تو میں بھی خوش ہوں کوئی اس سے جا کے کہہ دینا
اگر وہ خوش ہے مجھے بے قرار کرتے ہوئے
تمہیں خبر ہی نہیں ہے کہ کوئی ٹوٹ گیا
محبتوں کو بہت پائیدار کرتے ہوئے
میں مسکراتا ہوا آئینے میں ابھروں گا
وہ رو پڑے گی اچانک سنگھار کرتے ہوئے
مجھے خبر تھی کہ اب لوٹ کر نہ آؤں گا
سو تجھ کو یاد کیا دل پہ وار کرتے ہوئے
یہ کہہ رہی تھی سمندر نہیں یہ آنکھیں ہیں
میں ان میں ڈوب گیا اعتبار کرتے ہوئے
بھنور جو مجھ میں پڑے ہیں وہ میں ہی جانتا ہوں
تمہارے ہجر کے دریا کو پار کرتے ہوئے
وصی شاہ
خاموشی رات کی دیکتھا ہوں اور تجھے سوچتا ہوں
مد ہوش اکثر ہوجاتا ہوں اور تجھے سوچتا ہوں
ہوش والوں میں جاتا ہوں تو الجھتی ہے طبعیت
سو با ہوش پڑا رہتا ہوں اور تجھے سوچتا ہوں
تو من میں میرے آ جا میں تجھ میں سما جاؤں
ادھورے خواب سمجھتا ہوں اورتجھے سوچتا ہوں
جمانے لگتی ہیں جب لہو میرا فر خت کی ہوائیں
تو شال قر بت کی اوڑھتا اور تجھے سوچتا ہو
وصی شاہ
تُو فیصلۂ ترکِ ملاقات میں گُم ہے
بندہ تری دیرینہ عنایات میں گُم ہے
ہم منزلِ بے نام کے راہی ہیں ازل سے
تُو تذکرہِ حسنِ مقامات میں گُم ہے
شادابئ گلشن کو بیاباں نہ بنا دے
وہ شعلۂ بے تاب، جو برسات میں گُم ہے
"ہے گردشِ دوراں کا عناں گیر قلندر"
گُم کردہ روایات، مگر زات میں گُم ہے
منزل ہے بہت دور مگر حسنِ تقرب
واصفؒ ترے قدموں کے نشانات میں گُم ہے
واصف علی واصف
جذبات زیرِ گردشِ حالات سو گئے
چھائی گھٹا تو رندِ خرابات سو گئے
منزل سے دور جاگتی سوچیں تھیں ذہن میں
منزل پہ آ گئے تو خیالات سو گئے
تاروں نے ہم کو دیکھ کے شبنم سے یہ کہا
یہ بدنصیب وقتِ مناجات سو گئے
کیا دلگداز موسمِ گل کا تھا انتظار
فصلِ بہار آئی تو نغمات سو گئے
آنکھوں میں ہم نے کاٹ دی شامِ غمِ فراق
آیا کوئی جو بہرِ ملاقات سو گئے
اک خواب کے سوا ہے یہ ہستی تمام خواب
آئی ہے جن کے ذہن میں یہ بات سو گئے
آیا جو وقت معرکہِ حق و کفر کا!
