسے چھوڑ کے خود ہی چلا آیا تھا کبھی
اور اب پوچھتا پھرتا ہوں مرا گھر کوئی تھا
یاوہ گو تھا ظفرؔ اس عہد خرابی میں کوئی
یاوہ گو ہی اسے کہتے ہیں سخن ور کوئی تھا
ظفر اقبال

sanaasif
 

چائے پینے والوں کا مزاج بھی چائے کے ذائقے کی طرح☕💐🌹
میٹھا خوشبودار اور بے حد محبت بھرا ہوتا ہے

sanaasif
 

مجھے لوگ بھی چائے کے جیسے ہی پسند ہیں
نا ضرورت سے زیادہ میٹھے نا ضرورت سے زیادہ کڑوے

رات تو تیرے خوابوں میں ہی گزر گئی
چل اپنی صبح کا آغاز بھی تیری یاد سے کرتے ہیں
s  : رات تو تیرے خوابوں میں ہی گزر گئی چل اپنی صبح کا آغاز بھی تیری یاد سے کرتے - 
sanaasif
 

Its purity of heart that matters,
Not the external appearance.
Because helping hands are always
Better than praying lips…!
GOOD MORNING!!!🌞💐

sanaasif
 

آنکھوں سے مری اس لیے لالی نہیں جاتی
یادوں سے کوئی رات جو خالی نہیں جاتی
اب عمر نہ موسم نہ وہ رستے کہ وہ پلٹے
اس دل کی مگر خام خیالی نہیں جاتی
مانگے تو اگر جان بھی ہنس کے تجھے دے دیں
تیری تو کوئی بات بھی ٹالی نہیں جاتی
آئے کوئی آ کر یہ ترے درد سنبھالے
ہم سے تو یہ جاگیر سنبھالی نہیں جاتی
معلوم ہمیں بھی ہیں بہت سے ترے قصے
پر بات تری ہم سے اچھالی نہیں جاتی
ہم راہ ترے پھول کھلاتی تھی جو دل میں
اب شام وہی درد سے خالی نہیں جاتی
ہم جان سے جائیں گے تبھی بات بنے گی
تم سے تو کوئی راہ نکالی نہیں جاتی
وصی شاہ