کیوں صاحبانِ کشف و کرامات سو گئے
واصف علی واصف
ہَر ذرّہ ہے اِک وُسعتِ صحرا میرے آگے
ہَر قَطرہ ہے اِک موجۂ دریا میرے آگے
اِک نعرہ لگا دُوں کبھی مَستی میں سرِ دار
کعبہ نہ بنے کیسے کلیسا میرے آگے
وہ خاک نشیں ہوں کہ میری زَد میں جہاں ہے
بَل کھاتی ہے کیا مَوجِ ثریّا میرے آگے
میں ہست میں ہوں نیست کا پیغامِ مجسم
اَنگُشت بَدَنداں ہے مسیحا میرے آگے
میں جوش میں آیا تو یہی قُلزمِ ہستی
یُوں سِمٹا کہ جیسے کوئی قطرہ میرے آگے
لے آیا ہوں اَفلاک سے مِلّت کا مُقدّر
کیا کیجئے مقدُور کا شکوہ میرے آگے
اُستادِ زماں فَخرِ بیاںؐ کی ہے توجّہ
غالبؔ کی زمیں کب ہوئی عَنقا میرے آگے
واصِفؔ ہے میرا نام مگر راز ہوں گہرا
ذرّے نے جِگر چِیر کے رکھا میرے آگے
واصف علی واصف
بے زباں کلیوں کا دل میلا کیا
اے ہوائے صبح تو نے کیا کیا
کی عطا ہر گل کو اک رنگیں قبا
بوئے گل کو شہر میں رسوا کیا
کیا تجھے وہ صبح کاذب یاد ہے
روشنی سے تو نے جب پردہ کیا
بے خیالی میں ستارے چن لیے
جگمگاتی رات کو اندھا کیا
جاتے جاتے شام یک دم ہنس پڑی
اک ستارہ دیر تک رویا کیا
روٹھ کر گھر سے گیا تو کتنی بار
کیا در و دیوار نے پیچھا کیا
اپنی عریانی چھپانے کے لیے
تو نے سارے شہر کو ننگا کیا
وزیر آغا
بادل چھٹے تو رات کا ہر زخم وا ہوا
آنسو رکے تو آنکھ میں محشر بپا ہوا
سوکھی زمیں پہ بکھری ہوئی چند پتیاں
کچھ تو بتا نگار چمن تجھ کو کیا ہوا
ایسے بڑھے کہ منزلیں رستے میں بچھ گئیں
ایسے گئے کہ پھر نہ کبھی لوٹنا ہوا
اے جستجو کہاں گئے وہ حوصلے ترے
کس دشت میں خراب ترا قافلہ ہوا
پہنچے پس خیال تو دیکھا کہ ریت پر
خیمہ تھا ایک پھول کی صورت کھلا ہوا
آئی شب سیہ تو دئیے جھلملا اٹھے
تھا روشنی میں شہر ہمارا بجھا ہوا
وزیر آغا
اڑی جو گرد تو اس خاک داں کو پہچانا
اور اس کے بعد دل بے نشاں کو پہچانا
جلا جو رزق تو ہم آسماں کو جان گئے
لگی جو پیاس تو تیر و کماں کو پہچانا
چلو یہ آنکھ کا جل تھل تو تم نے دیکھ لیا
مگر یہ کیا کہ نہ ابر رواں کو پہچانا
بہار آئی تو ہر سو تھیں کترنیں اس کی
بہار آئی تو ہم نے خزاں کو پہچانا
خود اپنے غم ہی سے کی پہلے دوستی ہم نے
اور اس کے بعد غم دوستاں کو پہچانا
سفر طویل سہی حاصل سفر یہ ہے
وہاں کو بھول گئے اور یہاں کو پہچانا
زمیں سے ہاتھ چھڑایا تو فاصلے جاگے
مگر نہ ہم نے کراں تا کراں کو پہچانا
عجب طرح سے گزاری ہے زندگی ہم نے
جہاں میں رہ کے نہ کار جہاں کو پہچانا
وزیر آغا
مثال عکس مرے آئنے میں ڈھلتا رہا
وہ خد و خال بھی اپنے مگر بدلتا رہا
میں پتھروں پہ گری اور خود سنبھل بھی گئی
وہ خامشی سے مرے ساتھ ساتھ چلتا رہا
اجالا ہوتے ہی کیسے اسے بجھاؤں گی
اگر چراغ مرا تا بہ صبح جلتا رہا
میں اس کے معنی و مقصد کے سنگ چنتی رہی
وہ ایک حرف جو احساس کو کچلتا رہا
زمیں خلوص کی مٹی سے بے نیاز رہی
رفاقتوں کا شجر واہموں پہ پلتا رہا
یاسمین حمید
عطائے ابر سے انکار کرنا چاہیئے تھا
میں صحرا تھی مجھے اقرار کرنا چاہیئے تھا
لہو کی آنچ دینی چاہیئے تھی فیصلے کو
اسے پھر نقش بر دیوار کرنا چاہیئے تھا
اگر لفظ و بیاں ساکت کھڑے تھے دوسری سمت
ہمیں کو رنج کا اظہار کرنا چاہیئے تھا
اگر اتنی مقدم تھی ضرورت روشنی کی
تو پھر سائے سے اپنے پیار کرنا چاہیئے تھا
سمندر ہو تو اس میں ڈوب جانا بھی روا ہے
مگر دریاؤں کو تو پار کرنا چاہیئے تھا
دل خوش فہم کو صبح سفر کی روشنی میں
شب غم کے لیے تیار کرنا چاہیئے تھا
شکست زندگی کا عکس بن کر رہ گیا ہے
وہی لمحہ جسے شہکار کرنا چاہیئے تھا
یاسمین حمید
اک بے پناہ رات کا تنہا جواب تھا
چھوٹا سا اک دیا جو سر احتساب تھا
رستہ مرا تضاد کی تصویر ہو گیا
دریا بھی بہہ رہا تھا جہاں پر سراب تھا
وہ وقت بھی عجیب تھا حیران کر گیا
واضح تھا زندگی کی طرح اور خواب تھا
پہلے پڑاؤ سے ہی اسے لوٹنا پڑا
لمبی مسافتوں سے جسے اجتناب تھا
پھر بے نمو زمین تھی اور خشک تھے شجر
بے ابر آسماں کا چلن کامیاب تھا
اک بے قیاس بات سے منسوب ہو گیا
پھیلا ہوا حروف میں جو اضطراب تھا
اپنی نگاہ پر بھی کروں اعتبار کیا
کس مان پر کہوں وہ مرا انتخاب تھا
یاسمین حمید
خامشی اچھی نہیں انکار ہونا چاہئے
یہ تماشا اب سر بازار ہونا چاہئے
خواب کی تعبیر پر اصرار ہے جن کو ابھی
پہلے ان کو خواب سے بیدار ہونا چاہئے
ڈوب کر مرنا بھی اسلوب محبت ہو تو ہو
وہ جو دریا ہے تو اس کو پار ہونا چاہئے
اب وہی کرنے لگے دیدار سے آگے کی بات
جو کبھی کہتے تھے بس دیدار ہونا چاہئے
بات پوری ہے ادھوری چاہئے اے جان جاں
کام آساں ہے اسے دشوار ہونا چاہئے
دوستی کے نام پر کیجے نہ کیونکر دشمنی
کچھ نہ کچھ آخر طریق کار ہونا چاہئے
جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اس پر ظفرؔ
آدمی کو صاحب کردار ہونا چاہئے
ظفر اقبال
ایسا وہ بے شمار و قطار انتظار تھا
پہلی ہی بار دوسری بار انتظار تھا
خاموشیٔ خزاں تھی چمن در چمن تمام
شاخ و شجر میں شور بہار انتظار تھا
دیکھا تو خلوت خس و خاشاک خواب میں
روشن کوئی چراغ شرار انتظار تھا
باہر بھی گرد امید کی اڑتی تھی دور دور
اندر بھی چاروں سمت غبار انتظار تھا
پھیلے ہوئے وہ گھاس کے تختے نہ تھے وہاں
دراصل ایک سلسلہ وار انتظار تھا
کوئی خبر تھی آمد و امکان صبح کی
اور اس کے ارد گرد حصار انتظار تھا
کس کے گمان میں تھے نئے موسموں کے رنگ
کس کا مرے سوا سروکار انتظار تھا
امڈا ہوا ہجوم تماشا تھا دائیں بائیں
تنہا تھیں آنکھیں اور ہزار انتظار تھا
چکر تھے پاؤں میں کوئی شام و سحر ظفرؔ
اوپر سے میرے سر پہ سوار انتظار تھا
ظفر اقبال
بس ایک بار کسی نے گلے لگایا تھا
پھر اس کے بعد نہ میں تھا نہ میرا سایا تھا
گلی میں لوگ بھی تھے میرے اس کے دشمن لوگ
وہ سب پہ ہنستا ہوا میرے دل میں آیا تھا
اس ایک دشت میں سو شہر ہو گئے آباد
جہاں کسی نے کبھی کارواں لٹایا تھا
وہ مجھ سے اپنا پتا پوچھنے کو آ نکلے
کہ جن سے میں نے خود اپنا سراغ پایا تھا
مرے وجود سے گلزار ہو کے نکلی ہے
وہ آگ جس نے ترا پیرہن جلایا تھا
مجھی کو طعنۂ غارت گری نہ دے پیارے
یہ نقش میں نے ترے ہاتھ سے مٹایا تھا
اسی نے روپ بدل کر جگا دیا آخر
جو زہر مجھ پہ کبھی نیند بن کے چھایا تھا
ظفرؔ کی خاک میں ہے کس کی حسرت تعمیر
خیال و خواب میں کس نے یہ گھر بنایا تھا
ظفر اقبال
اپنے انکار کے برعکس برابر کوئی تھا
دل میں اک خواب تھا اور خواب کے اندر کوئی تھا
ہم پسینے میں شرابور تھے اور دور کہیں
ایسے لگتا ہے کہیں تخت ہوا پر کوئی تھا
اس کے باغات پہ اترا ہوا تھا موسم رنگ
قابل دید ہر اک سمت سے منظر کوئی تھا
شک اگر تھا بھی تو مٹتا گیا ہوتے ہوتے
اور اب پختہ یقیں ہے کہ سراسر کوئی تھا
اس دل تنگ میں کیا اس کی رہائش ہوتی
یعنی اندر تو نہیں تھا مرے باہر کوئی تھا
شکل کچھ یاد ہے کچھ بھول چکی ہے اس کی
کوئی دن تھے کہ مکمل مجھے ازبر کوئی تھا
دائرے میں کبھی رکھا ہی نہیں اس نے قدم
اور محبت کے مضافات میں اکثر کوئی تھا
میں اسے چھوڑ کے خود ہی چلا آیا تھا کبھی
اور اب پوچھتا پھرتا ہوں مرا گھر کوئی تھا
یاوہ گو تھا ظفرؔ اس عہد خرابی میں کوئی
یاوہ گو ہی اسے کہتے ہیں سخن ور کوئی تھا
ظفر اقبال
چائے پینے والوں کا مزاج بھی چائے کے ذائقے کی طرح☕💐🌹
میٹھا خوشبودار اور بے حد محبت بھرا ہوتا ہے
مجھے لوگ بھی چائے کے جیسے ہی پسند ہیں
نا ضرورت سے زیادہ میٹھے نا ضرورت سے زیادہ کڑوے
Its purity of heart that matters,
Not the external appearance.
Because helping hands are always
Better than praying lips…!
GOOD MORNING!!!🌞💐
آنکھوں سے مری اس لیے لالی نہیں جاتی
یادوں سے کوئی رات جو خالی نہیں جاتی
اب عمر نہ موسم نہ وہ رستے کہ وہ پلٹے
اس دل کی مگر خام خیالی نہیں جاتی
مانگے تو اگر جان بھی ہنس کے تجھے دے دیں
تیری تو کوئی بات بھی ٹالی نہیں جاتی
آئے کوئی آ کر یہ ترے درد سنبھالے
ہم سے تو یہ جاگیر سنبھالی نہیں جاتی
معلوم ہمیں بھی ہیں بہت سے ترے قصے
پر بات تری ہم سے اچھالی نہیں جاتی
ہم راہ ترے پھول کھلاتی تھی جو دل میں
اب شام وہی درد سے خالی نہیں جاتی
ہم جان سے جائیں گے تبھی بات بنے گی
تم سے تو کوئی راہ نکالی نہیں جاتی
وصی شاہ
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain